چھٹی حس


خدائے امن کے تخلیق کردہ جہاں میں عوام الناس حواس خمسہ کے سہارے خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے (واضح رہے کہ حواس خمسہ کا سرسید کے ارکان خمسہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ) ۔ قوت سامعہ (کان) لامسہ (ہاتھ) ذائقہ (زبان) شامہ (ناک) اور باصرہ (آنکھ) ان کی کل حیات تھی کہ اچانک ایک صبح ڈیوک یونیورسٹی کے ماہر نفسیات جی۔ بی رائن نے ”چھٹی حس“ کا تصور دے کریک دم وقت بدل دیا، جذبات بدل دیے، زندگی بدل دی۔ اس کا ناصرف اچھے بھلے چلتے نظام زندگی پر اثر ہوا بلکہ ذہن انسانی کی کارکردگی بھی مشکوک ہو گئی۔

ماہرین کے مطابق چھٹی حس کی اصطلاح ان مواقع کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو بظاہر موجود نہیں ہوتے۔ یہ ادراک سے ماورا اور حواس خمسہ سے مبرا ہے۔ مطلب یہ سمجھ آتا ہے کہ چھٹی حس کا عمل دخل ان خیالات و احساسات سے ہے جن کا عقل و دانش سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اب ہماری قوم تو ایسے معاملات میں روز اول سے ید طولیٰ رکھتی ہے سو یہاں چھٹی حس کا وہ حال ہوا کہ اسے چھٹی کا دودھ آ گیا۔

روزمرہ معاملات میں چھٹی حس کا خاطر خواہ استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ موصوفہ کا دائرہ کار چڑیوں کے پنکھوں میں انڈے دینے، منے کے دودھ پینے، پپو کے سکول جانے، نجو کا رشتہ ٹوٹنے، ہمسایوں کی چغلیوں سے شروع ہو کر بارات کا کھانا کم ہونے اور ساس بہو کے جھگڑے تک پھیلا ہوا ہے۔ عمومی رویہ پایا جاتا ہے کہ لوگ فیصلے چھٹی حس کے مطابق کرتے ہیں اور نتائج کی ذمہ داری قسمت پہ ڈال دیتے ہیں۔ یار لوگوں کے مطابق چھٹی حس بالکل اہمیت دینے کے قابل نہیں کیونکہ یہ تو ہے ہی بے نام!

ہمارے دیرینہ دوست شفاعت بخاری چھٹی حس کی صلاحیتوں کے قائل اور معترف ہیں۔ آپ اپنے کافی معاملات سمیت امتحانات میں کثیر الانتخابی سوالات کے جوابات اس کے ذریعے حل کرتے ہیں اور حیرانی یہ کہ وہ صحیح بھی ہو جاتے ہیں۔ کورونا کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ موصوف مرشد یوسفی کے قول ”حس مزاح ہی دراصل انسان کی چھٹی حس ہے یہ ہو تو انسان ہر مقام سے بآسانی گزر جاتا ہے“ سے موٹیویٹ ہو گئے اور اپنی ظریفانہ طبع ( جو کہ کبھی تھی ہی نہیں ) کا چھٹی حس سے معاہدہ کر کے عشق کے مقام سے گزرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اور اس ضمن میں ایک عدد دوشیزہ کو خود سے اور خود کو ان سے محبت کروانے میں کامیاب رہے۔ خوب محبت چلی، آسمان سے تارے توڑنے اور مر کے بھی ساتھ رہنے تک کا سفر طے ہوا لیکن شومئی قسمت کہ آخر میں ابا نہیں مانے۔

چھٹی حس کے طفیل معاشرے میں طرح طرح کی توہمات پھیلی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ کالی بلی کا راستہ کاٹنا، آنکھ کا پھڑکنا، صبح سویرے ادھا دینا برا شگون اور کوے کا دیوار پہ بیٹھنا مہمان آنے کی نشاندہی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ایک پڑوسی مرزا لال بیگ کوے کو دیوار پہ بیٹھا دیکھ کے فوراً ممکنہ مہمان سے بچنے کے حفاظتی اقدامات کر لیتے ہیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کوا دیوار پہ بیٹھا اور ساتھ ہی بیل بھی بج گئی۔ بیگ صاحب نے اپنے صاحب زادے سے کہا جا کے کہو، ”پاپا گھر پہ نہیں ہیں“ ۔

آگے سے فرزند بھی وہ ان ہی کے تھے دروازے پہ جا کے کہتے، ”پاپا کہہ رہے ہیں وہ گھر پہ نہیں ہیں“ ۔ سنا ہے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔ ایسے ہی ہاتھ میں خارش ہونے کو دولت آنے کی نوید سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے کلاس فیلو شہباز خیروی کو بہت دن سے دونوں ہاتھوں میں خارش تنگ کر رہی تھی۔ انہیں جیسے ہی اس کا علم ہوا دیدنی خوشی سے نجومی کے پاس پہنچے۔ نجومی نے ہاتھ دیکھ کے کہا، ”تیری قسمت میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے جا خارش کا علاج کروا“ ۔

ابھی چھٹی حس کی وجہ سے حالات دگرگوں ہی تھے کہ ماہرین نفسیات نے ”ساتویں حس“ کا دعوی ٰ کر دیا جو دل کی باتوں کو سمجھنے، جاننے اور جانچنے کا احساس دلاتی ہے۔ اس انکشاف کے بعد شعراء، ادباء اور عشاق حضرات کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ انہیں بھی اپنے فی زمانہ معمولات کا ملبہ ڈالنے کے لیے مہرہ مل گیا ہے۔ صرف یہی نہیں ماہرین کا ایک طبقہ چند اضافی حسیات جیسے درد کا احساس (Nociception) ، جوڑ کا جسم سے تعلق کا احساس (Proprioception) ، درجہ حرارت کا احساس (Thermoception) ، توازن کا احساس (Equilibrioception) پہ بھی متفق ہے۔ اس سب میں ابھی ”کامن سینس“ کا ذکر باقی ہے جس کی وجہ سے ہمیں گھر اور سکول میں مختلف القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی انسانی جذبات سے کھیل کر حسیات کا دھندہ چلا رہا ہے۔ یار لوگوں کے مطابق ہو سکتا ہے یہ امریکہ اور اسرائیل کی کوئی سازش ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments