ملکہ برطانیہ کے لیے افریقی ملک نائجیریا میں ایک تخت کیوں مختص ہے؟


ملکہ وکٹوریا

افریقی لکھاریوں کے خطوط کی اس سیریز میں اس مرتبہ ہم نائجیریا سے تعلق رکھنے والی صحافی اور مصنفہ اداؤبی ٹرشیا نواؤبانی کی تحریر پیش کر رہے ہیں جس میں وہ بتاتی ہیں کہایک مشرقی افریقی ریاست ہونے کے باوجود نائجیریامیں ملکہ برطانیہ کے لیے ایک تخت رکھا گیا ہے۔

جنوبی نائجیریا کی ایفک برادری کے افراد میں ایک مفروضہ مشہور ہے اور وہ یہ کہ ان کے 19ویں صدی کے بادشاہ نے انگلینڈ کی ملکہ وکٹوریا سے شادی کی تھی۔

60 سال کے ڈونلڈ ڈیوک نے قومی میوزیم کی تزئین و آرائش کے لیے کافی کام کیا ہے اور انھوں نے افریقی غلاموں کی فروخت کی تاریخ سے متعلق ایک میوزیم ریاست کراس ریور کے دارالحکومت کیلابار میں قائم کیا، جب وہ سنہ 1999 سے 2007 کے درمیان ریاست کے گورنر تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس بارے میں سنہ 2001 کے آس پاس معلوم ہوا، جب میں نے ملکہ وکٹوریا اور بادشاہ ایامبا کے درمیان انتہائی دلچسپ خطوط پڑھے۔‘

انھوں نے کہا ’میں نے سوچا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو سنبھال کر رکھیں اس لیے ہم نے اچھی خاصی تحقیق کی۔‘

بادشاہ ایامبا پنجم ساحلی شہر کیلابار میں موجود دو بادشاہوں میں سے ایک تھے کیونکہ اس زمانے میں اسے دو ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ملکہ برطانیہ کی لکھائی ’بدخطی کی مثال‘

ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم کی کہانی

ملکۂ برطانیہ اور ان کے ہندوستانی دوست کی داستان

ڈیوک ٹاؤن کے بادشاہ ایامبا پنجم اور کریک ٹاؤن کے بادشاہ ایو اونیسٹی دوئم تھے اور یہ ایفک برادری کے معاملات کی 19ویں صدی میں ںگرانی کرنے اور یورپی تاجروں سے تجارت سے متعلق امور پر نظر رکھتے تھے۔

ساحل کے کنارے پر موجود ہونے کے باعث ایفک برادری نے یورپی ممالک کے باشندوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے جس سے ان کی ثقافت پر خاصا گہرا اثر پڑا۔

کیلابار

ان میں سے اکثر کے انگریزی کنیت ہوا کرتے تھے جیسے ڈیوک اور ہینشا اور یہاں آج بھی مردوں اور خواتین کے روایتی ملبوسات وکٹوریئن دور کے فیشن کے عین مطابق ہیں۔ ایفک برادری کے افراد اکثر افریقی تاجروں اور سفید فام تاجروں، جن میں سے اکثر کا تعلق انگلینڈ کے شہروں برسٹل اور لیورپول سے ہوتا، کے درمیان تجارتی معاہدے کروانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

وہ غلاموں کی قیمتوں سے متعلق سودے بازی کرتے اور خریدار اور گاہک دونوں سے ہی اپنا معاوضہ حاصل کرتے تھے۔ وہ ساحلوں پر بھی کام کیا کرتے، وہاں آنے والے بحری جہازوں سے مال اتارنے اور رکھنے کا کام کرتے اور بیرونِ ملک سے آنے والوں کو کھانا اور دیگر سہولیات فراہم کرتے تھے۔

ڈونلڈ ڈیوک نے بتایا کہ ’بادشاہ بہت زیادہ امیر ہو گئے اور ان کے خاندان خاصے ممتاز ہو گئے اور وہ افریقہ سے فروخت ہونے والے غلاموں کے سب سے بڑے مرکز کو کنٹرول کرنے لگے۔‘

غلاموں کی فروخت کرنے والا عینی شاہد

افریقہ سے تقریباً 15 لاکھ باشندوں کی فروخت اس وقت نیو ورلڈ کہلائے جانے والے امریکہ کو کی گئی اور اس کا ذریعہ کیلابار ہی بنا اور یہ بحراقیانوس کے پار تجارت کا ایک گڑھ بن گیا۔

دی ڈائری آف اینٹیرا ڈیوک کے نام سے سنہ 1956 میں شائع ہونے والی کتاب میں ایفک برادری کے غلاموں کی فروخت کرنے والے ایک شخص کی ڈائری کے اقتباسات موجود ہیں۔ یہ وہ واحد گواہی ہے جو کسی بھی افریقی تاجر کی جانب سے غلاموں کی فروخت سے متعلق محفوظ ہے۔

ایفک کمیونٹی

اس ڈائری میں درج ایک انٹری کے مطابق ’ہم ٹام کوپر اور کپتان کمنبر بیچ ٹینڈر کے ہمرا نیچے گئے اور دوپہر دو بجے واپس آئے اور سب چیزوں کو سنبھالا۔ انھوں نے ڈیوک اور ہمیں 143 کلو پاؤڈر اور 984 تانبے کے سکے بھی دیے۔ ‘

برطانیہ میں غلاموں کی تجارت کے خاتمے کے دہائیوں بعد بھی سنہ 1807 میں ’انسانی کارگو‘ کیلابار سے دوسرے ممالک تک بھیجا جاتا تھا۔

ڈیوک نے بتایا کہ ’یہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ کیلابار کے بادشاہ ملکہ وکٹوریا کے اتحادی تھے۔‘

’انھوں(ملک) نے خط لکھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ہمیں انسانوں کی تجارت کے بجائے مرچوں، تیل اور شیشے کے برتنوں کی تجارت کرنی چاہیے۔‘

یہاں سے آج تک قائم اس مفروضے کی بنیاد ملتی ہے۔

بادشاہ ایامبا کو بھیجے گئے اپنے خط میں ملکہ وکٹوریا نے مراعات کی پیشکش کی جس میں انھیں اور ان کے لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی شامل تھی۔

پھر انھوں نے اپنے دستخط کیے ’ملکہ وکٹوریا۔ ملکہ انگلینڈ‘ جس کا ایک مقامی مترجم نے غلط ترجمہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ملکہ وکٹوریا، تمام سفید فام افراد کی ملکہ۔‘

بادشاہ ایامبا نے جب یہ پڑھا کہ انھیں کسی خاتون کی جانب سے سکیورٹی آفر کی جا رہی ہے تو انھوں نے سوچا کہ ایسا تو صرف ان سے شادی کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے جوابی خط میں ملکہ وکٹوریا کو شادی کی پیشکش کر دی۔ انھوں نے اس پر اپنے دستخط کرتے ہوئے لکھا: ’بادشاہ ایامبا، تمام سیاہ فام مردوں کا بادشاہ۔‘

ڈیوک ٹاؤن قبیلہ کے موجودہ کاتب اور ایفک برادری کے چیف چارلس ایفیونگ اوفیونگ اوبو کہتے ہیں کہ ’بادشاہ بہت آمرانہ اور جاںباز طبعیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ملکہ کو شادی کے لیے اس لیے کہا تاکہ وہ دونوں مل کر پوری دنیا پر راج کریں۔‘

آپ ملکہ کا اس خط سے متعلق ردِعمل سوچ ہی سکتے ہیں لیکن انھوں نے فوری طور پر اس حوالے سے نہ نہیں کی۔

مسٹراوفیونگ اوبو کے مطابق انھوں نے جواب دیا کہ ’وہ بادشاہ کے خط کو پڑھ چکی ہیں اور وہ چاہیں گی کہ آنے والے دنوں میں ان کے درمیان اچھے تجارتی تعلقات استوار ہو سکیں۔‘

ان کے خط کے ساتھ چند تحائف بھی تھے جن میں ایک شاہی ٹوپی، تلوار اور ایک بائبل شامل تھی۔ یہ جذبہ خیرسگالی کے تحت بھیجے گئے تحائف تھے لیکن بادشاہ نے اسے ملکہ کی رضامندی کے طور پر لیا۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ملکہ نے ان کے بادشاہ سے شادی کر لی۔

ملکہ وکٹوریہ اور شاہ ایامبا کے مابین ہونے والی خط و کتابت کے نمونے کیلابار کے قومی عجائب گھر میں موجود ہیں۔ یہ عمارت جنوبی نائیجریا میں برطانوی سامراج کی انتظامیہ کے زیر اثر تھی۔

ملکہ اور بادشاہ کے درمیان جن خطوط کا تبادلہ ہوا ان میں سے چند اصل خط ایک نجی کلیکٹر کی ذاتی کلیکشن کا حصہ ہیں۔

بیسویں صدی کے کسی حصے میں ایفک نسل کے لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان پر صرف ایک بادشاہت مسلط ہو سکتی ہے جسے ’اوبونگ‘ کہا جائے گا، جس کے تحت دو بادشاہوں، شاہ ایامبا اور شاہ اونسٹی کے تخت کو ضم کر لیا گیا۔

شہزادہ جو سسرالی بن گیا

2017 میں کینٹ کے پرنس مائیکل، کیلابار کے نجی دورے پر تھے جب برسر اقتدار ایڈم ایپکو اوکان عباسی اوٹو پنجم کو پتا چلا کہ انگلینڈ سے عوام کے ‘سسرالی‘ آئے ہوئے ہیں۔

انھوں نے شہزادے کو خوب عزت دی اور کافی خاطر تواضع کی۔ آخر وہ برطانوی شاہی خاندان کے رکن اور ملکہ الزبتھ دوئم کے کزن تھے۔ پرنس مائیکل کو ایڈا اڈاغا کے ایفک ابروتو کا لقب بھی دیا گیا جس کا مطلب ہے ایفک سلطنت میں انتہائی اونچا مقام رکھنے والا شخص۔

ایفک برادری کی باربرا ایتم جیمز کہتی ہیں کہ انھیں صرف دو دن دیے گئے تھے جس میں انھیں یہ انتہائی بڑی تقریب کے انتظام کرنے تھے جس میں پرنس مائیکل کو یہ لقب دیا جانا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شہزادہ مائیکل کے دورے کے دوران انھیں جب جب موقعہ ملا وہ شہزادے کو یہی باور کرواتے کہ وہ ان کے سسرالی ہیں۔ اس تقریب پر بھی یہ کہانی دہرائی گئی۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ شہزادہ مائیکل کو برطانوی شاہی خاندان اور ایفک برادری کے درمیان روابط کا جان کر خوشی ہوئی اور انھیں اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ یہ لقب لے کر وہ ان روابط کو اور گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

بادشاہ ایامبا کی ملک وکٹوریہ سے ‘شادی‘ کے بعد سے کیلابار کے بادشاہ کی تاج کشائی اب دو مراخل میں ہوتی ہے۔ پہلے روایتی تقاضے پوری کیے جاتے ہیں اور پھر تاج کشائی کی ایک تقریب پریسبٹیریئن چرچ (جسے پہلے چرچ آف سکاٹ لینڈ کہا جاتا تھا) میں کی جاتی ہے۔ دوسری تقریب میں بادشاہ برطانیہ سے خاص طور پر لایا گیا تاج، اور کیپ پہنتے ہیں۔

اس کے بعد تحت پر دو کرسیاں لگائی جاتی ہیں جن میں سے ایک پر بادشاہ بیٹھتا ہے اور دوسری کو انگلینڈ کی غیر حاضر ملکہ کے لیے خالی چھوڑ دیا جاتا ہے یا اس پر بائبل رکھ دی جاتی ہے۔ بادشاہ کی اصل بیوی ان کی کرسی کے پیچھے بیٹھتی ہیں۔

ڈونلڈ ڈیوک کہتے ہیں کہ ’یہاں تمام سفید فام مردوں کی ملکہ اور تمام سیاہ فام لوگوں کے بادشاہ کا سنگم ہوتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp