ریپ سے پہلے، اور ریپ کے بعد


”یہ [ایسی ویسی] عورتیں ہیں۔ ہم نے ان کی گیم بنانی ہے اور ان کو اچھی طرح ٹھوکنا ہے۔“

یہ الفاظ سینسر کر کے انتہائی احتیاط کے ساتھ مختصراً لکھے گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس سے کہیں آگے ہے۔ اگر چار یا زیادہ لوگ مل کر ایسے الفاظ کے ساتھ کچھ پلان کریں تو سیدھی بات ہے کہ وہ ”ایسی ویسی“ عورتوں کے خلاف کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں یا کم از کم جو یہ لفظ بول رہا ہے وہ کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جو خطرہ کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اگر یہ الفاظ کسی ایسے شخص کے منہ سے ادا ہوں جو انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور جس کے ہاتھ میں نوجوان بچوں اور بچیوں کا مستقبل بھی ہو تو سمجھ جائیں کہ صورت حال کافی گمبھیر ہے اور ہنگامی اقدامات کی متقاضی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ الفاظ زیادتی یا ریپ ہونے سے پہلے کے ہیں۔

اب ایک قدم آگے چلیں۔ جن کے بارے میں یہ پلاننگ کی جا رہی ہو ان کو پتہ چل جائے تو وہ پہلے خوفزدہ ہو جاتے ہیں، جو کہ ایک قدرتی عمل ہے پھر یہ سوچ کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ انسان تو ہے ہی زبان کا گندا، کچھ بھی بکتا ہے۔ فلاں کو فلاں وقت اس نے ایسا ہی کہا تھا۔ ویسے بھی ہمارے پاس کون سا کوئی ثبوت ہیں؟ اس لیے فیملی کو ٹینشن نہ ہی دیں تو اچھا ہے۔ ایسی سوچ بھی صرف اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ابھی ریپ نہی ہوا۔

اب ایک قدم اور آگے چلیں۔ اب پلاننگ کرنے والے زیادہ خوفزدہ کرنے کے لیے خود وارننگ نما ”ثبوت“ بھی فراہم کر دیں تو دوست احباب اور ساتھ کام کرنے والے ثبوت سن کر یا پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگا کر ”استغفراللہ یا“ توبہ توبہ ”بول کر متاثرین کو یہ کہ کر چپ کروانا چاہتے ہیں کہ اللہ پاک ہی ان کو پوچھے گا۔ وہ ملزمان کے با اثر ہونے سے خوفزدہ کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں ریپ ہونے سے پہلے کی ہیں۔

آئیں اب ایک قدم مزید آگے چلیں۔ متاثرین ہمت کر کے اپنی فیملیز کو اعتماد میں لے کر متعلقہ حکام اور سول سوسائٹی کو وہ ”ثبوت“ دکھا کر یا سنا کر اپنی داد رسی کی التجا اور ہراسمنٹ کے ملزمان کے خلاف کارروائی کی اپیل کریں تو وہ تحقیق کر کے کارروائی اور کمیٹی کی سفارشات کا انتظار کرنے کا کہتے ہیں جب کہ ملزمان اس دوران اپنے وسائل اور تعلقات کا بھر پور استعمال کر کے ہر کارروائی رکوانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ اور متاثرین کو صلح اور ڈرانے کے پیغامات بھی ساتھ ساتھ بھیجتے ہیں۔ ابھی تک کوئی دوست یا کام کے ساتھی ملزمان کی کھلے عام صرف مذمت بھی نہیں کر رہے۔ کیوں کہ ملزمان ناصرف با اختیار ہیں بلکہ ابھی ریپ بھی تو نہیں ہوا۔

آئیں اب ایک قدم مزید آگے چلتے ہیں۔ کیوں کہ اب ہر بڑے دفتر سے فائلیں غائب ہونے کا امکان ہے اور بہت سے اور خدشات بھی سر اٹھا رہے ہیں تو ہراسمنٹ کی متاثرین اب سیاست دانوں اور صحافیوں سے مل کر وہ ثبوت دکھا کر یا سنا کر مدد کرنے کی اپیل کر رہی ہیں مگر سیاست دان تو اس لیے سامنے نہیں آنا چاہتے کہ اس سے ان کے ووٹ بینک کو خطرہ ہو سکتا ہے مگر صحافیوں کے لیے ابھی تک یہ ’مواد‘ اتنا کافی نہیں کہ ”بریکنگ نیوز“ بن سکے یا اچھی ریٹنگ لے سکے۔ اس لیے وہ اس واقعہ کو معمولی لڑائی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہمارے معاشرے کی عمومی بے حسی کی طرف واضح اشارہ ہے۔

بظاہر یہ ایک ”کہانی“ ہے اور ہو سکتا ہے کہ مجھے اس پر یا اس کے عنوان پر طرح طرح کی باتیں اور طعنے بھی سننا پڑیں۔ اور عین ممکن ہے کہ میری فیملی اور ساتھی ورکرز بھی اس بولڈنیس سے پریشان ہوجائیں۔ مگر میں ہماری سوسائٹی کے ان چند افراد میں سے ایک فرد ہوں گا جو ریپ یا زیادتی ہونے کے بعد افسوس کا اظہار نہیں کریں گے۔ کیوں کہ میں ورک پلیس ہراسمنٹ کے ملزمان کی مذمت کھلے الفاظ میں ریپ یا زیادتی سے کہیں پہلے ہی کرنے والوں میں شامل ہوں۔ اگر اس ”کہانی“ کے سیاق و سباق میں پاکستان کے کسی تعلیمی ادارے کے کسی واقعہ سے مماثلت نمایاں ہو تو یہ محض ’اتفاق‘ ہی سمجھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments