پنجاب فوڈ اتھارٹی کے انٹرویوز کا احوال


گزشتہ دنوں پنجاب فوڈ اتھارٹی میں چھ ماہ کی انٹرن شپ پر صوبہ بھر کے مختلف ڈویژنز کے لئے انٹرنی پبلک ریلیشن افسر اور انٹری فوڈ نیوٹریشنسٹ کے لئے واک انٹرویوز کا انعقاد کیا گیا۔ گوجرانوالہ، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے انٹرویوز کا انعقاد لاہور جبکہ جنوبی پنجاب کے ڈویژنز کے انٹرویوز کا انعقاد ملتان میں کیا گیا۔ میڈیا میں موجودہ دور حکومت میں آنے والی تباہی کے بعد کئی سینئر ورکنگ صحافی بے روزگار ہوئے، تین چینلز اور سینکڑوں اخباروں کی بندش پر اکتفا نہیں ہوا جو خوش قسمت برسر روزگار ہیں بھی تو ان کو بھی 30 سے 50 فیصد جبری کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایسے میں چھ ماہ کی انٹرن شپس کے لئے بھی کل 10 نشستوں پر 200 لوگ انٹرویز کے لئے پہنچے۔ جن میں سے اکثریت تو حال ہی میں بے روزگار ہونے والے صحافیوں کی تھی اور کچھ ایسے بھی تھے جن کو اداروں میں تنخواہیں تاخیر سے ملنے کی وجہ سے انٹرویو کے لئے جانا پڑا۔ اب چھ ماہ کی انٹرشپ جس کے محض 40 ہزار ہر مہینے ملنے ہوں وہ بھی ٹٰیکس منہا کر کے تو سب کو یہ امید تھی کہ ایسے کسی بھی موقع کے لئے میرٹ کو مدنظر رکھا جائے گا۔

کیونکہ تجربہ بھی ایک لازمی شرط تھا تو امیدوار یہ توقع کر رہے تھے کہ ورکنگ صحافی ہونے کے ناتے انٹرویو پینل بھی عزت سے پیش آئے گا باقی قرعہ فال جس کے نام نکلنا سو نکلنا۔ اس انٹرویو کے لئے جانے والوں کی رجسٹریشن کا ٹائم تو 9 بجے رکھا گیا مگر 2 گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد 11 بجے یہ سلسلہ شروع ہوا جو بمشکل ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کر لیا گیا۔ انٹرویوز دے کر آنے والوں میں سے میرے 4 کولیگز بھی شامل تھے اور جو احوال انہوں نے دیا اس کے بعد اس کے بعد میں نے یہ کالم لکھنے کا اعادہ کیا۔

ایک بات جس کی سب دوستوں اور وہاں پر موجود دیگر امیدواروں نے شکایت کی وہ یہ تھی کہ انٹرویو پینل کا رویہ ہتک آویز تھا۔ میں نے جب کریدا تو ایک کولیگ نے جواب دیا کہ ہم ایک چینل سے دو لوگ گئے ہوئے تھے۔ ایک کولیگ کے انٹرویو کے بعد جب ان کی باری آئی تو پینل کے پوچھنے پر جب مذکورہ کولیگ نے بتایا کہ وہ فلاں چینل سے ہیں تو پینل میں سے ایک قابل قدر شخصیت جو پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بھی ہیں کہ موجودگی میں یہ کہا گیا کہ سارے ایک ہی چینل سے آ گئے ہو۔

ایسی کسی بھی بات کی ایک پروفیشنل انٹریو پینل سے امید نہیں کی جا سکتی اور امیدوار جو کہ ورکنگ جرنلسٹ ہو اس کی تضحیک کے مترادف ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید خیر تھی ایک اور امیدوار سے جو سوال پوچھا گیا وہ تو اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھا کہ چینل 5 کیوں بند ہو گیا ہے، جس پر اس امیدوار نے پینل کی تصحیح کروائی کی مذکورہ چینل تو ابھی تک چل رہا ہے تو طنزیہ انداز میں کہا گیا کہ چلو بند نہیں ہوا مگر بیٹھ تو گیا ہے نا۔

جس پر اس امیدوار نے اس سوال پر رائے نہ دیتے ہوئے جواب دیا کہ وہ نہ تو اس ادارے میں اس وقت ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ ایک ادارے کی ریٹنگ پر تبصرہ کریں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پبلک ریلیشنگ کے ٹرینی کی نوکری میں اس سوال کی کیا توجیح بنتی کہ آپ ایک نیوز چینل کے بند ہونے یا پھر اس نیوز چینل کی ریٹنگ پر استہزائیہ تبصرے کرتے رہیں۔ اسی طرح سے ایک اور ورکنگ جرنلسٹ سے یہ پوچھا گیا کہ چائے کیسے بنائی جاتی ہے؟

مجھے تو اس سوال کی بھی کوئی سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے چائے بنوانی یا ادارے کا امیج بہتر کروانا ہے؟ اسی طرح کے کئی اور سوالات دوسرے امیدواروں سے بھی کیے گئے، جو کہ نہایت ہی قابل افسوس امر ہے۔ ایک طرف تو حکومت کی جانب سے جرنلسٹ پروٹیکشن بل لایا جا رہا ہے وہی دوسری طرف صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ میرے جاننے والے کئی سینئر صحافی نوکری کرنے کے بعد پرچون کی دکان، درزی کا کام اور آن لائن بکنگ سروسز پر بائیک چلاتے ہیں۔

وگرنہ موجودہ مہنگائی کے دور میں کہاں بچوں کا پیٹ پالنا ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان میں صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں آنے کا مطلب ہے کہ آپ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر آنا ہے۔ اس شعبہ میں صرف اینکر حضرات ہی اچھا کما رہے ہیں اور اچھا کھا رہے ہیں باقی صحافی تو بس مالکان کا پیٹ بھرنے کے لئے خود بھوکے مر رہے ہیں۔ صحافت آج کل صرف کھاتے پیتے گھرانے کے چشم اور چراغوں کے لئے ہی موزوں ہے، جن کو تنخواہ نہ ملنے کا غم ہوتا ہے نہ ہی گھر چلانے کی فکر۔ ایسے میں میری فوڈ اتھارٹی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ آپ مرہم نہیں رکھ سکتے تھے تو نمک نہ چھڑکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments