سندھ میں کچے کے پکے ڈاکو


یہ نہیں معلوم کہ سندھ کا نام یہاں بہنے والےدریا کے لئے بالائی خطوں کی زبانوں میں مستعمل نام ‘سن’ یا ‘سین’ سے اسم مشتق ہے یا پھر دریا خود اپنی آخری منزل سے منسوب۔ سندھو دریا تبت سے بحیرہ عرب تک ہر جگہ ایک داستان چھوڑ آتا ہے۔ کہیں یہ اتنا پھیل جاتا ہے کہ ایک سے دوسرے کنارے تک نظر نہیں پہنچتی اور کہیں سمٹ کر ایک ندی بن جاتا ہے۔ کہیں اس دریا کو مقدس سمجھ کر اس کی پرسش کی جاتی ہے تو کہیں یہ مثل آفت خوف کی علامت بن جاتا ہے۔ کہیں یہ مال و دولت لٹاتا ہے تو کہیں سب کچھ لوٹ کر لے جاتا ہے۔ کہیں یہ کھلیانوں کو لہلہاتا ہے تو کہیں پکی فصلیں بھی اجاڑ دیتا ہے۔

فلک بوس کہساروں، سبزہ زاروں، نخلستاںوں، ریگزستانوں اور صحراؤں سے گزر کر اپنی منزل تک پہنچنے والے اس دریا کے کناے کئی رنگوں، نسلوں، عقائد اور قوموں کے لوگ آباد ہیں۔ انسانوں کے علاوہ برف کے مکین چکور، رام چکور، برفانی چیتے سے لیکر سمندر سے بھٹک کر آنے والے انڈس بلائنڈ ڈولفن اور گدلے پانیوں میں رہنے والے مگرمچھ سب اسی ندی کا جیون جل پیتے ہیں۔ اپنے شوق اور ذوق کی خاطر یورپ سے انگریزوں نے لاکر بسائی ٹراؤٹ مچھلی، دریا کا بادشاہ ‘مہا شیر” اور سمندروں سے انڈے دینے کے لئے سندھ ساگر کی گود میں آنے والی پلا مچھلی سب اس میں بستے ہیں۔

بحیرہ عرب کے ساحل پر کراچی سے بام جہاں پامیر تک اس دریا کے ساتھ جو لوگ زمانہ قدیم سے جڑے ہوئے ہیں ان کو ہر جگہ موہان ہی کہا جاتا ہے۔ کراچی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ اس بستی کو آباد ہی موہانوں نے کیا تھا یہ اور بات ہے کہ وہ خود آج سمٹ کر چند کچی پکی بستیوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ کراچی میں یہ لوگ مچھیرے کہلاتے ہیں یعنی مچھلی پکڑنے والے۔ سندھ میں کاشتکاری اور کشتی بانی کرتے ہیں اور لوگوں کو سندھو دریا عبور کرواتے ہیں۔ پنجاب اور اس کے بعد یہ لوگ کاشتکاری اور لوگوں کو دریا عبور کروانے کے ساتھ دریائے سے سونا نکالنے کا کام بھی کرتے ہیں جو گلگت بلتستان اور چترال میں ان کو موہان کے علاوہ سونے وال کا نام بھی دیتا ہے۔ سونا نکالنے کے لئے جو طریقہ یہ لوگ جو طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ سب سے قدیم اوردنیا بھر میں مروجہ ہے۔

دریا کے دونوں کناروں پر اس کے بہاؤ اور پھیلاؤ کی حد کا تعین کرکے عام لوگوں کی طرف سے یہاں مستقل آباد کاری سے گریز کیا جاتا رہا ہے سوائے موہانوں کے جو دریا کے مزاج سے آشنا ہوتے ہیں۔ آس پاس کے لوگ یہاں سےریت، بجری، پتھر اور لکڑی لے جانے کے علاوہ اپنے جانوروں کی گھاس چرائی اور فصلوں کی کاشتکاری کے لئے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ مگر چونکہ یہاں دریا کے بہاؤ کا رخ بدلتا رہتا ہے اس لئے یہاں کی زمین کو بندوبست کے ریکارڈ میں بھی دریا کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔ مستقل سکونت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں لوگ پکے گھر نہیں بناتے نہ پکی سڑکیں ہوتی ہیں نہ سہولتیں اس لئے بہ زبان عام اس علاقے کو کچے کا علاقہ کہا گیا۔

کچے کے علاقے میں ایک اور لفظ ‘کیٹی’ سننے کو ملتا ہے جس کے لفظی معنی رکھیل کے ہیں۔ کچے کے کسی بھی علاقے کو کوئی طاقتور اور بااثر شخص کہہ دیتا ہے کہ وہ اس کی کیٹی ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص دعویدار ہو تو سامنے آتا ہے اور قبضے کی کوشش کرتا ہے جو عموماً خونریزی پر منتج ہوتی ہے۔ وگرنہ علاقہ اسی کے نام پر منسوب ہوتا ہے جیسے کیٹی جتوئی، کیٹی لاشاری وغیرہ۔

کچے پر قبضہ کرکے کیٹی بنانے کے لئے لڑنے مرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے یہاں بندوق برداروں کو رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی دوسرا شخص جوابی قبضے کی ہمت نہ کر سکے۔ بندوق برداروں کو راشن پانی دینے کی زمہ داری کیٹی کے خود ساختہ مالک کی ہوتی ہے جبکہ انکی طاقت سے قابض زمیندار قبائلی و سیاسی دشمنوں سے نپٹنا سمیت دیگر کام بھی لیتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں سیاست دانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سے وابستہ زمیندار جیلوں میں بند ہوئے، زیر زمین چلے گئے یا ملک سے باہر چلے گئے تو ان کی کیٹیوں میں بیٹھے لوگوں کو کھانے پینے کے لالے پڑ گئے۔ ہاتھ میں بندوق ہو اور چھپنے کہ جگہ بھی ہو تو پاس سے گزرنے والی سڑک پر چلتی گاڑیوں کو لوٹنا ذریعہ معاش بن گیا۔

آس پاس کے علاقوں سے مفرور، جان بچا کر بھاگنے والوں اور جرائم پیشہ افارد کا کچے علاقے مین چھپنا پرانی ریت ہے مگر 1980ء کی دہائی میں بے روزگاری سے تنگ آ کر پڑھے لکھے لوگ بھی کچے میں جا کر ڈاکوؤں میں شامل ہوگئے۔ سکھر جیل توڑ کر فرار ہونے والوں کے علاوہ ان میں بعض ایسے بھی تھے جو میڈیکل، قانون، سائنس اور انجنئیرنگ کی ڈگری لئے ہوئے تھے۔ پھر فوجی حکومت کے تحت ایک اپریشن ہوا بتایا گیا کہ سب ڈاکو مارے گئے۔

سندھ میں ایک ایسا ہی کردار پریل چانڈیو عرف پرو چانڈیو پر سندھی زبان کی پہلی سپر ہٹ فلم بنی تھی۔ پرو چانڈیو تو مقابلے میں مارا گیا مگر اس کی میت پر 10 ہزار اجرکوں کا نذارانہ اور قبر پر اب تک عام لوگوں کا اظہار عقیدت اپنے طرز کی ایک مثال ہی ہے۔ کہتے ہیں پرو چانڈیو کی ایک کمین گاہ کیٹی لاشاری تھی جو حیدر آباد شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کھبرانی فاریسٹ میں ہے۔

ایک بار مجھے کھبرانی فاریسٹ میں جانا ہوا جہاں ایک غیر سرکاری تنظیم نے کچے میں رہنے والے لوگوں کی شراکت سے جنگلات کے تحفظ کےایک منصوبے پر عمل پر کروایا تھا۔ جب ہماری گاڑی پکی سڑک سے اتری تو موٹر سائیکلوں پر سوار لوگوں نے گاڑی سے آگے اسکواڈ کی طرح راہنمائی کی۔ پیچیدہ کچے راستوں سے گزر کر جنگل کے بیچ ہم ایک جگہ پہنچے تو آٹھ، دس دیگر لوگوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔

معلوم ہوا کہ ہم پرو چانڈیو کی کمین گاہ میں موجود ہیں۔ ہمیں خوش آمدید کہنے اور ہماری آوبھگت کرنے والوں میں سے بیشتر لوگ پرو چانڈیو کے ساتھی رہ چکے تھے مگر اب سردار کے مارے جانے کے بعد وہ لوگ کھیتی باڑی اور مال مویشی پال کر گزر اوقات کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے ہمیں کھبرانی فاریسٹ کی سیر کروائی، کھانا کھلایا، لسی پلائی اور اس دن میں نے ان کے ساتھ سندھو دریا میں پیراکی بھی کی۔

 متعقلہ غیر سرکاری تنظیم کا نمائندہ جو ماحولیات کے ایک متحرک کارکن ہونے کے علاوہ ایک صحافی بھی ہے، اس نے بتایا کہ وہ کچے کے ان ڈاکوؤں جنگل کا اصل محافظ سمجھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا جب تک ڈاکو کچے میں موجود ہوتے ہیں جنگل بھی بھی موجود ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی اپریشن ہوتا ہے ڈاکو چلے جاتے ہیں جنگل بھی صاف ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچے کے ڈاکو بھی کچے ہوتے ہیں جو اپریشن کے بعد ختم ہوجاتے ہیں، پکے ڈاکو تو وہ ہیں جو دریا پر بند باندھتے ہیں، بکی سڑکیں بنواتے ہیں، جنگل صاف کرتے ہیں اور زمین پر قبضہ کرتے ہیں۔ مگر ان کے خلاف کوئی اپریشن نہیں ہوتا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments