کیا آپ غیر روایتی فیمنسٹ اینائس نن کو جانتے ہیں؟


ANAIS NIN ایک ایسی غیر روایتی فیمنسٹ تھیں جنہیں عمر بھر روایتی مردوں کے ساتھ ساتھ روایتی عورتوں اور روایتی فیمنسٹوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنی خود اعتمادی کی وجہ سے اپنے نقطہ نظر اور اپنے فلسفہ حیات پر ڈٹی رہیں۔ بالآخر ساری دنیا کے مردوں اور عورتوں نے ان پر عزت اور شہرت اور عظمت کے پھول نچھاور کیے اور مرنے سے ایک سال پیشتر LOS ANGELES TIMESنے انہیں 1976 WOMAN OF THE YEARکے ایوارڈ سے نوازا۔

روایتی فیمنسٹ کئی حوالوں سے اینائس نن کی مخالفت کرتی تھیں۔ ایک حوالہ یہ تھا کہ اینائس نن کا موقف تھا کہ عورتیں جو سماجی و معاشی و سیاسی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں وہ سطحی آزادی ہے کیونکہ وہ خارجی آزادی ہے۔ نن کا کہنا تھا کہ حقیقی آزادی داخلی آزادی ہے جس سے عورتیں جذباتی ’نفسیاتی‘ تخلیقی اور ذہنی طور پر آزاد ہوتی ہیں۔ نن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب عورت اندر سے آزاد ہو جاتی ہے پھر اسے کوئی مرد ( چاہے وہ اس کا باپ ہو یا بھائی ’بوس ہویا شوہر) مغلوب یا مرعوب نہیں کر سکتا۔ جب عورت اندر سے آزاد ہو جاتی ہے تو پھر وہ نفسیاتی طور پر کسی کی دست نگر نہیں ہوتی وہ جہاں جاتی ہے اپنی آزاد زندگی خود بناتی ہے‘ خود سنوارتی ہے اور خود تخلیق کرتی ہے۔

اینائس نن کا دوسرا متنازعہ فیہ موقف یہ تھا کہ عورتوں کے درخشاں مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مردوں سے رقابت یا دشمنی کی بجائے برابر کی دوستی کریں کیونکہ مرد اور عورت مل کر انسانیت کا تابناک مستقبل بنا سکتے ہیں۔ وہ روایتی فیمنسٹوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہتی ہیں

”I THINK THAT ’S A VERY DANGEROUS TRACK FOR THE WOMEN‘ S MOVEMENT TO THINK THAT WE CAN ONLY REALLY BECOME TOTALLY GROWN WOMEN، EMANCIPATED WOMEN، AND FULFILLED WOMEN BY BREAKING OFF RELATIONSHIPS WITH MEN“

[ A WOMAN SPEAKS]

اینائس نن نے اپنی زندگی میں جن مردوں سے برابر کی دوستی کی ان میں سر فہرست امریکی ناول نویس ہنری ملر تھے۔ ان دونوں ادیبوں نے ’سارتر اور سیمون کی طرح‘ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا اور ایک دوسری کو بہتر لکھنے کی تحریک دی۔ ہنری ملر HENRY MILLERوہ پہلے ادیب تھے جنہوں نے اینائس نن کی ڈائری کے صفحات سن کر کہا تھا کہ یہ شہ پارے ہیں اور ایک دن سینکڑوں ’ہزاروں‘ لاکھوں عورتوں کی زندگیاں بدل دیں گے۔ اینائس نن نہ صرف ہنری ملر کی دوست تھیں بلکہ جب ہنری ملر کی ایکٹریس بیوی JUNE امریکہ سے فرانس آئیں تو وہ بھی اینائس نن کی دوست بن گئیں۔ اینائس نن کی ڈائری پر 1990 میں فلمساز PHILIP KAUFMANنے جو فلم بنائی تو اسے بھی ان دو دوستوں کی وجہ سے HENRY AND JUNEکا نام دیا۔

اینائس نن کے غیر روایتی خیالات و نظریات کی وجہ سے روایتی فیمنسٹ ان سے بہت برہم رہیں اور ان کے کردار پر کئی پہلوؤں سے حملے کیے جو اینائس نن مسکراتے ہوئے برداشت کرتی رہیں۔ نن مرتے دم تک مصر رہیں کہ اصل جنگ سیاسی یا معاشی نہیں نفسیاتی اور تخلیقی ہے۔

اینائس نن 1903 میں فرانس کے ایک کیوبن مہاجر خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد JOQUINایک موسیقار اور ان کی والدہ ROSAایک گلوکارہ تھیں۔ اینائس نن نے گیارہ برس کی عمر سے ڈائری لکھنی شروع ہے اور مرتے دم تک لکھتی رہیں۔ نن کے خاندان کے افراد کیتھولک عیسائی تھے لیکن اینائس نن نے سولہ برس کی عمر میں ہی مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔

1923 میں ائنائس نن نے اپنے پہلے شوہر HUGH PARKER GUILER سے شادی کی جو بعد میں غیر روایتی تجرباتی فلمساز IAN HUGOکے نام سے مشہور ہوئے۔ اینائس نن کی پہلی کتاب D H LAWRENCEکی کہانیوں کے ادبی اور نفسیاتی تجزیے پر مشتمل تھی۔

نن کو نوجوانی سے ہی انسانی نفسیات اور تحلیل نفسی کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے پہلے ماہر نفسیات RENE ALLENDY اور پھر سگمنڈ فرائڈ کے مداح ماہر نفسیات OTTO RANKکے ساتھ کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اوٹو رینک تخلیقی شخصیت میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اس لیے انہوں نے نن کی تخلیقی صلاحیتوں کو بہت نکھارا اور سنوارا۔ انہوں نے نن کا انسان کی داخلی آزادی کے تصور سے تعارف کروایا اور انہیں بتایا کہ فنکار چاہے مرد ہو یا عورت اندر سے آزاد ہوتا ہے اور وہ کسی طاقت ’کسی حکومت اور کسی روایت کے آگے سرنگوں نہیں ہوتا۔ گھٹنے نہیں ٹیکتا۔ ہتھیار نہیں ڈالتا۔

اینائس نن اتنی غیر روایتی تھیں کہ وہ کہتی تھیں کہ اگر ایک مرد دو شادیاں کر سکتا ہے تو ایک عورت دو شادیاں کیوں نہیں کر سکتی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پہلے شوہر کی موجودگی میں RUPERT POLEسے دوسری شادی کی اور بیک وقت دو شوہر رکھے۔

اینائس نن کی پہلی ڈائری جس میں 1931۔ 1934 کی روداد اور سوانح عمری شامل ہے پہلی بار 1966 میں چھپی جس نے مغربی دنیا کے ادبی ’سماجی اور فیمنسٹ حلقوں میں طوفان برپا کر دیا۔

اینائس نن نے ڈائری کے ساتھ ساتھ افسانے اور ناول بھی لکھے۔ 1968 میں ان کا ناول THE NOVEL OF THE FUTUREچھپا۔

جب اینائس نن کی ڈائری چھپنی شروع ہوئی تو ان کی شہرت اور مداحوں کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ وہ مختلف شہروں اور ملکوں میں تقریریں کرتیں ’عورتوں کے سوالوں کے جواب دیتیں اور انہیں ایک آزاد عورت بن کر زندگی گزارنے کی دعوت دیتیں۔

1974 میں انہیں کینسر ہوا اور 1977 میں وہ دار فانی سے کوچ کر گئیں لیکن ان کے خیالات و نظریات کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے۔

اینائس نن کی شہرت ان کے مرنے کے بعد کم ہونے کی بجائے بڑھتی گی۔ ان کے مداحوں میں امریکہ کی ہردلعزیز گلوکارہ MADONAبھی شامل ہے جس نے اپنی بیسٹ سیلر کتاب SEX میں اینائس نن کا خصوصی ذکر کیا ہے۔

اینائس نن ساری عمر اپنے اس موقف پر قائم رہیں کہ جو عورت اندر سے آزاد ہو جاتی ہے ’خود کو مردوں کے برابر اور پورا انسان سمجھتی ہے اسے کوئی مرد مرعوب نہیں کر سکتا۔ دبا نہیں سکتا۔ مجبور نہیں کر سکتا۔ تذلیل نہیں کر سکتا۔ ایسی عورت خود اعتمادی کا پیکر ہوتی ہے۔ وہ کسی روایت سے نہیں ڈرتی۔ کسی قانون سے نہیں گھبراتی۔ وہ غریب ہونے کے باوجود عزت نفس کی دولت سے مالامال ہوتی ہے۔ وہ کسی مرد سے آزادی کی بھیک نہیں مانگتی وہ اپنی آزاد زندگی خود تخلیق کرتی ہے۔

EVELYN HINZکی مرتب کردہ کتاب
ANAIS NIN: A WOMAN SPEAKS

میں اینائس نن ایک اندر سے آزاد عورت کی کہانی سناتی ہیں تا کہ لوگ ایسی عورت کو پہچان سکیں۔ وہ فرماتی ہیں

’آئیں میں آپ کو ایک آزاد عورت کی کہانی سناؤں جس نے دھیرے دھیرے زندگی کی سب رکاوٹوں کو بڑے صبر و تحمل سے اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اس عورت کا نام FRANCES STELOFFہے۔ وہ نیویارک کے مشہور ادارے GOTHAM BOOK MARTکی مالکہ ہے اور اب اس کی عمر چھیاسی برس ہے۔

فرانسس امریکہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک فارم پر پیدا ہوئیں۔ ان کے چاروں طرف بہت سے بچے بھی تھی اور ڈھیر ساری غربت بھی تھی۔ اس لیے وہ سب بچے تعلیم سے محروم رہے۔

فرانسس کو بچپن سے کتابوں کا شوق تھا۔ یہی شوق انہیں گاؤں سے نیویارک شہر لے آیا اور انہوں نے کتابوں کی دکان میں کام کرنا شروع کر دیا تا کہ وہ کتابوں کے پاس رہیں۔ انہوں نے اپنی ماہانہ تنخواہ میں سے کچھ ڈالر جمع کرنے شروع کر دیے۔ جب ان کے پاس ایک سو ڈالر جمع ہو گئے تو انہوں نے دکان کے مالک سے کہا کہ وہ کتابوں کی اپنی دکان کھولنا چاہتی ہیں۔ اس مالک نے ہنس کر ان کا مذاق اڑایا اور کہا سو ڈالر میں یہ کام نہیں ہو سکتا۔ لیکن فرانسس نے ہمت نہ ہاری۔

فرانسس نے اپنی چھوٹی سی دکان کرائے پر لی اور کتابیں جمع کرنی شروع کیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کتابیں بڑھتی گئیں۔ وہ سب لوگوں سے مسکرا کر اپنائیت سے ملتیں انہیں سبز چائے پلاتیں اور سینڈوچ کھلاتیں۔ پھر انہوں نے ادیبوں سے دوستی کرنی شروع کر دی اور انہیں جو ادیب اور شاعر پسند آتے ان کی کتابوں کی رونمائی کرتیں۔ چند سالوں میں وہ اتنی مشہور ہو گئیں کہ ان کی کتابوں کی دکان کے پچھلے باغ میں قاریوں اور ادیبوں ’نقادوں اور پروفیسروں کی لمبی قطار بنی رہتی۔ شہر کے نامی گرامی ادیب اپنی باری کا انتظار کرتے اور فرانسس کی محفل میں شریک ہو کر فخر محسوس کرتے۔

فرانسس کی شہرت یورپ تک پہنچی اور دوسرے ممالک سے ادیب فرانسس کی محفل میں شرکت کرنے آتے۔

اینائس نن نے کہا کہ میں جب COLLEGE OF SKIDMORE ایک لیکچر دینے گئی تو فرانسس میرے ساتھ گئیں کیونکہ اس کالج کی انتظامیہ نے فرانسس کو اعزازی ڈگری دی۔

یہ ہے ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اندر سے آزاد تھی اس نے کسی مرد سے نہ کسی عورت سے کسی روایت سے نہ کسی حکومت سے کوئی مدد مانگی۔ ان کی اپنی خواہش ’اپنی تمنا‘ اپنی آرزو ’اپنا آدرش اور اپنا خواب ان کا خضر راہ بنا۔ اس طرح انہوں نے اپنا آزاد اور کامیاب زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا۔‘

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب اینائس نن مردوں کو چیلنج کرتی ہیں تو سیاسی یا معاشی حوالوں سے نہیں نفسیاتی ’ادبی اور تخلیقی حوالوں سے کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کی اگست 1937 کی ڈائری کا ایک ورق ہے جس میں وہ اپنے دو مرد دوستوں سے مکالمے میں مردوں اور عورتوں کے تخلیقی عمل کا موازنہ کرتی ہیں۔ میں نے‘ ہم سب ’کے قارئین کے لیے اس ورق کا ترجمہ کیا ہے تا کہ آپ کو اینائس نن کے سوچنے اور لکھنے کے انداز کا اندازہ ہو

’ آج پھر ہنری ملر اور لورنس ڈوروال مجھ سے ملنے آئے تھے اور‘ میں خدا ہوں ’کی بکواس کرتے رہے۔ ان کے نزدیک تخلیقی عمل کے لیے یہ احساس ضروری ہے۔ میرے خیال میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے‘ میں خدا ہوں میں عورت نہیں ہوں ’۔ عورت کی کبھی بھی خدا سے بلا واسطہ گفتگو نہیں ہوئی۔ ہمیشہ ایک مرد پادری کے حوالے سے ہوئی ہے۔ اس نے جو کچھ بھی تخلیق کیا مرد کی وساطت سے کیا۔ صرف عورت بن کر نہیں کیا۔

ایک بات جو ہنری اور لیری نہیں سمجھتے کہ عورت کی تخلیق مرد کی تخلیق سے بہت مختلف ہے۔ اس کی ہر تخلیق ایک بچے کی تخلیق کی طرح ہوتی ہے جس میں اس کا خون شامل ہوتا ہے۔ جس کی وہ اپنی کوکھ میں پرورش کرتی ہے اور پھر اسے اپنا دودھ پلاتی ہے۔ اس کی تخلیق مردوں کی تخلیق کی طرح نہیں ہوتی جو تجریدی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ یہ ’میں خدا ہوں‘ کا تصور جس کی رو سے تخلیق تنہائی کی پیداوار ہوتی ہے۔ عورتوں کے لیے ہی نہیں مردوں کے لیے بھی گمراہ کن ہے (یہ گماں رکھنا کہ خدا نے زمین و آسماں و سمندر اکیلے ہی بنا لیے تھے ٹھیک نہیں۔ میرا خیال ہے کہ جیسے ہر مرد کی تخلیق کے درپردہ عورت ہوتی ہے اسی طرح خدا نے بھی عورت کی مدد لی ہوگی لیکن اس کا بر سر عام اعتراف نہیں کیا) ۔

عورت یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرتی کہ وہ کسی چیز کی پیدائش کے لیے بیج کی محتاج ہوتی ہے۔ اگر وہ یہ بھول جائے تو گمراہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ سوچنے کی بجائے کہ وہ تنہائی میں کیا پرورش کرتی ہے یہ تصور کرنا چاہیے کہ رات کے وقت اسے ایک مرد ملنے آتا ہے اور صبح وہ عجائبات جنم دیتی ہے۔ کیا خدا کا کسی چیز کو اکیلے میں جنم دینا اچھا خیال ہے؟

میرے خیال میں مرد نے فن اس لیے تخلیق کیا کیونکہ وہ عورت کی قربت سے خائف تھا اور عورت کی زبان پر اس لیے لکنت رہی کہ وہ حال دل بیان کرنے سے ڈرتی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو روایات کے پردوں سے ڈھانپ لیا۔ مرد نے ایسی عورت کو تخلیق کیا جو اس کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ اس نے عورت کو فطرت سے تشبیہ دی اور فطرت پر غالب آنے کا دعویٰ کر دیا۔ عورت فطرت ہی نہیں اس سے بالا تر بھی ہے۔

George_Leite_and_Anaïs_Nin_at_daliel’s_bookstore_in_Berkeley,_CA,_1946

عورت ایک ایسی جل پری ہے جس کی مچھلی کی دم انسانی لاشعور میں پوشیدہ ہے اس کا تخلیقی عمل اس دنیا کو زبان بخشے گا جو ابھی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ وہ دنیا جس سے مرد انکار کرتا ہے تو وہ ایک تلخ حقیقت بن کر اپنا اظہار کرتی ہے اور پاگل پن کہلاتی ہے ’

اینائس نن کی مقبولیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔ یورپ کی خواتین نے نن کی یاد کی خوشبو ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے ایک نیا پرفیوم بنایا ہے اور اس کا نام ANAISرکھا ہے۔ یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے عارف عبدالمتین کا شعر یاد آ رہا ہے اور اسی شعر پر اس ہردلعزیز اور اپنی پسندیدہ لکھاری کا ’جن سے میں نے بہت سے مرد ماہرین نفسیات سے زیادہ انسانی نفسیات کے راز جانے‘ یہ کالم ختم کرتا ہوں

میرے فن کا دائرہ پھیلے گا میرے بعد بھی
پھول مرجھائے تو خوشبو کا سفر رکتا نہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments