حامد میر پر پابندی: ساتویں ایٹمی طاقت کا با اختیار وزیر اطلاعات کہاں ہے؟


صحافی اور اینکر حامد میر کو جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی سے روک دیا گیا ہے۔ جیو ٹی وی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں چند روز کی چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ اب اس پروگرام کی میزبانی کوئی دوسرا صحافی کرے گا۔ یہ اعلان اسلام آباد کے احتجاج میں حامد میر کی طرف سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر صحافیوں پر حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے بعد سامنے آیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق حامد میر سے اس تقریر کی وضاحت بھی طلب کی گئی ہے۔

ملک کے ایک اہم ٹی وی چینل پر ایک مقبول پروگرام کے عالمی شہرت یافتہ اینکر کو یوں علیحدہ کرنا معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے صرف ملک میں آزادی رائے کی ابتر صورت حال ہی کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ بعض نادیدہ عناصر شہری آزادیوں، خود مختاری سے بات کرنے کے حق ہی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی آزادی رائے اور میڈیا کی خود مختاری پر حملہ ہوتا ہے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کا اصل ہدف ملک کا جمہوری نظام ہوتا ہے۔

ایک تو صحافیوں کی خود مختاری یوں بھی جمہوریت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسرے پاکستان میں اہم اور سرکاری بیانیے سے برعکس رائے کو سامنے آنے سے روک کر دراصل عوام کو یک طرفہ سوچ کے دائرے میں مقید کرنے کے طریقہ پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں گروہی تعصب اور انتہا پسندی کی صورت میں ان خطرناک اور فسطائی ہتھکنڈوں کے منفی اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود ریاست کو کنٹرول کرنے والے عناصر اس سے سبق سیکھنے اور اپنے طریقے تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

حامد میر ضرور ایک متنازع صحافی ہیں۔ ان کی وفاداری کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ انہیں متنازعہ ثابت کرنے کے لئے سوشل میڈیا کے متعدد ہینڈل استعمال ہوتے ہیں اور ان سے متعلق کوئی بھی خبر حامد میر کی ذات، شخصیت اور ان کی وفاداری پر رائے زنی کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن ان مباحث میں اس بنیادی نکتے کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ کسی کے متنازع ہونے یا اس کی شخصی کمزوریوں کی وجہ سے نہ تو اسے روزگار سے محروم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی آزادی سے اپنی رائے سامنے لانے سے روکا جاسکتا ہے۔

ملک میں قانون کی عملداری کا ذکر پرزور طریقے سے کیا جاتا ہے۔ قانون کی بالادستی تب ہی ثابت ہو سکتی ہے اگر قانون شکنی کرنے والے کسی بھی شخص کو مسلمہ اور مروجہ طریقہ کے مطابق جوابدہ کیا جا سکے۔ خواہ وہ کوئی با اختیار سیاست دان، سرکاری عہدیدار یا مقبول صحافی ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر حکام کے پاس کسی صحافی کے خلاف کوئی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جو کسی مجاز عدالت میں اسے قانون شکن ثابت کرسکیں تو کسی بھی ادارے یا فرد کو کسی ایسے صحافی کے خلاف اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ سرکاری بیانیہ سے اختلاف کرنے والے صحافیوں پر گولی چلتی ہے یا ان کو گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے اور جب حامد میر جیسا کوئی صحافی اس غیر قانونی اور ناقابل قبول تشدد کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو اس کے آجر پر دباؤ ڈال کر اس سے عوام تک مواصلت کا حق چھیننے کا اقدام کیا جاتا ہے۔

پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ کیوں کر کیا جاسکتا ہے کہ جیو نیوز نے حامد میر کو کسی ’دباؤ‘ کے تحت کیپیٹل ٹاک کی میزبانی سے علیحدہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کسی کے پاس اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ جس میڈیا ہاؤس کی انتظامیہ اتنی کمزور ہو کہ وہ کسی مقبول اینکر کو علیحدہ کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ اعلان کرنے اور اس فیصلہ کی وجوہات بتانے سے بھی قاصر ہو، وہ کیوں کر عوام الناس کو بتا پائے گی کہ کس نے کیسے اس کا بازو مروڑا ہے۔ لیکن بعض طاقتیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن اپنی حرکتوں سے پہنچانی جاتی ہیں۔

اب حامد میر کی پروگرام سے برطرفی ہی کا معاملہ دیکھ لیں۔ یہ اتنا اہم اور عوامی دلچسپی کا موضوع ہے کہ سوشل میڈیا پر حامد میر کا معاملہ مسلسل ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا کی کسی آن لائن سائٹ نے اس خبر کو شائع کرنا ’ضروری‘ نہیں سمجھا۔ ان ٹی وی نیوز چینلز کا تو ذکر ہی کیا جو ’مرغی نے انڈا دے دیا‘ جیسی خبر کا ٹکر چلاتے ہیں اور بریکنگ نیوز کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈا ناظرین کے کانوں میں انڈیلنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔

کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی حکم کے تحت اس مقبول خبر کا بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔ بلکہ منتخب حکومت کے ترجمان تو بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ملک میں میڈیا کو مکمل آزادی ہے اور کوئی اس کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتا ۔ اب وہ کوئی خبر شائع یا نشر نہیں کرنا چاہتا تو حکومت اسے کیسے مجبور کر سکتی ہے۔ لیکن اس وقوعہ کے تناظر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سب ’ذمہ دار‘ میڈیا اداروں کے ’ہوشمند‘ مدیران کو پتہ ہے کہ حامد میر کی خبر ’کوئی سننا یا دیکھنا نہیں چاہتا‘ ۔ لہذا اسے شائع نہ کیا جائے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ملک کے سارے میڈیا ہاؤسز کے ایڈیٹوریل پینلز بیک وقت اس ’آسمانی فیصلہ‘ تک کیوں کر پہنچ پاتے ہیں۔ کسی خبر کی ترجیح کے بارے میں ان کی رائے صرف انہی معاملات میں کیوں حیران کن حد تک یکساں ہوتی ہے، جس کے عام ہونے سے ان جبینوں پر شکن نمودار ہونے کا گمان ہو جن کی ناراضی سے اشتہاروں سے لے کر نشریات کی ترتیب تک متاثر ہو سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر حامد میر کی حمایت اور مخالفت کا طوفان بپا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے ) اور پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل تک اس معاملے میں احتجاج کر رہے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ملک کی جمہوری حکومت کے زعما خاموش ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جو کیپیٹل ٹاک کے ایسے ’مستقل مہمان‘ رہے ہیں کہ ان کا انداز گفتگو ’دیکھیں حامد‘ زبان زد عام کی حیثیت اختیار کر گیا تھا لیکن اس مشکل وقت میں عمران خان کے پاس حامد میر کی حالت زار دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔

وزارت اطلاعات بھی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کا یہ بیان جاری کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکی ہے کہ ’حامد میر کو آف ائر کرنے کے لیے حکومت نے کوئی دباؤ نہیں ڈالا‘ ۔ حالانکہ ایک ایسے وقت میں جب حامد میر یہ کہہ رہا ہے کہ ان کے بیوی بچوں اور بھائی کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں آئینی حق کے لئے لڑنے کی سزا دی جا رہی ہے، عوام کو دنیا کے پانچویں بڑے ملک، ساتویں ایٹمی طاقت کے با اختیار اور دبنگ وزیر اطلاعات کی رائے کا انتظار تھا جنہوں نے دو روز پہلے ہی بی بی سی سے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ’ان کی مرضی کے بغیر کسی کی جرات نہیں کہ میڈیا کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکے‘ ۔ لگتا ہے کہ ہارڈ ٹاک میں بڑھکیں لگانے والے فواد چوہدری کی بھی ہیکڑی نکل گئی۔

البتہ وزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے ڈیجیٹل افیئرز اظہر مشوانی سوشل میڈیا پر ایک تبصرے میں یہ دور کی کوڑی ضرور لائے ہیں کہ ’اس وقت میر صاحب کی ریٹنگ بہت نیچے ہے۔ حامد میر پر عارضی پابندی لگا کر ان کی گرتی ہوئی ریٹنگ کو سہارا دیا گیا ہے۔ جیو نیوز کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ چند دن کے بعد حامد میر یہیں ہو گا اور آزادی کا چیمپئن بن کر جب کیپیٹل ٹاک کرے گا تو ریٹنگ زیادہ ہوگی، فائدہ جیو کو ہی ہو گا‘ ۔ تحریک انصاف کے ہونہاروں کی سراغ رسانی کا یہی عالم رہا تو ہو سکتا ہے جلد ہی کوئی دوسرا سرکاری لیڈر یہ پتہ بھی لگا سکتا ہے کہ ’اسد طور پر حملہ دراصل جیو نیوز کی سازش تھی۔ اس حملہ کے بعد احتجاج کروایا گیا۔ پھر حامد میر سے اشتعال انگیز تقریر کروائی گئی تاکہ انہیں مقبولیت حاصل ہو۔ اس کے بعد انہیں پروگرام سے ہٹا کر یہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں کسی دباؤ میں نکالا گیا ہے۔ اب وہ پروگرام میں واپس آئیں گے تو عوامی حقوق کے چیمپئن کے طور پر ان کے پروگرام کی ریٹنگ بڑھ جائے گی‘ ۔

عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے لاقانونیت کے خلاف آواز بلند کرنا اگر اتنا ہی سہل اور سود مند کام ہے تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کی حکومت اٹھانے کی ضرورت کیوں محسوس کرتی۔ کیوں یہ جان نہیں لیا جاتا کہ جن اداروں کے قصیدے پڑھنے کے لئے وزیر اطلاعات کو بی بی سی کے انٹرویو کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، لوگ تو ان کی ہجو سننا چاہتے ہیں۔ خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والے عمران خان اور ان کے ساتھی کیوں عوام کی خواہشات کا پرتو بننے کا حوصلہ نہیں کرتے اور کیوں بیانات میں تعریفوں کے پل باندھ کر اور ملاقاتوں میں منت سماجت کے ذریعے اپنی حکومت کی سانسیں بڑھوانے کا جتن کیا جاتا ہے۔

حامد میر کا جرم کیا ہے؟ اس کا یہ اعلان کہ ’اب اگر آپ ہمارے گھر میں گھس کر ماریں گے تو ہم آپ کے گھر میں تو نہیں گھس سکتے۔ آپ کے پاس ٹینک اور بندوقیں ہیں۔ لیکن ہم آپ کے گھر کے اندر کی باتیں آپ کو بتائیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ کس کی بیوی نے کس کو کیوں گولی ماری اور اس کے پیچھے کون جنرل رانی تھی‘ ۔ اس بیان کے بعد جیو نیوز کی انتظامیہ نے جس ’غیرت مندی‘ کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے۔ کہ گھر کی باتوں کا عام ہونا کسی کو بھی پسند نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments