پورنو اور فکشن


۔

منٹو کی کہانی ”بو“ بنت میں موضوع اور ڈکشن میں پینیٹریٹ ہو کر قاری تک پہنچتی ہے۔ وہاں تھوڑا تلذذ ہے مگر بو بو کو ریپلیس کر کے جب پڑھنے والے کو پہنے پھرتی ہے تو وہ بھیگی کالی بھٹیارن ایکراس دی سوسائٹی مہک بکھیرتی دہلیز پار کرتی ہے۔

” ٹھنڈا گوشت“ پڑھ کر آدمی مزہ لینے کی بجائے خود ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ تلذذ لیتے قاری اپنے آرگنز ٹٹولنے لگتے ہیں۔ تسلی ہونے پر شرمندہ نظر آتے۔ اسی طرح موزیل جب اپنا گاؤن لاش پر ڈالتی ہے تو ہم سب ننگے ہو جاتے ہیں۔ جو اس کی پرسنیلٹی سے متنفر ہیں کہ وہ گاؤن کے نیچے کچھ نہیں پہنتی۔

بات کرنا تھی رواج میں آ کر دیکھا دیکھی پورنو اپنی کہانیوں میں لانے کی۔ بہت سے لکھنے والے تو پورنو کی کچھ سطور پر اپنی کہانی تعمیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک کہانی نظر سے گزری اور حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی میں پڑھی گئی جو ایسے شروع ہوتی ہے۔
” کڑتی وی گلی گلی
لاچا وی گلا گلا ”

حیرت ہوئی کہ بہت سے فاضل دوستوں نے ایک دوسرے کی ضد میں اسے سراہا۔ گروپنگ کی گھٹیا سوچ کے پیچھے چھپے۔

سو لگا کہ لکھاری نے گزرتے یہ نصیبو لعل کا گانا سنا اور اس کے آلے دوالے لکھنا شروع کر دیا۔ اٹ از ہوپ لیس۔ یہ لوگ فکشن کو کس طرف لے جا رہے ہیں جو ایک اعلی و ارفع چیز ہے۔ جہاں سرکاری مورخ تاریخ لکھ رہے ہوں وہاں ایک اچھا فکشنسٹ ہی بہتر ہسٹری سامنے لا رکھتا ہے۔

بیدی صاحب کی ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ اور ”اک چادر میلی سی“ کی پورنو لئیرز دیکھتے ہیں۔ بندہ سادگی و پر کاری پر ششدر رہ جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہانی لکھتے محنت شاقہ سے کام لینا۔

راشد جاوید احمد تو پورنو کی جانب آتے ہی نہیں اچھا کرتے ہیں بلا جواز ایسا کرنے سے۔ وہ اس کے بغیر بھی بہت خوبصورت کہانیاں لکھتے ہیں۔

ان کے علاوہ سلمی جیلانی۔ سبین علی۔ اور بہت سے لوگ سنجیدگی سے لکھ رہے ہیں۔ جنہیں پورنو بیساکھی کی ضرورت نہیں شاید۔

کرشن چندر پورنو کے بغیر۔ ؛؛کالو بھنگی ”اور“ پانی کا درخت ”جیسی کہانیاں فکشن کو دے کر امیر کر گئے۔ اسی طرح غلام عباس کی“ آنندی ”نے تو اپنے گرد ایک شہر بسا لیا۔ جیسے اس وقت کے متروک بلھے شاہ کی آغوش میں آتا شہر قصور۔ وہ بھی تو کہانیاں سناتا تھا سٹیٹس کو کے خلاف۔

واجدہ تبسمائی اور بانو قدسیائی پورنو کے معتقدین حدیں تجاوز کرتے کہانی اور کہانی پن کو ڈیمج کر رہے ہیں اور نرگس اور مستانہ کے ذو معانی فقروں اور سچویشنز سے لبریز سٹیج ڈراموں کی کیفیت سے مزین اپنی کہانیاں مختلف فورمز پر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ۔ محمود احمد قاضی۔ اسلم سراج الدین۔ فارحہ ارشد۔ طاہرہ اقبال کی کہانیوں کی پورنو کبھی دیکھیں وہ ریلیوینٹ ہوتے کہانی کا حصہ لگتی ہے۔ وہ اس پہلو کو چھوتے آگے کو گزر جائیں گے۔ کہانی کا لطف اپنی جگہ برقرار رکھتے ہوئے۔ اس ضمن میں ان کی یہ کہانیاں اس لئے ریفرینس کرتا ہوں کہ پورنو میرے نزدیک ممنوع نہیں اگر اس سے کہانی تہہ و بالا نہ ہو جائے۔

ایک سنو ٹائیگر کی سر گزشت۔ تارڑ
خواجہ سرا محمود احمد قاضی
ٹلے باشے کا موچی اسلم سراج الدین
ان سکرپٹڈ فارحہ ارشد
طاہرہ اقبال نیلی بار

اس میں نئی پود اور اساتذہ کی تخصیص نہیں رکھی گئی نہ ہی یہ پورے فکشن کا احاطہ ہے۔ کفن سے ایک نئے لکھنے والی کی کہانی تک سارا فکشن بہت احترام کے لائق ہے اگر وہ ذاتی خواہشات کی آبیاری نہ کرتا ہو وہ کہانی کی وریدوں میں اترتا نیلاہٹ پھیلاتا ہو۔ آدرشی ہو۔ یہ ایک ونگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments