کیا پی ٹی ایم اب پارلیمانی ہو رہی ہے؟


سب سے پہلے ایک بات سمجھنی ضروری ہے کہ پی ٹی ایم بذات خود صرف تین الفاظ پر مشتمل نام ہے لیکن ان تین الفاظ کو تقویت دینے والی بات یہاں فاٹا کے لوگوں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم ہیں۔ لہذا ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سب سے اہم ہمارے دکھ ہیں، ہمارے ساتھ ہونے والے مظالم ہیں اور ہمیں حتی الامکان اس پروپیگنڈا سے بچنا پڑے گا جس میں ہمارے دکھوں پر ہماری بربادی پر کسی تحریک تنظیم یا سیاسی جماعت کو فوقیت دینے کی کوشش ہو۔

جب علی وزیر اور محسن داوڑ نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو میں کا شکار تھا یہاں تک کہ میں نے دونوں کی مخالفت کی تھی کہ آپ ایک ایسے وقت میں قوم کو توڑ رہے ہیں جب قوم تازہ تازہ اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ شاید اس وقت ان دونوں کی طرف سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ غلط تھا لیکن وقت کے ساتھ مشکلات آئیں سخت حالات آئے اور یہ دونوں چٹان کی مانند اپنے نظریات کے ساتھ کھڑے رہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پی ٹی ایم کی آواز قریباً دب کر رہ گئی اور علی وزیر و محسن داوڑ ان حالات میں قوم کے آواز بن گئے۔

انہی حالات میں احساس ہوا کہ اگر یہ دونوں پارلیمان میں نا ہوتے اور اس حکمت کے ساتھ سامنے نہ آتے پارلیمان میں مختلف جماعتوں کی قیادتوں کی ڈھکی چھپی حمایت حاصل نا کرتے تو پی ٹی ایم کو دہشت گرد گروہ یا تنظیم قانونی طور پر بھی ثابت کر چکے ہوتے اور طاقتور ریاستی بیانیے کے سامنے اس وقت ننانوے فیصد عوام اس جھوٹے پروپیگنڈے کے مکمل شکار ہو چکے ہوتے اور ہمارے نوجوان طبقے نے ناقابل تلافی نقصان اٹھائے ہوتے۔ میرا ماننا ہے شاید میری سوچ غلط ہو کہ اتنے سخت بیانیے کے ساتھ اگر ہمارا نوجوان نسل ابھی تک کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا ہے تو اس میں علی وزیر اور محسن داوڑ کی سمبلیوں میں موجودگی کا بنیادی کردار ہے۔

میرا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس کا سارا کریڈٹ ان دونوں کو جاتا ہے لیکن ان دونوں کی حیثیت پاکستانی اور عالمی سطح پر موجود سیاسی طبقات کی نظروں میں ایک طرح سے اس لحاظ سے تسلیم شدہ رہی کہ چاہے کئی ریڈ لائنز بنائی گئیں مگر جواباً جمہوری طبقات کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا کہ آپ کی پارلیمان میں موجود لوگ کیسے دہشت گرد قرار پا سکتے ہیں؟ شاید میری دلیل آپ کو قائل نا کر سکے لیکن اپنے ذات میں مجھے جو چیزیں سمجھ آئی ہیں وہ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ میری اصلاح ہو۔

اب آتے ہیں اس آواز کی طرف جو کہ مظلوم کی تھی، اس کو اتنا متنازع بنا دیا گیا، کہ اس وقت آپ صرف پی ٹی ایم کے نام پر مخصوص کسی احتجاج کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔ حال ہی میں جانی خیل اور مکین جنوبی وزیرستان میں ہونے والے دھرنوں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن ان دھرنوں کی کامیابی کی وجہ اس کو قومیتوں کے نام سے منسوب کرنے کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا لیکن قومیت کے نام کی وجہ سے تمام جماعتوں اور مکتبہ فکر کے لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کا کریڈٹ پی ٹی ایم قیادت کو بھی نہ دینا زیادتی ہوگی کہ انہوں نے قومی مفاد کو ترجیح دی اور دھرنوں کو اپنے تنظیم کے نام کروانے کی ضد نہیں کی لیکن اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جاتی تو دھرنوں کی ایسی اجتماعی کامیابی ممکن بنانا مشکل ہو جاتی۔

جہاں تک پارلیمانی سیاست کی بات ہے تو میری نظر میں اس کے بطور خاص ہمارے علاقے فاٹا بالخصوص وزیرستان پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ کیونکہ اس وقت ہمیں اسمبلیوں میں ایسے ہی معتدل سوچ کی ضرورت ہے جو ایک طرف قوم کے حقوق کی بات بھی کر سکے اور دوسری طرف قومی حقوق سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ جہاں تک پی ٹی ایم کی بات ہے ان کا ایک مخصوص لائن ہے جو وہ جاری رکھ سکتے ہیں لیکن پی ٹی ایم قیادت کو کئی چیزوں پر نظر رکھنی پڑے گی کیونکہ اس وقت پی ٹی ایم اس ٹریک سے کافی پھلانگ چکی ہے جس کے بنیاد پر آگے بڑھنا تھا۔

میرے ذاتی خیال میں کوئی بھی تنظیم یا تحریک مکمل طور پر اپنے متعین کردہ اصولوں پر سو فیصد درست سفر نہیں کر پاتی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غلطیاں سدھاری جا سکتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ذمہ داران مخلص ہوں ان کی کاوشیں ذات کے بجائے مقاصد کے لیے ہوں۔ محسن داوڑ یا ان کے ساتھی اگر سیاسی جماعت بناتے ہیں تو اس کے پی ٹی ایم پر کیسے اثرات پڑیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کافی دوست کر رہے ہیں۔

یہاں بھی میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کے بہترین اثرات پڑیں گے کیونکہ محسن داوڑ اور اس ہمنوا جس سیاسی جماعت کی بات کر رہے ہیں وہ ملک گیر ہو گی، اس میں چاروں صوبوں سے کافی پر اثر آوازیں شامل ہوں گی، یہ وہ طبقہ ہے جس کا پاکستان کی سول سوسائٹی میں ایک نمایاں مقام ہے اور ان کی آواز عالمی سطح پر سنی جاتی ہے۔ مشکل حالات میں یہ لوگ اپنی سیاسی پلیٹ فارم سے ہمارے قومی مفادات کے لیے نہایت مفید ثابت ہوں گے کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ محسن داوڑ کا فوکس اپنے علاقے کے حالات پر زیادہ ہونا ایک فطری عمل ہو گا اور اس طرح اس کے جماعت کے لیڈرز کارکن جو بھی ہوں گے ہماری آواز بنیں گے۔

نئی جماعت ایسے نوجوانوں کے لیے حفاظتی حصار کا قلعہ بھی ثابت ہو سکتی ہے جو غلط ریاستی سوچ کے تحت غدار قرار دیے جا چکے ہیں اور وہ مین اسٹریم میں واپس آئیں گے۔ فاٹا اور پشتون علاقوں کا سب سے بڑا مسئلہ ملا ازم ہے اور گزشتہ دس پندرہ سالوں سے ملک کے دیگر حصوں کی نسبت ہم پیچھے کی طرف چلے گئے ہیں اور یہ جماعت اس خلا کو پر کرنے کا باعث بنے گی۔ یعنی پی ٹی ایم کے لیے ایک سپورٹ بیس بن سکتی ہے کہ یہاں کا ووٹر اپنا ووٹ بھی اپنی سوچ کے مطابق استعمال کر سکے گا۔

جہاں تک ان خدشات کی بات ہے کہ پی ٹی ایم ٹوٹ جائے گی یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ پی ٹی ایم یہاں کے حالات کے تناظر میں وجود میں آئی ہے اور اس میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے علاقوں کے حالات بدلنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم کے لئے بہتر زندگی چاہتے ہیں البتہ پی ٹی ایم اگر کمزور ہوگی تو لیڈرشپ کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ہوگی، کہ وہ قوم کی بات کو اگر ادھر ادھر کی چیزوں میں استعمال کرے گی تو قوم دن بدن بدظن ہوگی لیکن امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہاں سب مخلص ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر مخلص سب کچھ اپنی ذات پر ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ روش ختم ہونی چاہیے۔ اپنے دل بڑے رکھیں اسی میں قوم کی اور بطور خاص آپ کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments