صحافت کے سات ستونوں کی خلاف ورزی


سنہ 1923 ءمیں، امریکن سوسائٹی آف نیوز پیپر ایڈیٹرز نے اخلاقیات کے کچھ اصولوں پر اتفاق کیا جو ”صحافت کے سات ستون“ کے طور پر تسلیم کیے گئے ہیں جو ذمہ داری، آزادی، اخلاص، غیر جانبداری، شائستگی اور انصاف پر مبنی ہیں۔ ان کا مقصد صحافت میں جو کچھ صحیح اور غلط ہے اس کی حدود طے کرنا تھا۔ ان سات ستونوں کو اب بھی بہت ساری تنظیم یا صحافی اپنا رہے ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کے ابھرنے کے ساتھ، خود نام نہاد صحافی ضابطہ اخلاق کے نہ ہونے کی وجہ سے کی وجہ سے ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر، کچھ دن پہلے، ایک ویڈیو جس میں فلسطین کے حق میں لاہور کے احتجاج کا احاطہ کیا گیا تھا، یوٹیوب چینل ”لیڈر ٹی وی ایچ ڈی“ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ ویڈیو میں، لگتا ہے کہ ان تمام ستونوں یا اصولوں کی واضح طور پر خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس تحریر میں، میں ان اصولوں کا اس ویڈیو سے موازنہ کرتی ہوں اور اجاگر کرتی ہوں کہ آج کی صحافت میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کو کیا اہمیت حاصل ہے۔

سب سے پہلے، ذمہ داری سے عوامی فلاح و بہبود مراد ہے جس کا مطلب ہے کہ صحافی کسی بھی چیز کو شائع کرنے میں بہت محتاط رہیں۔ ویڈیو میں، خاتون رپورٹر، عینی فیصل کو مظاہرین کی پرواہ نہیں تھی۔ در حقیقت، اس نے احتجاج کرنے والوں پر بہت سارے الزامات لگائے تھے کیونکہ اس نے ان کے مذہب پر سوالیہ نشان لگایا تھا۔ احتجاج کی وجہ کے بجائے، اس نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ احتجاج میں شریک خواتین کو کیا پہننا چاہیے تھا۔

دوسری بات، جب آزادی کی بات آتی ہے تو، ایک مشہور قول میرے ذہن میں آتا ہے کہ ”جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں سے آپ کی آزادی ختم جاتی ہے“ ۔ یعنی کسی کو بھی کسی دوسرے شخص کی ناک پہ مکا مارنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں پہ مارنے والے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں پر بات شخصی آزادی کی کی گئی ہے جو اسے ریاست کی جانب سے عطا کی گئی ہے۔ آزادی صحافت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی کسی کی ذاتی زندگی پر تبادلہ خیال کر سکتا ہے۔ اس رپورٹر نے دعوی کیا کہ مرد اور خواتین اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اگر وہ جوڑوں میں بیٹھے ہوئے تھے، تو یہ ان کی آزادی تھی، لیکن اس نے بغیر ثبوت کے الزام لگایا جو صحافت میں جرم ہے۔ بہرحال، صحافیوں کو ان کے قول و فعل میں دانشمند ہونے کی ضرورت ہے۔

تیسرا، صحافیوں کو آزاد ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی آپ کو یہ کہے کہ کیا نہیں کہنا یا شائع کرنا وغیرہ، بہر حال، رپورٹر نے واضح طور پر دکھایا کہ اس کے شو کو مکمل طور پر پہلے سے اس احتجاج کے خلاف ایک مخصوص ایجنڈے کی بنیاد پر اسکرپٹ کیا گیا تھا جو فیمینزم کے خلاف تھا۔

چہارم، یہ اصول تین خصوصیات کے حامل ہیں یعنی اخلاص، سچائی اور درستگی، اور یہ کسی بھی قسم کی صحافت کی اساس سمجھے جاتے ہیں۔ صحافیوں کو مخلص، سچا اور درست ہونا چاہیے۔ انہیں سچائی اور درستگی کے بغیر بہتان نہیں لگانا چاہیے۔ تاہم، اس نے مظاہرین کے جذبات کے ساتھ ساتھ بغیر کسی تصدیق کے عظیم مقصد کو بھی مجروح کیا۔

پانچویں، غیر جانبداری سب سے اہم اصول ہے جسے دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں کو رائے دینے اور تعصب سے پاک ہونا ضروری ہے، لیکن ویڈیو رپورٹ میں مظاہرین کے لباس، مذہب اور ارادوں کے بارے میں واضح طور پر رائے دی گئی۔ چھٹے اصول، فیئر پلے سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا والوں کو ان لوگوں سے اجازت لیے بغیر غیبت نہیں کرنا چاہیے جن کے خلاف کہانی نشر یا شائع کی جاتی ہے، اس کے باوجود، اس نے اپنے الزامات کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا۔ شائستگی کا مطلب یہ ہے کہ صحافی جان بوجھ کر نہیں لکھیں کیونکہ وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔ ویڈیو میں، یہ واضح تھا کہ اس تنظیم یا رپورٹر کو فیمینزم یا تانیثیت پسند نہیں ہے۔ چونکہ اس احتجاج کا مظاہرہ حقوق نسواں نے کیا تھا، لہذا اس نے فیمینزم اور حقوق نسواں کے خلاف بات کی۔

ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والی صرف یہی ویڈیو نہیں ہے، بلکہ ہر روز فیس بک اور یوٹیوب جیسے سوشل سائٹس پر بہت ساری ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں جو ان سات اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں کیونکہ کوئی اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ، الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ، 2016 (پی ای سی اے ) موجود ہے، لیکن جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اس طرح کا مواد رک نہیں سکتا ہے۔ اگر حکومت ایسے مواد کے تخلیق کاروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے حوالے سے مخلص ہے تو، اسے پیمرا جیسے اختیار یا ادارہ کے قیام کے ساتھ ساتھ پی ای سی اے کے نفاذ کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments