کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سامنے والا شخص جھوٹ بول رہا ہے؟

جیسیکا سیگل - ماہرِ نفسیات


کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے؟

پولیس کا خیال تھا کہ جب 17 سالہ مارٹی ٹینکلیف کو پتا چلا کہ اُن کی ماں کو چھری کے وار کر کے مار دیا گیا ہے اور اُن کے والد کو لانگ آئلینڈ میں ان کے آبائی گھر میں ڈنڈے سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے تو وہ مشکوک حد تک پرسکون نظر آئے۔

حکام نے ان کی بے گناہی کے دعووں پر یقین نہیں کیا اور انھیں قتل کے الزام میں 17 سال جیل میں گزارنے پڑے۔

لیکن ایک اور کیس میں تفتیش کرنے والوں کو لگا کہ جب 16 سالہ جیفری ڈیسکووچ کے ہائی سکول کے کلاس فیلو کو گلے میں پھندا ڈال کے مارنے کا معاملہ سامنے آیا تو وہ انتہائی پریشان تھے اور تفتیشی افسران کی مدد کرنے کے لیے بے چین نظر آئے۔ ان کے متعلق بھی یہی تصور کیا گیا کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے اور انھیں اس جرم میں تقریباً 16 سال کی سزا بھگتنی پڑی۔

ایک آدمی اتنا پریشان نہیں تھا۔ دوسرا بہت زیادہ پریشان تھا۔ پھر کس طرح ایک دوسرے سے بالکل الٹے احساسات پوشیدہ جرم کا سراغ لگانے میں مدد دے سکتے ہیں؟

سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک کے جان جے کالج آف کریمنل جسٹس میں نفسیات کی محقق ماریا ہارٹوگ کہتی ہیں کہ اس سے پتا نہیں لگایا جا سکتا کہ کون جھوٹ بول رہا اور کون نہیں بول رہا۔ دونوں افراد، جنھیں بعد میں معاف کر دیا گیا تھا، ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہوئے تھے کہ ’آپ کسی جھوٹے کو اس کے رویے سے پکڑ سکتے ہیں۔ مختلف ثقافتوں میں لوگ سمجھتے ہیں کہ نظریں بچانے، بیقراری میں چیزوں کو یہاں وہاں چھیڑنے اور اٹک اٹک کر بولنے سے جھوٹا سامنے آ جاتا ہے۔‘

حقیقت میں کئی دہائیوں کی تحقیق کے باوجود محققین کو اس سوچ کے حق میں کوئی خاص ثبوت نہیں ملے ہیں۔

ماہرِ نفسیات ہارٹوگ جن کی تحقیق ’اینوئل ریویو آف سائیکالوجی‘ میں بطور ایک شریک مصنفہ چھپی ہے، ان کے مطابق ’بطور سکالرز ہمیں جو جھوٹ کے بارے میں سب سے بڑی مشکل پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے پتا ہے کہ جھوٹ کیسے کام کرتا ہے۔‘ اس طرح کے زیادہ اعتماد سے انصاف فراہم کرنے میں سنگین غلطیاں ہوئی ہیں، اور یہ ٹینکلیف اور ڈیسکووچ اچھی طرح جانتے ہیں۔

ہارٹوِگ کہتی ہیں کہ ’جھوٹ کی نشاندہی کرنے میں غلطیاں معاشرے کو بہت مہنگی پڑی ہیں اور لوگ غلط فیصلوں کا نشانہ بنے ہیں۔‘

ماہرین نفسیات یہ طویل عرصے سے جانتے ہیں کہ جھوٹے کی نشاندہی کرنا کتنا مشکل ہے۔ 2003 میں ماہر نفسیات بیلا ڈی پاؤلو، جو اب سانٹا باربرا میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ساتھ کام کرتی ہیں، اور ان کے ساتھیوں نے سائنسی ادب کا مطالعہ کیا اور 116 ایسے تجربات جمع کیے جن میں اس بات کا موازنہ کیا گیا تھا کہ جب لوگ جھوٹ اور سچ بولتے ہیں تو ان کا رویہ کیسا ہوتا ہے۔

تحقیق میں 102 ممکنہ اشاروں کا جائزہ لیا گیا، جن میں نظریں چرانا، پلکیں جھپکنا، اونچی آواز میں بات کرنا (اسے نان وربل یا غیر لفظی اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں الفاظ کا سہارا نہیں لیا جاتا)، کندھے اچکانا، بار بار اپنے جسم کی حالت یا انداز اور سر، ہاتھ، بازو یا پیروں کی حرکت یا رکھنے کا انداز بدلنا۔

لیکن کسی اشارے سے بھی اعتماد کے ساتھ یہ نہ پتا چل سکا کہ وہ جھوٹے کی نشاندہی کر سکتے ہیں، اگرچہ کچھ تھوڑے بہت ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، جیسا کہ آنکھ کی پتلی کا بڑا ہونا اور آواز کی پچ میں ہلکا سا اضافہ۔

تین سال بعد ٹیکساس کرسچن یونیورسٹی کے ڈی پاؤلو اور ماہر نفسیات چارلس بونڈ نے 206 مطالعاتی پیپرز کا جائزہ لیا جن میں 24 ہزار 483 مبصرین شامل تھے، جنھوں نے چار ہزار 435 افراد کی چھ ہزار 651 کمیونیکیشنز کی سچائی کا اندازہ لگایا۔

نہ تو قانون نافذ کرنے والے ماہرین اور نہ ہی رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے طلبا 54 فیصد سے زیادہ غلط اور سچے بیانات میں فرق ڈھونڈ سکے۔ انفرادی تجربات میں، درستگی 31 سے 73 فیصد تک تھی، اور چھوٹی تحقیق میں زیادہ فرق تھا۔ بونڈ کا کہنا ہے کہ چھوٹے پیمانے پر تحقیق میں قسمت کا اثر واضح ہے۔ بڑے پیمانے کے مطالعے میں قسمت کا ہاتھ خارج ہو جاتا ہے۔‘

سویڈن کی یونیورسٹی آف گوٹنبرگ میں ماہر نفسیات اور اپلائیڈ ڈیٹا کے تجزیہ کار ٹموتھی لیوک کہتے ہیں کہ سائز کا یہ اثر بتاتا ہے کہ کچھ تجربات میں درستگی کا زیادہ دار و مدار قسمت پر ہو سکتا ہے۔ ’اگر اب تک ہمیں بڑے اثرات نہیں مل پائے ہیں تو شاید یہ اس لیے ہے کہ ان کا وجود ہی نہیں ہے۔‘

عام خیال یہ ہے کہ آپ کو جھوٹے اور سچے کا ان کی آواز یا طرزِ عمل سے پتہ چل سکتا ہے۔ لیکن جب سائنس دانوں نے شواہد کو دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ بہت کم اشارے ایسے ہیں جن سے سچ یا جھوٹ بولنے کا کچھ تعلق ہو۔ یہاں تک کہ کچھ تعلق بھی ایسے نہیں تھے کہ انھیں مضبوط قابل اعتماد اشارے سمجھا جائے۔

جھوٹ

تاہم پولیس کے ماہرین اکثر ایک مختلف دلیل دیتے ہیں کہ تجربات حقیقت پسندانہ نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ رضاکاروں کو، جن میں سے زیادہ تر طالب علم تھے، جھوٹ یا سچ بولنے کے لیے نفسیات کی لیبارٹریوں میں کہا گیا تھا اور انھیں ان نتائج کا سامنا نہیں تھا جیسا کہ تفتیشی کمرے میں مشتبہ مجرم یا ان افراد کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔

جان ای ریڈ اینڈ ایسوسی ایٹس کے صدر جوزف بکلے کہتے ہیں کہ مجرموں کا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا تھا۔ جوزف ہر سال ہزاروں قانون نافذ کرنے والے افسران کو طرزِ عمل یا رویے کو دیکھ کر جھوٹ کا پتہ لگانے کی تربیت دیتے ہیں۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف پورٹسمتھ کی ماہر نفسیات سمانتھا مان جب 20 سال قبل دھوکہ دہی کی تحقیق کی طرف راغب ہوئیں تو ان کا خیال تھا کہ پولیس کی اس طرح کی تنقید میں کچھ وزن ضرور ہے۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے وہ اور ان کے ساتھی ایلڈرٹ وِریج نے پہلے ایک سزا یافتہ سلسلہ وار قاتل کے کئی گھنٹوں کے ویڈیو انٹرویوز دیکھے اور تین مشہور حقائق اور تین مشہور جھوٹوں کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد مان نے 65 انگلش پولیس افسران کو کہا کہ وہ ان میں سے چھ بیانات دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کون سے صحیح اور کون سے غلط ہیں۔ چونکہ انٹرویو ڈچ زبان میں تھے لہٰذا افسران نے فیصلہ بغیر الفاظ کے اشاروں کی بنیاد پر کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ پولیس افسران 64 فیصد سے زیادہ مرتبہ صحیح تھے جو کہ چانس سے تو بہتر تھا، لیکن پھر بھی بہت زیادہ درست نہیں تھا۔ اور جن افسران کا اندازہ بہت برا تھا وہ وہی تھے جنھوں نے ’جھوٹے دوسری طرف دیکھتے ہیں‘ یا ’جھوٹے بیقرار ہو جاتے ہیں‘ جیسے نان وربل یا بغیر الفاظ والے دقیانوسی تصورات پر انحصار کیا تھا۔

حقیقت میں قاتل نے آنکھوں سے رابطہ برقرار رکھا تھا اور جھوٹ بولتے ہوئے بالکل پریشان نہیں ہوا تھا۔

مان کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لڑکا واضح طور پر بہت گھبرایا ہوا تھا، لیکن اس نے دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے رویے اور طرزِ عمل پر قابو پایا ہوا تھا۔

پہلے سے بنائے گئے تصورات سے اکثر انصاف کا خون ہو جاتا ہے

مان اور وریج کے بعد میں کیے جانے والے ایک اور مطالعے میں 52 ڈچ پولیس افسران ان جھوٹے اور سچے بیانات میں تمیز کرنے میں صرف اندازے ہی لگا سکے جن میں حقیقت میں اپنے رشتہ داروں کو قتل کرنے والے افراد ٹیلیویژن پریس کانفرنسوں کے دوران اس سے انکار کرتے تھے اور بہت پریشان دکھائی دیتے تھے۔

خاص طور پر ان افسروں کی کارکردگی بہت بری رہی جنھوں نے محسوس کیا کہ جذبات کا مظاہرہ حقیقی ہے۔ لیکن اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ مان کہتی ہیں کہ ’اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کیا ہو تو وہ کئی وجوہات کی بنا پر پریشان رہ سکتا ہے، جیسا کہ بچھتاوا یا پکڑے جانے کا خوف۔‘

کئی سال بعد بڑے پیمانے پر ان نتائج کی تصدیق کرتے ہوئے ہارٹوِگ اور بونڈ نے لوگوں کی صلاحیتوں کا موازنہ کرنے والے مطالعے کا جائزہ لیا جس میں لوگوں کے بڑے اور چھوٹے داؤ والے جھوٹ کا پتہ لگایا جا سکے۔

انھیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پولیس تفتیش کے دوران مجرموں یا غلط پکڑے گئے ملزمان کے جھوٹ کا پتہ لگانے میں لیبارٹری کے رضاکاروں کے بیان کی نسبت کوئی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

چھپانے کے لیے کچھ

سلسلہ وار قاتلوں سے لے کر لیبارٹری تجربات میں جھوٹ بولنے والے طلبا تک سبھی تجربات میں جھوٹ بولا گیا تھا۔ 2019 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں مان نے نان وربل دھوکہ دہی کی جانچ کی، جیسا کہ جب کوئی غیر قانونی سرگرمی چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ ایک قسم کا دھوکہ ہے جو بمباروں یا سمگلروں کا سراغ لگانے سے متعلق ہے۔

انھوں نے یونیورسٹی کے 52 طلبا رضاکار بھرتی کیے اور ان میں سے نصف سے کہا کہ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کشتی پر ایک لیپ ٹاپ لے جائیں جس میں حساس تصاویر تھیں۔

رضاکاروں کو کہا گیا کہ وہ بھیڑ میں گھل مل جائیں اور ’مشکوک‘ نظر نہ آئیں، کیونکہ لوگ انھیں شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ باقی گروپ کو ایک عام سا سیل فون دیا گیا کہ وہ اسے ٹرانسپورٹ کریں۔ انھیں ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئیں کہ وہ اسے چھپائیں۔

جب مان نے 104 دیگر رضاکاروں کو فیری میں سوار افراد کی ویڈیوز دکھائیں اور انھیں کہا کہ وہ ’سمگلروں‘ کی نشاندہی کریں، تو نشاندہی کرنے والوں نے صرف اندازہ ہی لگایا اور کوئی بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے۔

اس کے بعد کے انٹرویوز میں ’سمگلروں‘ نے کہا کہ وہ گھبراہٹ کا شکار تھے، لیکن انھوں نے شعوری طور پر نارمل ہونے کی ایکٹنگ کی اور اپنے اعصاب کو قابو میں رکھنے کے لیے موسیقی سننے یا فون استعمال کرنے جیسے حربے استعمال کیے۔

اس کے بعد مان نے اس سے بھی بڑا تجربہ کیا۔ 60 رضاکاروں پر مشتمل ایک نئے گروپ کے نصف حصے کو چھپانے کے لیے روسی، مصری اور کوریائی کرنسی کا ایک لفافہ دیا گیا، جبکہ باقی آدھے حصے کو کچھ سمگل نہیں کرنا تھا۔ لیکن اس مرتبہ، مان نے دو محققین کو کشتی پر بھیجا تاکہ مسافروں کی جانچ پڑتال کر سکیں، اور ایک سیل فون پربھیجی گئی تصاویر سے ان کے چہروں کا موازنہ کرتے نظر آئیں۔

اس بار 120 مبصرین صرف 39.2 فیصد مرتبہ ہی ویڈیو پر ’سمگلروں‘ کا درست اندازہ لگا سکے، جو کہ چانس سے تو کم ہی ہے۔ مان کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’سمگلروں‘ نے شعوری طور پر معمولی نظر آنے کی کوشش کی، جبکہ ’بے گناہ‘ کنٹرولڈ رضاکاروں کا رویہ قدرتی رہا۔ غیر متوقع طور پر جانچ پڑتال نے انھیں حیران کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ مبصرین کو پشیمان مجرم نظر آئے۔

20 ویں صدی میں جھوٹ کا پتہ لگانے والی تکنیکیں بہت زیادہ ناقص تھیں
20 ویں صدی میں جھوٹ کا پتہ لگانے والی تکنیکیں بہت زیادہ ناقص تھیں

فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ماہر نفسیات رونالڈ فشر جو ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو تربیت بھی دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ دھوکہ دہی کرنے والے دھوکہ دہی کی تحقیق کے ’مسنگ پیس‘ کو کامیابی کے ساتھ چھپا سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے مطالعے لوگوں کے داخلی جذبات کا موازنہ ان سے نہیں کرتے جو دوسرے نوٹس کرتے ہیں۔ پوری بات یہ ہے کہ جھوٹے لوگ ضرور زیادہ گھبراتے ہیں، لیکن یہ ایک اندرونی احساس ہوتا ہے، اس سے قطعی مختلف کہ وہ اس وقت کیسا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں جب دوسرے انھیں دیکھتے ہوں۔‘

اس طرح کے مطالعے سے محققین بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے نان وربل اشاروں کی تلاش چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لیکن کیا جھوٹے کو پکڑنے کے کچھ اور بھی طریقے ہیں؟ آج کل، امکان ہے کہ دھوکہ دہی کی تحقیقات کرنے والے ماہر نفسیات زبانی اشاروں پر زیادہ توجہ دیں، خاص طور پر جھوٹے اور سچ بولنے والوں کے بیانات میں فرق کو بڑے کینوس پر دیکھنے کے طریقوں پر۔

مثال کے طور پر انٹرویو کرنے والے ایک حکمت عملی کے تحت ثبوت کو طویل عرصے تک روک سکتے ہیں، جس سے مشتبہ شخص کو آزادانہ طور پر بولنے کا زیادہ موقع ملتا ہے، اور اس طرح جھوٹے افراد زیادہ متضاد بیانات دے سکتے ہیں۔

ہارٹوِگ نے ایک تجربے میں 41 نئے پولیس اہلکاروں کو یہ تکنیک سکھائی، جنھوں نے بعد میں تقریباً 85 فیصد مرتبہ جھوٹوں کو صحیح طور پر شناخت کیا، جبکہ اس کے مقابلے میں مزید 41 نئے بھرتی ہونے والوں نے جنھیں یہ ٹریننگ نہیں دی گئی تھی 55 فیصد مرتبہ ایسا کیا۔ ہارٹوِگ کا کہنا ہے کہ ’ہم درستگی کی شرحوں میں نمایاں بہتری کی بات کر رہے ہیں۔‘

انٹرویو کرنے کی ایک اور تکنیک میں مشتبہ افراد اور گواہوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سوچ سے کسی جرم یا عدم موجودگی کے کسی بہانے کا خاکہ بنائیں۔ کیونکہ اس میں یاد کرنا پڑتا ہے، اس لیے شاید سچ بولنے والے زیادہ تفصیلات بتائیں۔

گذشتہ سال مان اور ان کے ساتھیوں کے شائع کردہ جاسوس مشن کے ایک مطالعہ میں 122 شرکاء سکول کے کیفے ٹیریا میں ایک ’ایجنٹ‘ سے ملے، ایک کوڈ کا تبادلہ کیا، اور پھر ایک پیکیج وصول کیا۔

اس کے بعد جب شرکا کو کہا گیا کہ اس بارے میں سچ بتائیں کہ کیا ہوا تو 76 فیصد نے ’سکیچنگ انٹرویو‘ کے دوران اس مقام پر ہونے والے تجربات کے بارے میں زیادہ تفصیل بتائی۔

اس مطالعہ کی شریک مصنف یونیورسٹی آف پورٹسمتھ کی ماہر نفسیات ہانین ڈیب کہتی ہیں کہ جب آپ خاکہ نگاری کرتے ہیں، تو آپ کسی واقعہ کو زندہ کر رہے ہوتے ہیں، لہذا اس سے یادداشت میں مدد ملتی ہے۔‘

یہ تجربہ برطانوی پولیس کی مدد سے تیار کیا گیا تھا، جو باقاعدگی کے ساتھ ’سکیچنگ انٹرویوز‘ کا استعمال کرتی ہے اور نفسیات کے محققین کے ساتھ مل کر ایسے انداز میں پوچھ گچھ کرتی ہے کہ اس میں پچھتاوے والے سوال نہ پوچھے جائیں۔ یہ طریقہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں غلط سزا اور بدسلوکی کے سکینڈلز سامنے آنے کے بعد رائج کیا گیا تھا۔

تبدیلی کی رفتار میں کمی

امریکہ میں ابھی سائنس پر مبنی اس طرح کی اصلاحات پوری طرح پولیس اور سیکیورٹی کے دیگر عہدیداروں تک نہیں پہنچی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کا ٹرانسپورٹیشن سکیورٹی ایڈمنسٹریشن شعبہ ابھی بھی ہوائی اڈے کے مسافروں سے پوچھ گچھ کے لیے نان وربل ڈسیپشن کے اشارے استعمال کرتا ہے۔

ایجنسی کی خفیہ رویے کی سکریننگ چیک لسٹ ایجنٹوں کو بتاتی ہے کہ وہ مشتبہ ’جھوٹے افراد‘ کی ان چیزوں پر توجہ دیں جیسا کہ ’نظریں بچانا‘ اور زیادہ دیر تک تکتے رہنا، لمبی جماہیاں لینا، تیزی سے آنکھیں جھپکنا، شکایت کرنا، سیٹی بجانا، بولتے ہوئے منہ کو ڈھانپنا، اور زیادہ بیقراری اور نجی گرومنگ وغیرہ۔ محققین نے ان سب کو مکمل طور پر غلط ثابت کیا ہے۔

ایجنٹوں کے اس طرح کے سلوک کی متضاد بنیادوں کی وجہ سے یہ شاید حیرت کی بات نہیں ہے کہ مسافروں نے 2015 سے 2018 کے درمیان 2251 رسمی شکایات درج کروائی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کو قومیت، نسل یا دیگر وجوہات کی بنا پر پروفائل کیا گیا ہے۔

کانگریس کے ذریعے ٹی ایس اے (ٹرانسپورٹیشن سکیورٹی ایڈمنسٹریشن) ایئرپورٹ سکریننگ کے طریقوں کی جانچ 2013 سے ہو رہی ہے، جب امریکی حکومت کے احتساب کے ادارے نے رویے کی جانچ کے سائنسی شواہد کا ازسرِ نو جائزہ لیا تھا اور اسے نامکمل پایہ تھا۔

یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ ٹی ایس اے کے فنڈز کو محدود کیا جائے اور اس کے استعمال کو کم کیا جائے۔ اس کے ردِ عمل کے طور پر ٹی ایس اے نے رویے کا پتہ لگانے والے افسران کے استعمال کو ختم کر دیا اور چیک لسٹ کو 94 سے کم کر کے 36 تک لے آئے، لیکن اس کے باوجود بہت سے غیر سائنسی اشاروں کے استعمال کو برقرار رکھا جیسے زیادہ پسینہ آنے کا نشان۔

جھوٹ
جب پوچھ گچھ کی جاتی ہے تو لوگ اکثر نروس ہو جاتے ہیں، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں

کانگریس کی جانچ پڑتال کی تجدید کے جواب میں 2019 میں ٹی ایس اے نے پروفائلنگ کو کم کرنے کے لیے عملے کی نگرانی کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن اب بھی ایجنسی نے رویے یا انسانی طرز عمل کی سکریننگ کی قدر دیکھنی جاری رکھی ہے۔

جیسا کہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے عہدیدار نے کانگریس کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’عام سمجھ بوجھ‘ کے رویے کے اشاروں کو ’عقلی اور قابل تحفظ حفاظتی پروگرام‘ میں شامل ہونا چاہیئے، چاہے وہ سائنسی ثبوتوں کے علمی معیار پر پورا نہ بھی اترتے ہوں۔

ٹی ایس اے نے گذشتہ 11 برسوں میں دو الگ الگ طرز عمل کی نشاندہی کی کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں تین مسافروں کو دھماکہ خیز یا آگ لگانے والے آلات کے ساتھ ہوائی جہازوں میں سوار ہونے سے روکا گیا تھا۔

لیکن مان کہتی ہیں کہ بغیر یہ جانے کہ کتنے مستقبل کے دہشت گرد سیکیورٹی سے بغیر شناخت گزر چکے ہیں، اس طرح کے پروگرام کی کامیابی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

سنہ 2019 میں مان، ہارٹوِگ اور دیگر 49 یونیورسٹی کے محققین نے رویے کے تجزیے کی سکریننگ کے ثبوت کے متعلق ایک جائزہ پیش کیا، جس میں انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے افسران کو اس ’بنیادی طور پر گمراہ کن‘ نقلی سائنس کو خیرباد کہنا چاہیئے، جس سے سے لوگوں کی انفرادی آزادی اور زندگیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دریں اثنا ہارٹوِگ نے قومی سلامتی کے ماہر مارک فالون کے ساتھ مل کر تفتیش کاروں کے لیے ایک نیا تربیتی نصاب تشکیل دیا ہے جس میں سائنس پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔ فالون کہتے ہیں ’ترقی کی رفتار سست رہی ہے، لیکن انھیں امید ہے کہ آئندہ اصلاحات کے بعد لوگ اس طرح کی بے انصافیوں سے بچ جائیں گے جیسی جیفری ڈیسکوچک اور مارٹی ٹانکلیف کے ساتھ ہوئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp