دہشت کی علامت لادی گینگ کا پس منظر


ڈی جی خان کے شمال مغرب میں 30 کلومیٹر کی مسافت پر کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ موجود ہے۔ اس پہاڑی سلسلہ میں داخلے کا ایک راستہ ہے جسے درہ سفیدو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سنگلاخ قبائلی علاقہ دشوار گزار راستوں اور ذرائع آمدورفت نہ ہونے کی وجہ سے عملاً ناقابل رسائی جگہ ہے۔ یہاں پر بلوچ قبائل کی ایک شاخ لادی آباد ہے۔ آج سے دو روز قبل یہ علاقہ اس وقت خبروں میں آیا جب یہاں کے بدنام زمانہ لادی گینگ نے تین لوگوں کو مخبری کے شبہ میں اغوا کیا۔ دو کے اعضا کاٹنے کی باقاعدہ ویڈیوز بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔

یہ ظلم اور بربریت پر مشتمل ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوئی اور وزیراعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس علاقے میں پولیس اور رینجرز کو آپریشن کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عموماً گینگز یا ڈکیت گروپوں کا سنتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں خیال آتا ہے اور ویسے فلموں، قصے کہانیوں میں جیسے بیان کیا جاتا رہا ہے کہ کسی مظلوم جوان یا قبیلے نے پولیس اور وڈیروں کے ظلم سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھائے اور دیکھتے دیکھتے ہی خوف کی علامت بن گئے۔

مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے لادی گینگ دراصل لادی قبیلے کے مسلح نوجوانوں پر مشتمل ایک گروہ تھا جس نے اس علاقے میں بنائی جانے والی سیمنٹ فیکٹری کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔ مقامی صحافی اور قبائلی رہنما جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر یہ کہانی بیان کی کہ سن 1984 میں سردار عطا محمد کھوسہ کے ایما پر مقامی مسلح افراد نے محمد خان لادی کی قیادت میں فیکٹری پر حملہ کیا اور 6 دن تک فیکٹری ہر قبضہ کیے رکھا جو کہ بعد میں فیکٹری انتظامیہ اور مقامی سرداروں کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت ختم کیا گیا۔

اس معاہدے کے تحت سیمنٹ فیکٹری کی جانب سے 8 لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جانے تھے، مزدور بھی مقامی آبادی سے لیے جانے تھے۔ جبکہ وہاں پر تعمیراتی کام بھی مقامی سردار کی اجازت سے ہونے تھے۔ (اس حوالے سے سردار عطا محمد کھوسہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے واقعہ میں اپنے کردار کے حوالے سے تردید کرتے ہوئے اسے خالصتاً مقامی آبادی کی اپنے حق کے لئے لڑنے والی تحریک قراردیا) رقم تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں علاقے کو جانے والی بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں کو فائرنگ کر کے تباہ کر دیا جاتا تھا۔

زیادہ تاخیر کی صورت میں پتھر کھینچنے والے بیلٹ کو برسٹ مار کر توڑ دیا جاتا تھا۔ یہ علاقہ چونکہ بارڈر ملٹری پولیس کے زیر اثر ہے اور عموماً جمعدار یا رسالدار مقامی سرداروں کے بھانجے یا بھتیجے یا بیٹے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کے بجائے مبینہ طور پر سرپرستی کا عمل جاری رہا۔ اس وقت بھی جمعدار اور رسالدار سردار محسن عطا کھوسہ کے بھتیجے ہیں۔ 2012 میں جب بوسن گینگ اور چھوٹو گینگ نے راجن پور، روجھان اور جام پور کے کچے کے علاقے سے نکل کر شہری آبادی میں ڈکیتیوں، راہزنی، اور اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع کیا تو ان مسلح افراد نے بھی دیکھا دیکھی درہ سفیدو سے اتر کر قبائلی سے ملحقہ تھانہ کوٹ مبارک، شاہ صدر دین اور تھانہ کالا کے علاقوں میں ڈکیتیوں، موٹرسائیکل، گاڑیاں چھیننے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا آغاز کر دیا۔

جدید اسلحے سے لیس یہ ملزمان باآسانی اپنی کارروائیاں کر کے درہ سفیدو میں اپنے علاقے تمن کھوسہ میں فرار ہو جاتے تھے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی مذکورہ بالا علاقوں میں شہریوں نے مغرب کے بعد گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا۔ جس کے بعد اس مسلح گروہ جو کہ لادی قبیلے پر مشتمل تھا، نے لادی گینگ کی شکل اختیار کی۔ یہ گینگ دیکھتے پی دیکھتے ان علاقوں میں خوف کی علامت بن گیا۔ دو ہزار 12 میں جب دیگر گینگز کے خلاف آپریشن کیا گیا تو لادی گینگ کے خلاف بھی کارروائی کی گئی مگر مقامی سرداروں کی سرپرستی کہ وجہ سے اس آپریشن کی شدت دیگر آپریشنز کی نسبت واجبی سی تھی۔

سیاسی سرپرستی، افغانستان، بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقہ جنوبی پنجاب کے جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت بن گیا۔ چوری ہونے والی گاڑیاں، ٹریکٹر اور موٹر سائیکلیں یہاں منتقل کی جاتی ہیں اور یہاں سے بلوچستان کے راستے افغانستان اور سندھ میں اسمگل کی جاتی ہیں۔ لادی گینگ کے پاس اینٹی ائر کرافٹ گنز، راکٹ لانچر، ایس ایم جیز اور جدید دوربینیں موجود ہیں۔ مقامی ذرائع، صحافیوں اور تھانہ کوٹ مبارک میں تعینات رہ چکے سینئر پولیس افسر (جنہوں نے 4 سال کی سروس اس گینگ کا قلع قمع کرتے ہوئے گزاری) کے مطابق لادی گینگ 100 سے زائد اشتہاریوں پر مشتمل ہے جن کی تربیت سابقہ ایس ایس جی کمانڈو نے کی جو کہ ایک مقدمہ میں اس وقت جیل کاٹ رہا ہے۔

سینئر پولیس افسر جو کہ تھانہ کوٹ مبارک میں اس گینگ کے خلاف کارروائی اور آپریشن میں حصہ لے چکے ہیں نے اس سوال پر کہ آخر آپریشن ہونے کے باوجود یہ گینگ اتنے عرصے سے کیسے فعال ہے پر پولیس آپریشن کی ناکامی کی وجہ اس گینگ کے پاس پہاڑی دروں کی پوزیشنز، جدید اسلحہ، مقامی آبادی اور پولیس میں موجود جاسوس اور سیاسی سرپرستی کو قراردیا۔ ان کے مطابق کارروائی میں ہمیشہ پولیس کو اینٹی کرافٹ گنوں اور راکٹ لانچروں کی وجہ سے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور اہلکاروں کے پاس جدید اسلحہ کی عدم موجودگی سے پھیلنے والی مایوسی بھی آپریشن کے اختتام کی وجہ بنتی رہی۔

2019 میں پولیس کو اس گینگ کے بانی اور سرغنہ کے خلاف اس وقت کامیابی ملی جب اس گینگ کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹریس کیا گیا اور محمد خان لادی پولیس مقابلے میں مارا گیا جس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد اس کے دو بیٹے بھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے۔ جس کا سہرا بھی انہی سینئر پولیس افسر کے سر جاتا ہے جنہوں نے بڑی مہارت سے تینوں کو ٹریس کر کے دلیری سے پولیس مقابلے میں جہنم واصل کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ سے لے کر تونسہ تک کے بیس سے 25 کلومیٹر علاقے میں اس گینگ کا تسلط ہے۔

یہ گینگ سیمنٹ فیکٹری سے بھتہ اس وقت تک وصول کرتا ہے۔ آپسی مخالفین اور دھڑے بندی کے بعد گزشتہ 3 ماہ میں اس گینگ سے علیحدہ ہونے والے جرائم پیشہ افراد نے قبرستانوں تک میں ناکے لگا کر لوٹنا شروع کر دیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق اغوا ہونے والے تینوں افراد دراصل اسی گینگ کا ہی حصہ تھے جنہوں نے سیمنٹ فیکٹری سے بھتہ لینے والے اشتہاری کی مخبری کر کے اسے راستے سے ہٹوایا تھا۔ جس کے بعد ان تینوں افراد کو اغوا کر کے ویڈیو جاری کر کے انتشار کا شکار گینگ میں موجود افراد اور مخالفین کو نشان عبرت بنانے کا پیغام دیا گیا۔

اس وقت بھی یہ حالات ہیں شاہ صدر دین، کوٹ مبارک میں مغرب کے بعد کوئی گاڑی یا بائیک پر باہر نہیں نکلتا ہے۔ جو بدقسمت نکلتا ہے اس کو اپنے قیمتی سامان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ مقامی صحافی اور سینئر پولیس افسر اس بات پر متفق نظر آئے کہ اگر رینجرز اور پاک فوج کی جانب سے آپریشن کیا گیا تو اس کی کامیابی کے 100 فیصد امکانات ہیں کیونکہ دونوں فورسز نے مقامی سرداروں اور سیاسی پریشر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک منظم کارروائی کرنی ہے جس سے اس گینگ کا مستقل قلع قمع کیا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments