آغا حسن عسکری: صرف بڑے فلم ڈائریکٹر نہیں! سولہ برس پرانی یادیں


آغا حسن عسکری صاحب کے ساتھ سولہ برس بعد ملاقات ہوئی۔ جیو نیوز لاہور کی یادیں ( سولہ برس پہلے کی یادیں ) تازہ ہو گئیں۔ بہت گپیں لگیں۔ آغا صاحب تیسرے فلور پر میرے ساتھ بیٹھے تھے کہ عبد الرؤف صاحب سے چھپ چھپ کر شطرنج کھیلنے کے دن یاد آ گئے جب میں، شہباز صفدر اور آغا جی تیسرے فلور پر جو اس زمانے میں پرانے اخبار اور کاٹھ کباڑ رکھنے کی جگہ ہوتی تھی، گھنٹوں شطرنج کھیلتے۔ آغا جی فلم سے آئے تھے اور پرائیویٹ ٹی وی کے کلچر سے بہت واقف نہیں تھے لہذا بیٹھے بیٹھے سگریٹ نکال کر پینا شروع کر دیتے اور اب یہ ہماری طبیعت پر منحصر تھا کہ انہیں روکیں یا انتظامیہ کے کسی بندے کی نظر پڑنے دیں۔

ایچ آ ر ہیڈ ثاقب صاحب کی نظر پڑ جاتی تو ہم شور مچا دیتے، ”آغا جی پھینک دیں، پھینک دیں“ اور آغا جی گھبراہٹ، غصہ اور لاچاری کے ملے جلے جذبات سے مغلوب ایک دم سگریٹ پھینکتے اور اوپر سے پاؤں بھی اتنے زور سے مارتے کی ثاقب بھائی اپنے کمرے سے آٹھ کر آ جاتے۔ برآمدے سے گزرتے ہوئے تو انہوں نے اچٹتی ہوئی نظر بھی نہیں ڈالی تھی اور اب آغا صاحب بجھے ہوئے سگریٹ سمیٹ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ کبھی آغا صاحب ہمیں ڈانٹتے اور کبھی کارپوریٹ کلچر کو برا بھلا کہتے جس نے انسان کی آ زادی اور خاص طور پر تخلیقی کام کرنے والوں کی فکری آ زادی چھین لی تھی۔

آغا صاحب بہت بذلہ سنج ہیں اور ہر وقت دھیمے دھیمے انداز میں دوسروں پر فقرے چست کرتے رہتے۔ دراصل ہم ایک پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے جس کا نام تھا، ”پرائم منسٹر“ اور یہ، ”دی ویسٹ ونگ“ کی طرز پر بننے والا ایک سیریل تھا۔ ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینلز میں گورے کے کیے ہوئے کام کا ”چھاپہ مارنے“ کا رواج تھا کیونکہ یہ آزمودہ اور کامیاب نسخہ سمجھا جاتا تھا اور ویسے بھی بڑے بڑے فلم رائٹرز اور ڈائریکٹرز کی باتیں کر کے رعب جھاڑنا اس لئے ضروری تھا کہ اگر آپ یہ کام نہیں کریں گے تو سامنے والا کرے گا اور آپ دیسی سمجھیں جائیں گے۔

خیر مستنصر حسین تارڑ، حسن نثار اور منو بھائی سے اس پراجیکٹ کی مختلف اقساط لکھوائی گئیں۔ اب سوچ کا واضح فرق سامنے تھا کیونکہ عبدالرؤف صاحب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایکشن سے کہانی آ گے بڑھنی چاہیے نا کہ ڈائیلاگ سے۔ ویسٹ ونگ میں بھی چھوٹے چھوٹے ڈائیلاگ استعمال ہوتے تھے۔ ہمارے لوگ لمبے لمبے ڈائیلاگ لکھنے کے عادی تھے اور ایک دن مجھے مستنصر حسین تارڑ صاحب نے لفٹ میں کہا، ”ہم سے نہیں لکھا جاتا کہ آ رہے ہیں، جا رہے ہیں“ ۔

پھر ایک مسئلہ نیکا اور ناجیہ کا پیدا ہوا جب حسن نثار صاحب نے شکایت کی کہ لڑکیاں غیر ضروری طور پر انگریزی بولتی ہیں اور ساری گفتگو کا مزا خراب ہو جاتا ہے۔ حسن نثار صاحب اور منو بھائی کی چھیڑ چھاڑ دلچسپ ہوتی اور حسن نثار صاحب نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے کے کالم بھی لکھ دیا کرتے تھے۔ میں ڈاکٹر لال خان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے منو بھائی کے اور شہباز صفدر اپنی بے باکی کی وجہ سے مستنصر حسین تارڑ صاحب کے زیادہ قریب تھا لیکن وہ قربت پیشہ وارانہ زیادہ تھی کیونکہ کسی بھی لمحے پراجیکٹ ڈراپ ہونے کا کہا جا سکتا تھا۔

ہم عبدالرؤف صاحب کے سامنے تو کہانی اور اس کے جزئیات ہر گفتگو کرتے رہتے۔ دنیا جہان کا ادب زیر بحث آ تا۔ آغا جی خود ایک ادب دوست اور پڑھے لکھے آدمی ہیں جن کی تربیت ایرک سپرین جیسے لوگوں کے ہاتھ ہوئی لہذا گفتگو کا بہت مزا رہتا۔ وہ پراجیکٹ تو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن ایک ٹیلی فلم ہم نے ضرور بنائی۔

وہ بھی ایک لمبی کہانی ہے جس کا ایک دلچسپ واقعہ اس کا سٹوری بورڈ ہے جس پر ہمارے دوست علی شاہد ساری رات کام کرتے رہے اور صبح صبح دفتر میں ناجیہ، نیکا ( ہماری ٹیم میں لڑکیاں ) میں، شہباز اور آغا جی نے سٹوری بورڈ دیکھنا شروع کیا تو حیرت اور ایمبیریسمنٹ کا ایک سمندر کھلا کیونکہ وہ تھی تو تصویری کہانی ہی لیکن لگ کسی ننگی سی فلم کے خاکے رہے تھے۔

دیکھتے گئے اور پانی پانی ہوتے گئے اوپر سے یہ خوف کہ آج عبدالرؤف صاحب کو کیا منہ دکھائیں گے۔ علی شاہد کو بلایا اور پوچھا یہ کیا ہے تو انہوں نے ایک شان بے نیازی سے کہا، ”سوری آغا جی کپڑے پہنانا بھول گیا۔ رات بہت دیر ہو گئی تھی“ ۔ جس پر آغا صاحب بولے، ”نہانا تو نہیں بھولے نا؟“ ۔ ایسے ہی ایک دن کسی این جی او کی خاتون آئیں اور ہمیں گھریلو تشدد پر ڈاکیومنٹری فلم بنانے کی ترغیب دینے لگیں۔ وہ خاتون خوبصورت اور حاملہ تھیں اور آغا جی کی حس ظرافت ایسے مواقع پر پھڑک اٹھتی تھی۔

دھیرے سے میرے کان کے پاس آ کر پوچھتے ہیں، ”اس کے ساتھ کس نے تشدد کیا ہے؟“ ۔ آغا جی کے ساتھ ہم نے ایک ڈیڑھ برس گزارا لیکن بہت سیکھا اور بہت مزا کیا۔ بہت سی باتیں یہاں لکھی نہیں جا سکتیں خاص طور پر اداکارہ زیبا کو پیار سے جپھی ڈالنا اور ان کا کسی کے بازووں میں کسمساتے رہ جانا۔ ایک با عصمت خاتون کا سارا دن دفتر بیٹھے رہنے پر آغا جی کا انکشاف، شطرنج جیتنے پر آغا جی کا احساس تفاخر اور ہارنے پر توجیہات پیش کرنا۔

شہباز صفدر مغربی اسٹائل میں شطرنج کھیلتا تھا جس میں پیادہ شروع میں دو چالیں چل سکتا ہے جبکہ آغا جی ساری زندگی مشرقی انداز میں پیادے کی ایک چال چلتے قلعہ بندی وغیرہ کا تکلف کرتے اور شہباز سب سے پہلے ان کے قلعہ پر حملہ کرتا۔ آغا جی بہت جز بز ہوتے اور بعض اوقات تو کبھی دوبارہ نہ کھیلنے کی دھمکی بھی دیتے۔ کبھی جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے تو طنز کے تیر برساتے ہوئے کہتے، ”آغا! طاقت دے نشے اچ چور اگے ود آ یا سیں“ (آغا طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھ آیا تھا)۔ آغا صاحب نازک موقع پر ہمیں بھی آغا کہہ کر ہی پکارتے۔

جب ہم اکثر پکڑے جانے لگے اور عبدالرؤف صاحب کو لوگ شکایتیں کرنے لگے تو ہم نے دفتر میں ہی ایک ایسی جگہ ڈھونڈ لی جو لمبے عرصہ تک محفوظ رہی اور وہ تھی پہلے فلور پر نماز پڑھنے والی جگہ جہاں دو الماریاں ایستادہ کر کے ہم نے ایک چھوٹی سے کٹیا بنا لی تھی۔ پہلے فلور پر ویسے بھی انفوٹینمنٹ ڈیپارٹمنٹ ( ہمارا ڈیپارٹمنٹ جسے عبدالرؤف صاحب ہیڈ کرتے تھے ) والوں میں سے کوئی نہیں آ تا تھا کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں نماز وغیرہ پڑھنے کا رواج کم تھا۔

آغا جی ویسے تو بہت تپاک سے ملتے لیکن کسی سے بھی مرعوب نہیں ہوتے تھے لیکن تاثر یہی دیتے کہ بہت مرعوب ہوئے ہیں۔ ایک دن ہمارے اکاؤنٹنٹ صاحب جو ذرا چھوٹے قد کے دبلے پتلے اور سنجیدہ آ دمی تھے ہمارے پاس سے گزرے اور آغا جی نے سلام کرتے ہی اپنے سیلری چیک کا پوچھ لیا۔ جناب اکاؤنٹنٹ صاحب کس بھی غیر متعلقہ بات کا جواب نہیں دیتے تھے لہذا آغا صاحب کا سوال نظرانداز کر کے گزر گئے۔ اگر آغا صاحب کا کوئی پروگرام کامیاب ہو چکا ہوتا پھر وہ قدرے ملائمت سے جواب دیتے لیکن ابھی تو آغا جی ان کی نظر میں بے کار ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے جاتے ہی آغا جی دھیرے سے کان کے پاس آ کر بولے، ”یہ بھی ایک چھوٹا سا فرعون ہے“ ۔

ٹیلی فلم کے دوران میری ذمہ داریوں میں سب سے اہم واقعات اور گفتگو کے تسلسل نوٹ کرنا تھا جسے فلمی زبان میں کنٹیونٹی کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ہم سب یعنی شہباز، نیکا، ناجیہ اور میرا پہلا پراجیکٹ تھا۔ اس زمانے میں نیوز کی ایسی بھر مار نہیں ہوتی تھی بلکہ جیو نیوز پر ہر موضوع پر پروگرام ہیش کیے جاتے تھے۔ ریٹنگز کی دوڑ ضرور ہو گی لیکن اس کا ہم تک کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ سمیع خان اور ماریہ واسطی مرکزی کردار ادا کر رہے تھے اور وہ ہر وقت ہم سے جھگڑتے رہتے کہ پروڈکشن میں یہ مسئلہ ہے یا وہ مسئلہ ہے۔

ایک دن تو تنگ آ کر حسن نثار صاحب کی حویلی میں شوٹ کر دوران کہہ ہی دیا کہ وہ کل سے نہیں آ رہے۔ بس پھر کیا تھا۔ ہم نے کہا، ”یار اگر تو نہیں آئے گا تو ہماری بھی جان چھوٹے گی اس کام سے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تو آ بھی جائے گا“ ۔ سمیع خان مسکرا دیے۔ ماریہ واسطی ایک سلجھی ہوئی اداکارہ ہیں اور ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتیں۔ ایک دن مجھے کنٹیونٹی لکھتے دیکھ کر کہتیں، ”ایڈٹ میں جا کر پتہ چلے گا کیا بھاؤ بکے“ ۔ آغا صاحب نے سن لیا اور فوراً بولے، ”آغا یہ سب کچھ تم اپنے شوق اور نوکری کے لئے ضرور کرو لیکن مجھے کنٹیونٹی وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں“ اور واقعی انہوں نے ایک بار بھی مجھ سے کنٹیونٹی نہیں مانگی۔

آغا صاحب اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک بار دلیپ کمار پاکستان آئے اور آغا صاحب بھی میڈم نور جہاں، جاوید شیخ وغیرہ کے ساتھ اس محفل میں موجود تھے۔ نورجہاں کھڑی تھیں اور ان کی وجہ سے دلیپ کمار صاحب بھی کھڑے تھے۔ آغا صاحب کہتے ہیں کہ میڈم جان بوجھ کر زیادہ دیر کے لئے کھڑی رہیں تا کہ سائرہ بانو کو بتایا جا سکے کہ جب تک وہ نہیں بیٹھیں گی دلیپ کمار بھی نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے بعد جو بات آغا صاحب نے بتائی وہ ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والی ہے۔

کہتے ہیں دلیپ کمار نے وضعداری میں کہا کہ میڈم کاش آپ ہمارے پاس ہوتیں تو ہم یہ کر دیتے وہ کر دیتے لیکن میڈم نے شاید اس وضعداری کو ایک غیر ارادی طنز سمجھا گویا پاکستان میں ان کے رتبے کا خیال نہیں رکھا گیا لہذا میڈم نے ایک دن یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم تو عسکری صاحب کے کہنے پر کام کرتے ہیں۔ ہمیں تو عسکری صاحب کا کہا ماننا ہوتا ہے یعنی میڈم نے ڈیفنس میکانزم کے طور پر عسکری صاحب کو سامنے کر دیا اور خود ان کے سائے میں بیٹھ گئیں۔

آغا صاحب اٹھارہ برس کی عمر میں انڈسٹری میں آ گئے کیونکہ والد کی وفات کے بعد گھریلو ذمہ داریاں آن پڑیں۔ ذمہ داریاں بھی اور لڑکپن کی ایک ”ناکام“ محبت بھی جسے وہ چاہتے تھے کہ جہاں جائے دکانوں، دیواروں، چوکوں اور چوراہوں میں ان کے نام سے مڈبھیڑ ہو۔ آغا صاحب دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے ایک حلیم الطبع شخص ہیں لیکن احمد ندیم قاسمی کے افسانہ، ”گنڈاسہ“ سے متاثر ہو کر وحشی جٹ بنائی اور پھر فلموں میں گنڈاسے کا چلن ہو گیا۔

آغا صاحب ان فلم ڈائریکٹروں میں سے ہیں جو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں طاق ہیں۔ ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ جب بھی فلم خود بنائی یعنی پروڈیوس کی تو کوئی نہ کوئی حادثہ ہو گیا مثلاً پشاور میں ایک پشتو فلم بنائی اور جیسے ہی سینماؤں میں لگی وہاں بم دھماکے ہو گئے۔ آج کل بھی ایک فلم پروڈیوس کر رہے ہیں جس کا نام ہے، ”چاند چہرہ“ ۔ بابر علی اور سماع راج مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ سب سے اہم کردار شاہد ادا کر رہے ہیں۔

ماضی کے معروف اداکار شاہد، اینکر کامران شاہد کے والد ہیں۔ آغا جی بتاتے ہیں کہ وحید مراد اپنے عروج کے دنوں میں سلام کا جواب تک نہیں دیتے تھے اور پھر وقت بدلا تو راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ملے اور بولے، ”میرا نام وحید مراد ہے۔ کیا آپ کے پاس میرے لئے کوئی کام ہے؟“ ۔ آغا صاحب نے ساٹھ سے زیادہ فلمیں بنائیں، بہت سے ایوارڈ لئے لیکن حکومت صرف سکرین پر ناچتے لوگوں کو جانتی ہے۔ انہیں کیا پتہ کہ آج پرانی اور نئی فلم و کو سمجھنے والے لوگ ایک یا دو ہی رہ گئے ہیں۔ ان کی قدر کیجئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments