شیخ سحر بلتستان کے ایک پر اسرار شخص تھے


بلتستان کے شیخ سحر دنیا کے واحد غریب اور بے گھر انسان تھے جن کے جنازے پر شہر امڈ آیا اور لوگ پھوٹ پھوٹ کر رویے۔ آج کے زمانے میں ولیوں کے قصے کتابوں میں ہی ملتے ہیں مگر شیخ سحر کا مقام بہت بلند تھا اتنا بلند کے زمانے کے نامی گرامی لوگ ان کے سحر میں مبتلا تھے۔ اہل ادب، لکھاری، صحافی اور اہل سیاست سے لے کر افسر شاہی اور مذہبی لوگوں تک سب شیخ سے ملنے کی تمناء رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ ملاقات کے لئے وقت یا جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جہاں قسمت نے ساتھ دیا وہاں شیخ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تھا۔

میں کئی بار سکردو گیا اور شیخ سے ملنے کی جستجو جاری رہی۔ ایک دن معروف کالم نگار قاسم نسیم کے دفتر میں چند لمحات کے لئے ملاقات ہوئی۔ دفتر کی فضاء شیخ کی شخصیت کی خوشبو سے معطر تھی۔ چہرے پر بھلا کا اطمینان اور سکون تھا، آنکھوں میں ایسی چمک کہ انسان دیکھتا رہ جائے۔ بہت دیر تک ان کو تکتا رہا۔ میں جی بھر کے ان کو دیکھنا چاہتا تھا مگر شیخ صاحب حسب عادت چند منٹ ساتھ رہے۔ بہت ہی دھیمے انداز میں کچھ گفتگو کی اور چلے گئے۔ ہم نے قاسم نسیم صاحب کے دفتر سے باہر نکل کر ان کو رخصت کیا اور پیچھے سے دیکھتے رہے وہ بہت ہی پرسکون انداز میں دھیرے دھیرے نامعلوم مقام کی طرف چلے گئے۔

ان کا کوئی باضابطہ ٹھکانہ نہیں تھا۔ جہاں رات ہوتی وہی ٹھہر جاتے تھے۔ ان کا کل اثاثہ حیات ایک جوڑا کپڑے، ایک چھوٹی سی ڈائری اور چند کاغذ کے ٹکڑے تھے۔ اپنا یہی زاد راہ وہ پلاسٹک کے ایک تھیلے میں ساتھ رکھتے تھے۔ گرمیوں میں گرم علاقوں کا رخ کرتے اور سردیوں میں واپس سکردو پہنچ جاتے۔ اکثر دریا، نالہ یا بہتے پانی کے پاس بیٹھ جاتے تھے۔ سکردو میں ہرگیسیا نالہ ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اپنے پسند کے لوگوں سے گفتگو کرتے ورنہ اکثر خاموشی اختیار کرتے تھے۔

ان کے ایک بھائی تھے جن کا نام مہدی تھا۔ بھائی نے ان سے شگر میں واقع ابائی گھر اور زمین کے بٹوارے کے بارے میں بات کی اور کہا کہ گاؤں کے چند بزرگوں کو لاتے ہیں جو ہم دو بھائیوں کے درمیان وراثتی زمین تقسیم کریں گے۔ شیخ سحر نے بھائی سے کہا کسی کو بلانے کی زحمت نہ کریں میں خود زمین تقسیم کرتا ہوں۔ پھر کہنے لگے ساری زمین گرمیوں کے موسم میں آپ کی ہوگی اور سردیوں میں میری ہوگی۔ بلتستان میں شدید سردی پڑتی ہے اور کسی قسم کی فصل نہیں اگتی ہے۔ گویا سردیوں میں کاشتکاری کی زمین کسی کام کی نہیں ہوتی ہے۔ مہدی سمجھ گیا کہ بھائی کو دنیا کی دولت کی لالچ نہیں۔ آبائی گھر اور زمینیں شگر میں تھی لیکن وہاں بہت کم جاتے تھے۔

شیخ صاحب ہر طرح کی دنیاوی منفعت سے بے نیاز تھے۔ شیخ صاحب کو شہر کے سب سے بڑے مدرسے میں مستقل درس کے لئے مدعو کیا گیا اور ساتھ میں رہائش اور وظیفے کی پیشکش بھی ہوئی۔ شیخ صاحب نے مدرسے کے مہتمم کو پیغام بھیجا اور کہا ”علم بیچنے کی چیز نہیں ہے اگر علم بھیجنا ہوتا تو سب سے زیادہ علم مولا علیؑ کے پاس تھا وہ علم بیچتے اور یہودی کے باغ میں مزدوری نہیں کرتے“

ایک دن ریڈیو پاکستان اسلام آباد نے کشمیر کے موضوع پر ایک مشاعرے میں شرکت کے عوض مبلغ دو ہزار کا چیک دیا تو شیخ صاحب نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہ مظلوم کشمیروں کے لئے بھیج دو مجھ سے زیادہ وہ اس کے حقدار ہیں۔

شیخ صاحب نے لبنان سے دینی علم حاصل کیا تھا۔ شیخ صاحب عراق کے مشہور شیعہ عالم دن، حزب اسلامی دعوت کے بانی اور فلاسفر آیة اللہ العظمى السید محمد باقر الصدر کے شاگرد رہے تھے۔ 1980 میں صدام حسین نے جب محمد باقر الصدر اور ان کی بہن آمنہ صدر بن ال لہدا کو پھانسی دی تو شیخ صاحب واپس وطن لوٹے اور کراچی میں رہنے لگے۔ پھر ہر سال گرمیوں میں بلتستان آنے کا سلسلہ چلتا رہا۔

وہ تاریخ کے مضمون میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبار سے دور تھے لیکن حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ دنیا کے اہم معاملات پر سیر حاصل گفتگو کر سکتے تھے۔

ان کو بلتستان میں شاعر چہار زبان کہا جاتا تھا۔ اردو، عربی، فارسی اور بلتی میں عبور حاصل تھا اور چاروں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ انگریزی بھی ان کی پسندیدہ زبان تھی۔ سائنس کو اصل تعلیم سمجھتے تھے۔ جہموریت اور انسانی حقوق پر گہرا یقین رکھتے تھے۔ جہموریت کے علاوہ تمام نظام حکومتوں کے سخت مخالف تھے۔ ڈکٹیٹر شب کے خلاف کھل کے اظہار خیال کرتے تھے۔ مشرف کے دور حکومت کے خلاف سخت اور انقلابی اشعار کہے جو کئی حلقوں کو ناگوار گزرے۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا۔

آئین کا گردن موڑ کر جمہوریت کو توڑ کر
کرسی پہ آ بیٹھے ہو کیوں تم سرحدوں کو چھوڑ کر

سائنسی علوم کو انسانی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ایک دن کسی بڑے مدرسے میں گئے۔ مہتمم نے کہا کہ آپ کو مدرسے کے سب سے ذہین طالب علم سے ملاتا ہوں۔ شیخ صاحب طالب علم سے ملے اور ان سے کچھ سوالات پوچھے، طالب علم نے فر فر جواب دیا۔ شیخ صاحب نے طالب علم کو قریب بلایا اور کہنے لگے بیٹا یہاں سے نکلو آپ کا مقام بہت بلند ہے آپ سائنس کا علم حاصل کرو۔

حیران کن بات تھی شیخ صاحب امریکہ نواز تھے امریکہ کی طاقت کو قدرت کی عنایت قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا سائنس ہی اصل علم ہے۔ امریکہ نے سائنس کو اپنا لیا اس لئے اس کا سپر پاور ہونے کا حق بنتا ہے۔

زندگی کی حقیقتوں پر روشنی ڈالتے تو سننے والے ورطہ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔ شاعری زیادہ تر صوفیانہ اور انقلابی موضوعات پر کرتے تھے۔ شہرت اور دولت دونوں کی لالچ نہیں تھی اس لئے نہ کبھی مجموعہ کلام چھپانے کے لئے فکر مند تھے اور نہ محافل میں جاکر واہ واہ سمیٹنے کے قائل تھے۔ ان کا شکوہ اور جواب شکوہ بھی مشہور تھا۔ زندگی پر ان کے کہے ہوئے یہ اشعار بہت مشہور تھے۔

کب تلک دیکھے گی یہ دنیا سراب زندگی
پی کے کس نے قے نہیں کی ہے شراب زندگی

اک جھلک دنیا کی دیکھی اور چلا سوئے عدم
لو یہ ہے انسان ترا لب و لباب زندگی

وہ ایک پر اسرار شخصیت کے مالک تھے۔ کھانے میں سبزی اور دال ان کی مرغوب غذا تھی۔ ان کی شخصیت میں بھلا کی کشش تھی۔ جو ہر کسی کو ان کا گرویدہ بنا دیتی تھی۔ وہ ایک حقیقی صوفی، فقیر، درویش، ملنگ، ادیب، شاعر، مفکر، فلاسفر اور ولی تھے۔ وہ ایک حقیقی اور سچا کردار تھے۔ ساری زندگی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور کردار کی بلندی کو آنچ آنے نہیں دی۔ ان جیسی پاکیزہ اور عملی زندگی گزارنے والی شخصیت آج کی دنیا می بہت کم ملتی ہیں۔

شیخ صاحب بے مثال تھے۔ میں ان کا پکا مرید اور مداح تھا۔ بلتستان سے ہماری بے پناہ محبت کی اصل وجہ شیخ صاحب تھے۔ ان کی زندگی پر لکھتے رہیں گے تو صفحے بھرتے جائیں گے لیکن داستان ختم نہیں ہوگی۔ آج ان کی اچانک وفات کی خبر سن کر دلی صدمہ ہوا۔ ان کی زندگی سے متعلق جاننے والا ہر شخص ہماری طرح اشکبار ہے۔ ان کے درجات یہاں بھی بلند تھے یقیناً ابدی زندگی میں بھی بلند ہی رہیں گے۔ ان کی وفات پر ہم ان کے رشتہ داروں کے علاوہ اہل بلتستان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments