صحافت آزاد ہے تو ملک ترقی کیوں نہیں کرتا؟ (مکمل کالم)


بزرگوں کی دعا ہے اور آپ جیسے خیر خواہوں کی رہنمائی میسر ہے۔ طلعت حسین جیسے پرفتن کردار تو خیر زمرہ صحافت ہی سے خارج قرار پائے۔ درویش پر تقصیر مطیع اللہ جان، ابصار عالم، عمر چیمہ، سلیم شہزاد اور اسد علی طور جیسے عاقبت نااندیش صحافیوں سے بھی چار کھیت چھوڑ کر کھڑا ہوتا ہے۔ سرکاری بیانیے کو حرز جاں بنا رکھا ہے، ریاستی موقف کی حرف بہ حرف عذر خواہی کو حیات فانی کی ضمانت اور توشہ آخرت سمجھتا ہے۔ یقین کامل ہے کہ قلم کی امانت تقاضا کرتی ہے کہ حرف محررہ غیرعلانیہ حاکمیت کے اشارے کا پابند ہو، لب کشائی سے قبل سرکار دربار کی منشا جان لینا مناسب ہے۔ لفظ وہی مستحب ہے جو خبر کو اشارے اور واقعے کو استعارے کا لبادہ پہنا دے۔ ہمارے مغرب شناس وزیر اعظم نے ملکی صحافت کو دنیا میں سب سے زیادہ آزاد قرار دیا۔ ہم ایمان لائے۔ فواد چوہدری نے یہی دعویٰ گزشتہ ہفتے ہارڈ ٹاک میں دہرایا۔ مجال نہیں کہ اختلاف کی جسارت کریں۔ وہ تو 17 ملین ووٹوں کو 200 ملین بتانے پر بھی قادر ہیں۔ اس سب احتیاط کے باوجود ایک خلش وقفے وقفے سے سر اٹھاتی ہے۔ راؤ رشید فرمایا کرتے تھے کہ سیاستدان ہو یا صحافی، ضمیر کی کوئی خوابیدہ چنگاری باقی رہ جاتی ہے۔ بس یہ چنگاری گاہے گاہے سلگ اٹھتی ہے۔
صحافت کہتے کسے ہیں؟ صحافت شہریوں کو باخبر رکھنے کا نام ہے۔ عوام کو روز مرہ واقعات اور مسائل کے پیچھے کارفرما محرکات سے آگاہ کیا جائے۔ سیاست دان کے موقف اور ریاست کی پالیسیوں کے رمز و کنائے واضح کئے جائیں۔ معیشت کی گرہ کشائی کی جائے۔ معلومات کے تجزیے، بحث مباحثے اور حقائق کی چھان پھٹک کے ذریعے شہریوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ جمہوری عمل میں پرکشش نعروں سے گمراہ ہونے کی بجائے ایسے فیصلے کر سکیں جو ان کی زندگیوں کو زیادہ محفوظ اور آسودہ بنا سکیں۔ صحافت اور عملی سیاست میں باریک سی لکیر ہے۔ صحافی انتخابی عزائم نہیں رکھتا، ریاستی منصب کا خواہاں نہیں ہوتا۔ صحافت حتمی تجزیے میں سیاسی عمل کا لازمی جزو ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں امریکا کے موقر ترین صحافی والٹر کرونکائٹ نے کہا تھا، ’صحافت محض جمہوریت کے لئے اہم نہیں، صحافت خود جمہوریت ہی کا دوسرا نام ہے‘۔ ثبوت یہ کہ تمام غیر جمہوری حکومتیں اور ریاستیں صحافت کو ناپسندیدہ اکائی سمجھتی ہیں۔ ہمارا ملک تو ایسا جنت نظیر نمونہ ہے کہ ہمارے براہ راست آمر بھی صحافت کی آزادی اور جمہوریت کی حمد و ثنا کیا کرتے تھے۔ بس ذرا جمہوریت کے ساتھ کوئی مفید مطلب اسم صفت (بنیادی، اسلامی یا کنٹرولڈ وغیرہ) ٹانک دیتے تھے اور صحافت سے مثبت رپورٹنگ کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی اشاریے ہماری قومی ترجیحات کی توانائی اور صحافت کی آزادی کی گواہی کیوں نہیں دیتے؟
عوام کے معیار زندگی کی درجہ بندی میں ہم 111 ممالک میں 93 نمبر پر ہیں۔ دنیا کے کل 97 ممالک تیسری دنیا میں شمار ہوتے ہیں۔ ہم اس صف میں بھی 84 نمبر پر ہیں۔ اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ نے جمہوری درجہ بندی میں 165 ممالک میں سے ہمیں 105ویں درجے پر رکھا ہے۔ Global Innovation Index نے ہمیں کاروباری اپج اور صلاحیت میں تین درجے گرا کے 107 پر کھڑا کر دیا ہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے ہمیں آزادی صحافت میں 145ویں زینے پر سرفراز کیا ہے۔ شرح خواندگی میں ہم 200 ممالک میں نیچے سے 18ویں درجے پر ہیں۔ صنفی مساوات میں 156 ممالک کی درجہ بندی میں صرف تین ملک ہم سے پیچھے ہیں۔ انصاف تک شفاف رسائی میں 128 ممالک میں ہم 120ویں درجے پر ہیں۔ علاج معالجے تک رسائی میں ہم 195 ممالک میں 154 درجے پر ہیں۔ متوقع عمر، شرح خواندگی نیز نوزائیدہ بچوں اور دوران زچگی ماو¿ں کی اموات میں جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے پیچھے ہیں۔ تاہم ایسا نہیں کہ ہم ہر میدان میں پھسڈی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آبادی میں ہم برازیل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پانچویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ 5 سے 16 کی عمر کے بچوں میں اسکول سے محروم آبادی میں ہم دوسرے نمبر پر ہیں۔ ایک تیسرا درخشاں اشاریہ بھی یاد آ رہا ہے لیکن اس کا ذکر بوجوہ ممکن نہیں۔ یہ وہ اشاریے ہیں جو دہائیوں کی محنت سے بہتر ہوتے ہیں۔ ہم پیاز ٹماٹر کی قیمت، افراط زر، جی ڈی پی کے حجم یا فی کس آمدنی کا ذکر نہیں کر رہے۔
ہم درمیانے درجے کے ممالک میں شمار ہوتے تھے پھر ایسی کیا آفت ٹوٹی؟ ہمارے عوام کو معیار زندگی، تعلیم اور صحت کی بجائے بے معنی نعروں کے تعاقب میں روانہ کیا گیا۔ جب ہم پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ناپسندیدہ اخبار اور جرائد بند کرنے کے درپے ہو رہے تھے، ہماری معیشت رہن رکھی جا رہی تھی۔ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، تب پروگریسو پیپرز ضبط کر کے نیشنل پریس ٹرسٹ کے بھونپو نصب کئے جا رہے تھے۔ ستر کی دہائی عالمی معیشت میں بریک تھرو کے برس تھے۔ ہم صحافیوں کو کوڑے مار رہے تھے۔ سرد جنگ کے بعد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دنیا بدل رہے تھے، ہم جمہوریت اور صحافت کی آتما رگید رہے تھے۔ سول سوسائٹی کا گلا گھونٹ رہے تھے۔ ہم نے جدیدیت کی مزاحمت پر کمر باندھ رکھی ہے اور قدم قدم پر جدید دنیا کے محتاج ہیں۔ معاشرتی اقدار میں پسماندگی برقرار رکھتے ہوئے معاشی ترقی چاہتے ہیں۔ ہم نے علم، تحقیق، معیشت، جمہوریت اور روزمرہ اخلاقیات میں قدامت پسندی کی بارودی سرنگیں لگا رکھی ہیں۔ قدامت پسندی وسائل پر اجارے، معاشی بدحالی اور پیوستہ مفادات کے تسلسل کا نسخہ ہے۔ قومی ترقی کے لئے اجتماعی زندگی میں تنوع کے احترام، فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت، معاشی مواقع میں مساوات، اختیار کی جوابدہی اور انفرادی آزادیوں کے تحفظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ صحافت ملک دشمن نہیں ہوتی اور خامیوں کی نشاندہی غیرملکی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ہم تزویراتی گہرائی سے نکلتے ہیں تو ففتھ جنیریشن وار فیئر کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔ ایسا ہی کسی کو سلامتی کی سائنس پر عبور کا غرہ ہے تو پچھلے پانچ برس میں سیکورٹی اسٹڈیز کے کسی بین الاقوامی تحقیقی جریدے سے اس اصطلاح کی تعریف کا حوالہ پیش کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments