لیاقت علی خان کی غلطی اور کشمیر


تنقید کا ہتھیلی پر گل، جس کی مہک سے معاشرے کی فضا معطر ہو جاتی ہے، کھلانے والے کی پیٹھ پر اگر گالی کے کوڑے برسائے جائیں تو تحقیق کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، اور جب کسی خطہ ارض پر محققین کے اشجار کا سایہ نہ ہو تو جہالت کی چلچلاتی دھوپ میں لوگ اختلاف رائے کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، آج سے کچھ تین سال قبل صاحب تیشہ نظر نے لکھا تھا کہ دلیل قتل نہیں ہوا کرتی، بات تو برہان تھی مگر دلیل قتل ہو نہ ہو دلیل دینے والا ضرور قتل ہو جاتا ہے، اگر کسی خوش قسمت کے بخت ساتھ دیں تو وہ قتل سے بچ جاتا ہے مگر ملک پاک سے ہجرت بہرحال لازم ٹھہرتی ہے، ہجرت سے غامدی صاحب یاد آ گئے ہیں، وہ بھی روایتی علماء سے اختلاف روا رکھتے تھے، دلیل کی عمارت خوب تعمیر کرتے تھے، ان کو بھی اہل ایمان کے شر سے بچنے کے لیے اہل کفار کے ہاں پناہ ڈھونڈنی پڑی، معاشرے کی روایات سے اختلاف کرنے والے کے ماتھے پر کفر کا ٹیکہ لگا دیا جاتا ہے یا غداری کا چغہ پہنایا جاتا ہے۔

آزادیٔ اظہار یہاں جس کا چلن ہے
کہتے ہیں کہ کافر ہے یا غدار وطن ہے
اب تیغ ہی قاتل بھی ہے قاضی کا قلم بھی
اٹھو کہ وہی معرکہ روح و بدن ہے

امام الہند بھی، محی الدین جن کا نام ہے، ابوالکلام لقب اور آزاد تخلص، لیڈران مسلم لیگ سے اختلاف کر کے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے تھے، مولانا کی پھر وہ کردار کشی کی گئی کہ آج تاریخ پڑھتے ہوئے ندامت کے بحر عمیق میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے، کسی نے مولانا کو بہروپیا کہا تو کسی نے کانگریس کا ایجنٹ، تاریخ بھی ستم ڈھانے والوں پر خوب ستم ڈھاتی ہے، مولانا پر لگنے والے تمام الزامات تاریخ نے کوڑے دان میں ڈال دیے، مگر کچھ باشندگان پاکستان سے آج بھی برداشت نہیں ہوتا کہ مولانا نے مسلم لیگیوں سے اختلاف کی جرات مولانا نے کیوں کر دکھائی، عصبیت جب عقل پر غالب آ جائے تو حقائق مسخ ہونے میں دیر نہیں لگتی، مولانا یہی کہتے تھے کہ مسلم لیگ برصغیر کی تقسیم کے لیے پلان پیش کر رہی ہے وہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے لیے مفید نہیں، مولانا مفکر تھے، اس لیے سطحی سوچ رکھنے والے ان کو نقطہ نظر کو سمجھ نہ سکے، بہرحال بر صغیر مسلم لیگ کے پلان کے مطابق تقسیم ہو گیا، تقسیم کے بعد پھر کیا کیا مسائل مسلمانوں کو درپیش ہوئے تاریخ کی مستند کتابوں میں دیکھے جا سکتے ہیں، جیسا کہ آغا شورش کاشمیری کی تصنیف ’ابوالکلام آزاد‘ میں، ہندوستان کی ریاست چوں کہ طاقتور تھی اس لیے اس نے اپنے جغرافیے میں آنے والی ریاستوں کو زبردستی ساتھ ملا لیا، حیدر آباد دکن وغیرہ، کشمیر میں ہندوستانی فوجیں داخل ہو گئیں، تھوڑا سا حصہ تو قبائلیوں کی مدد سے پاکستان نے حاصل کر لیا مگر بقیہ حصے میں ہندوستانی فوج کا کنٹرول تھا، کوئی صورت نہ تھی کہ سارا کشمیر پاکستان کے قبضے میں آ جاتا، مگر قدرت نے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم کو ایک عظیم موقع عطا کیا، جس کو گنوا دیا گیا، اس بات کی گواہی متحدہ پنجاب کے وزیراعظم سکندر حیات خان کے صاحب زادے سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب گم گشتہ قوم (The Nation that lost its soul) میں دی ہے، سردار صاحب لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کو حقائق اور جغرافیے سے بھرپور واقفیت نہ تھی، کشمیر پر ہندوستانی حملے کے دوران جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان آیا تو اس نے سردار پٹیل کا پیغام لیاقت علی خان کو دیا کہ پاکستان اگر ریاست حیدر آباد دکن کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے تو ہندوستان کشمیر سے اپنی فوج واپس بلا لے گا اور کشمیر پاکستان کو مل جائے گا، سردار شوکت حیات لکھتے ہیں کہ میں اس وقت کشمیر آپریشن کا نگران تھا، میں نے لیاقت علی خان کو تجویز دی کہ ہم کبھی بھی فوج اور قبائلیوں کی مدد سے کشمیر کو حاصل نہ کر سکیں گے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہمیں سردار پٹیل کی آفر کو قبول کرتے ہوئے حیدرآباد کی ریاست سے دستبردار ہو کر کشمیر لے لینا چاہیے، سردار شوکت حیات کی اس تجویز پر لیاقت علی خان نے جو جواب دیا وہ سونے کے پانی سے چاندی کے ورق پر لکھنے لائق ہے۔

”سردار صاحب کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے ریاست حیدرآباد دکن کو چھوڑ دوں جو پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے“

سردار شوکت حیات نے لیاقت علی خان کو حیدر آباد کے مطالبے دستبردار ہونے کی صلاح اس لیے دی تھی کہ زمینی و سمندری جغرافیے سے ریاست حیدر آباد پاکستان کے قریب نہ تھی اور آبادی کی اکثریت بھی ہندو تھی، ایک وقت تھا کہ ہندوستان ایک معمولی شرط پر کشمیر کو ہمارے حوالے کرنے پر رضا مند تھا، مگر ہم دور کی کوڑی لانے پر بضد تھے، زیادہ لینے کے چکر میں دونوں ہاتھ خالی رہ گئے اور جھولی میں بھی چھید ہو گئے، اگر کسی ہندوستانی نے پوچھ لیا کہ آپ کے وزیر اعظم نے تو کشمیر کو پہاڑوں کی سرزمین سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا تو پھر؟ شکر ہے کہ کسی ہندوستانی نے یہ کتاب نہیں پڑھی اور اگر پڑھی ہے تو پھر یہ سوال نہیں اٹھایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments