آسکر جیتنے والی ڈاکیومنٹری سیونگ فیس پر مختصر تبصرہ


پاکستان میں تیزاب پھینک کر دوسروں کے چہرے جلا دیے جانے کے واقعات نمایاں تعداد میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس شارٹ فلم میں پاکستانی خواتین کی اصل کہانیوں کو دکھایا گیا ہے جو اس ظلم کی شکار ہوئیں۔ ان پر ظلم ڈھانے والے کون لوگ تھے، پس منظر کیا تھا اور کس طرح ان خواتین نے انصاف اور بہتر زندگی کے لئے اپنی لڑائی خود لڑی۔ فلم میں مختلف خواتین اور ان کے ایسے حادثات سے پہلے اور بعد کی تصاویر بھی دکھائی گئیں ہیں جو اس ظلم کی شدت کا بخوبی اندازہ کرا دیتی ہیں۔ فلم میں ویسے تو بہت سی متاثرہ خواتین دیکھی جا سکتی ہیں مگر نمایاں کرداروں میں ذکیہ اور رخسانہ موجود ہیں۔

رخسانہ پر تیل ڈال کر انھیں جلایا گیا تھا اور یہ ظلم کرنے والوں میں ان کا شوہر اور سسرال سے دیگر لوگ شامل تھے۔ ابتدا سے ہی رخسانہ کی ازدواجی زندگی مناسب نہ تھی اور چھوٹے چھوٹے معاملات پر وہ گھریلو تشدد کی نشانہ بنتی رہتی پھر ایک دن یہ تشدد جلا دیے جانے کی حد تک پہنچ گیا۔ رخسانہ کا چہرہ اور جسم جھلس کر رہ گیا مگر میکے یا کہیں سے بھی سے کوئی سہارا نہ ہونے کے سبب انھیں واپس اپنے سسرال کا رخ کرنا پڑا کیونکہ ان کے بچے بھی تھے اور وہ انھیں چھوڑ کر کہیں اور جا بھی نہ سکتی تھیں۔

اس کے ساتھ ہی دوسری کہانی ذکیہ کی ہے۔ جس کا شوہر نشہ کرتا تھا اور ذکیہ سے پیسے طلب کرتا۔ جب تک ذکیہ اسے رقم کا انتظام کر کے دیتی رہی تب تک وہ معمولی تشدد سے آگے نہ بڑھتا تھا مگر جیسے ہی ذکیہ نے رقم دینے سے انکار کرنا شروع کیا اور اس سے علیحدگی کی باتیں کی تو وہ درندگی کی حدود تجاوز کر گیا۔ ذکیہ کی شادی ہمیشہ سے اذیت کا سبب تھی اور اس اذیت میں ناقابل برداشت اضافہ تب ہوا جب اس نے اپنے شوہر کو رقم دینے سے صاف منع کیا۔

اس کے شوہر نے گھر میں موجود بیٹری کے تیزاب سے ذکیہ کا چہرہ جلا دیا۔ فلم میں ذکیہ کا شوہر بھی دکھایا گیا ہے جو اپنے فعل پر بالکل بھی نادم نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ ذکیہ چونکہ اس کی بیوی ہے، اس کی ملکیت ہے۔ وہ جو چاہے اس کے ساتھ کر سکتا ہے اور وہ اپنے اس ’حق‘ کو پریکٹس کرنے میں کسی کو جوابدہ نہیں۔ ذکیہ کے سسر کا دعویٰ ہے کہ ذکیہ کسی دوسرے مرد میں دلچسپی رکھتی تھی سو اس کے شوہر نے اپنی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ذکیہ کو یہ سبق سکھایا ہے۔ ذکیہ نے ایک خاتون وکیل کے ساتھ مل کر انصاف کے لئے اپنا کیس بھی آگے بڑھایا۔

فلم میں ایک اور اہم کردار ڈاکٹر جواد ہیں جو انگلینڈ سے پاکستان صرف ایسے لوگوں کے علاج کے لئے تشریف لائے ہیں جو تیزاب سے جلا دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک سرجن ہیں۔ وہ ذکیہ کے کیس پر بھی کام کر رہے ہیں۔ فلم میں ذکیہ کی سرجری کے مختلف مراحل کو دکھایا گیا ہے جن میں ڈاکٹر جواد کی قابل داد مہارت دیکھی جا سکتی ہیں۔ فلم کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ذکیہ کا چہرہ پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو جاتا ہے اور وہی ذکیہ جو ڈر اور احساس کمتری کی وجہ سے اپنے چہرے کو ہر ایک سے چھپاتی تھی اور اپنی جھلسی ہوئی آنکھ پر کالا چشمہ پہنتی تھی اب وہ اتنا اعتماد حاصل کر چکی ہے کہ وہ اپنے چہرے کو کسی خوف سے چھپائے بغیر دوسروں سے انٹریکٹ کر سکے۔ اس کے ساتھ ہی ذکیہ اپنے مجرم کو عمر بھر قید کے انجام تک بھی قانونی طور پر پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پارلیمنٹ سے بھی ایسی خواتین کے مجرموں کے لئے عمر بھر قید کا بل پاس ہو جاتا ہے۔

ذکیہ کی زندگی کسی حد تک بہتر تو ہو گئی مگر اپنی اس لڑائی میں جو اذیت اس نے اور اس کے بچوں نے جھیلی وہ شاید طویل مدت تک اس کے ساتھ ہی قیام کرے۔ فلم میں ذکیہ کے علاوہ بھی خواتین موجود ہیں جن میں سے ایک نوجوان لڑکی بھی ہے جس کو تیرہ سال کی عمر میں اس ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک حاملہ متاثرہ خاتون بھی ہیں جو اپنے آنے والے بچے سے اپنے روشن مستقبل کی امیدیں لگائے بیٹھی ہیں۔ وہ بیٹی پیدا ہونے کے خوف میں ہیں اور بیٹے کی خواہش رکھتی ہیں کیونکہ بیٹی پیدا ہونے کی صورت میں ان کی بیٹی کو بھی ایسے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ فلم کے اختتام میں ان خاتون کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوتی ہے اور وہ دعا کرتی ہیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر جواد جیسا انسانیت کی خدمت کرنے والا بنے نہ کہ اپنے باپ جیسا درندہ جس نے اپنی بیوی کو جلا دیا۔

یہ شارٹ فلم ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں سے پردہ ہٹاتی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے شادی کے سماجی ادارے کی بنیادوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کا براہ راست تعلق ان کی سماجی حیثیت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تمام خواتین خود مختار نہ تھیں اور اپنے گھروں / سسرال میں کمتر اسٹیٹس رکھتی تھیں۔ زیادہ تر خواتین پر ان کے شوہروں، منگیتر، سسرال والوں یا کسی عاشق نے تیزاب پھینکا تھا۔ بیشتر شوہر ایسے عمل کو اپنے حقوق میں شامل سمجھتے تھے اور اپنے رویے پر نادم نہیں تھے۔

رخسانہ خاتون جو اپنے ہی ظالموں کے پاس صرف اس وجہ سے لوٹ گئیں کہ ان کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین سماجی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے ایسے تشدد کی دلدل میں دھنسی چلی جاتی ہیں۔ ذکیہ کا کیس پہلا کیس تھا جو اتنی بہادری اور حوصلے سے ذکیہ نے اپنی وکیل کے ساتھ مل کر لڑا اور وہ سرخرو ہوئی۔ یہ کامیابی بہت سے شدت پسندوں کے لئے ایک عبرت بھی ہو گی کہ اگر وہ ایسا کوئی گھناؤنا قدم اٹھائیں گے تو انجام تک بھی پہنچائے جائیں گے۔

لمحۂ فکریہ ہے کہ اور بھی تو مختلف جرائم پر قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر خواتین پر تیزاب پھینکنے کے خلاف بھی کوئی سخت قانون عمل میں نہ لایا گیا تو یہ ظلم کم ہونے کی بجائے تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کی معاشی خودمختاری پر بھی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی عورت کو افلاس کے ڈر سے اتنی اذیت نہ جھیلنی پڑے۔ وہ اپنے اندر اتنی مضبوط ہو کہ شادی اور دیگر معاملات میں وہ برابر کا اسٹیٹس رکھتی ہو۔ تعلیم کے ذریعے سے بھی عورت کے مقام کو بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کوئی پراپرٹی نہیں کہ کوئی تین مرتبہ ’قبول ہے‘ بول کر اس کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کر لے۔ عورت ایک کامل انسان ہے اپنے تمام انسانی حقوق کے ساتھ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments