الیکٹرک کار: ہم بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے ناگزیر انقلاب سے کتنا دور ہیں؟

جسٹن رولیٹ - ماحولیاتی اموار کے چیف نامہ نگار


 

الیکٹرک کار

مجھے معلوم ہے کہ آپ میں سے اکثر لوگوں نے الیکٹرک کار خریدنا تو دور اب تک اسے چلایا بھی نہیں ہوگا۔ تو شاید آپ کو یہ پیشگوئی عجیب لگے کہ ‘الیکٹرک گاڑیاں آپ کی سوچ سے زیادہ جلد عام ہوجائیں گی۔’ لیکن براہِ کرم حوصلہ رکھیں اور تحریر آخر تک پڑھیں۔

ہم گاڑیوں کی صنعت میں ایک عظیم انقلاب سے گزر رہے ہیں۔ سنہ 1913 میں ہنری فورڈ کی جانب سے گاڑیوں کی پہلی پروڈکشن لائن کے بعد یہ پہلا موقع ہے۔

یہ انقلاب آپ کی سوچ سے پہلے ایک حقیقت میں بدل سکتا ہے۔

اس صنعت کے کئی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ہم اس مرحلے سے اب گزر چکے ہیں جب ہم الیکٹرک گاڑیوں کو ‘مستقبل کی چیز’ قرار دیں کیونکہ ان کی خرید و فروخت بہت جلد روایتی پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کو پیچھے چھوڑنے والی ہیں۔

آپ چاہے اس سے اتفاق نہ کریں لیکن دنیا کی سب سے بڑی کار کمپنیاں یہی خیالات ظاہر کرچکی ہیں۔

جیگوار نے سنہ 2025 تک اور وولو نے سنہ 2030 تک صرف الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ برطانوی سپورٹس کار کمپنی لوٹس نے کہا ہے کہ وہ سنہ 2028 سے صرف الیکٹرک کار کے ماڈل بیچیں گے۔

اور بات صرف مہنگے برانڈ تک محدود نہیں۔

جیگوار

جیگوار نے سنہ 2025 تک صرف الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے

جنرل موٹرز نے کہا ہے کہ وہ سنہ 2035 تک صرف الیکٹرک گاڑیاں فروخت کریں گے۔ فورڈ کے مطابق سنہ 2030 تک یورپ میں ان کے پاس بیچنے کے لیے صرف الیکٹرک گاڑیاں ہوں گی جبکہ سنہ 2030 تک وولکس ویگن کی 70 فیصد فروخت ای وی کارز پر مبنی ہوں گی۔

یہ چائے کی پیالی میں طوفان یا گرین واشنگ (کسی کمپنی کی جانب سے خود کو ماحول دوست دکھانے کا غلط تاثر) نہیں۔

جی ہاں، دنیا بھر میں کئی حکومتیں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کے اہداف طے کر رہی ہیں جس سے اس انقلاب نے زور پکڑا ہے۔

اندرونی دہن انجن (انٹرنل کمبسشن انجن یا حیاتیاتی ایندھن سے چلنے والے انجن) کا خاتمہ ناگزیر ہے اور یہ صرف ٹیکنالوجی کے انقلاب سے ممکن ہوا ہے۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی کا انقلاب بڑی تیزی سے آتا ہے۔

برقی توانائی کا انقلاب

انٹرنیٹ پر ایک نظر دوڑائیں۔

میرے خال سے ای وی مارکیٹ اس وقت وہیں موجود ہے جہاں انٹرنیٹ 1990 کی دہائی کے اواخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں تھا۔

اس وقت انٹرنیٹ کے بارے میں ہر کوئی بات کر رہا تھا کہ اب بذریعہ کمپیوٹر ہم ایک دوسرے سے بات کر سکیں گے۔

جیف بیزوز نے ایمازون کی بنیاد رکھی۔ گوگل نے الٹاوسٹا، آسک جیووس اور یاہو کی جگہ لے لی۔ ان میں سے کچھ کمپنیاں خطیر رقم میں فروخت ہوئی تھیں۔

جو کمپیوٹر سے دور رہا اس کے لیے یہ بحث دلچسپ مگر بےمحل تھی۔ کمپیوٹر سے رابطے قائم کرنا آخر کتنا کارآمد ہوگا؟ ہمارے پاس موبائل فونز ہیں تو!

لیکن انٹرنیٹ کسی دوسری نئی اور کامیاب ٹیکنالوجی کی طرح سیدھے راستے پر چلتے ہوئے دنیا پر غالب نہیں آیا۔ یہ مسلسل ارتقا کے عمل سے گزرا اور ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت دیتا رہا۔

انٹرنیٹ کی پیداوار دھماکہ خیز اور موجودہ نظام میں خلل ڈالنے والی تھی۔ اس نے موجودہ کاروبار کچل دیے اور ہماری مکمل طرز زندگی بدل کر رکھ دی۔ کسی گراف پر یہ پیداور ایس کے انگریزی حروف جیسی دکھتی ہے اس لیے ٹیکنالوجی کے ماہر اسے ایس کرو کہتے ہیں۔

وہ وقت جب انٹرنیٹ میں زیادہ لوگوں کو دلچسپی نہیں تھی

پیداوار کی ’ایس‘ جیسی شکل میں کافی اتار چڑھاؤ ہیں۔

اس میں تجدید کی رفتار ابتدا میں کم ہوتی ہے۔ شروع میں یہ صرف کسی ایسے شخص کی دلچسپی کی وجہ بنتا ہے جو اس حوالے سے جنونی ہوں۔ الیکٹرک کار اس کرو کے آخر میں رونما ہوتی ہیں۔

انٹرنیٹ کا گراف 29 اکتوبر 1969 میں رات 10 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کا سینکڑوں میل دور سٹینفرڈ یونیورسٹی سے رابطہ قائم ہوا۔

محققین نے اس دوران پہلے ایل لکھا، پھر او اور آخر میں جی۔ جب تک وہ ‘لاگ اِن’ لکھتے سسٹم ہی بیٹھ گیا۔ بھلا ایسی شروعات کے بعد کوئی عام انسان اس میں کیسے دلچسپی لے سکتا ہے۔

ایس پیداوار

ایس کی شکل میں پیداوار گراف پر کچھ ایسی دکھتی ہے: قیمتیں کم ہونے پر صارفین میں اضافہ ہوتا ہے

ایک دہائی بعد اس نیٹ ورک پر صرف چند سو کمپیوٹر تھے مگر تبدیلی کی رفتار بڑھ رہی تھی۔

سنہ 1990 کی دہائی میں ٹیکنالوجی سے مزید لوگوں نے متاثر ہو کر اپنے پرسنل کمپیوٹر خریدنا شروع کر دیے۔

جیسے جیسے مارکیٹ بڑی ہوتی گئی، قیمتیں گر گئیں اور اس کی کارکردگی میں بےانتہا اضافہ آیا۔ اس سے مزید لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ بھی انٹرنیٹ پر آجائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

اس کے بعد ایس کی پیداوار نے صرف اوپر ہی جانا تھا۔ سنہ 1995 میں ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ آن لائن آئے مگر سنہ 2001 میں یہ تعداد 51 کروڑ 30 لاکھ افراد تھی۔

اب انٹرنیٹ کے تین ارب سے زیادہ لوگ صارفین ہیں۔ پھر اس کی پیداوار کی رفتار ایک جگہ رُک جاتی ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب جو کوئی بھی آن لائن آنا چاہتا تھا تو وہ یہ حاصل کر چکا تھا۔

‘تم نے الیکٹرک کار خرید کر ہمیں رسوا کیا’

ہم سمارٹ فون، فوٹوگرافی اور حتی کہ اینٹی بائیوٹکس کی صنعت میں ایسی برق رفتار پیداوار دیکھ چکے ہیں۔ اس میں ابتدا میں اس پیداوار کی رفتار کافی کم ہوتی ہے۔

نئی صدی کے آغاز میں کمبسشن انجن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سٹیم انجن اور پرنٹنگ پریس بھی اسی صورتحال سے گزرے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے بھی اسی مستقبل کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔

درحقیقت ان کی مقبولیت شروع کے انٹرنیٹ سے زیادہ ہے۔

سنہ 1830 کی دہائی میں سکاٹش شہری رابرٹ اینڈرسن نے پہلی کروڈ الیکٹرک کار بنائی۔ لیکن ایسا صرف گذشتہ چند برسوں میں ممکن ہوسکا ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کر لی گئی ہے کہ اب ان کی قیمتیں روایتی گاڑیوں کو ٹکر دے رہی ہیں۔

آٹوموبیل کی صنعت سے متعلق ٹاپ گیئر نامی شو کے پریزنٹر اور استعمال شدہ گاڑیوں کے ڈیلر کوئنٹن ولسن اس سے باخبر ہیں۔ وہ گذشتہ ایک دہائی سے الیکٹرک گاڑیاں چلا رہے ہیں۔

انھوں نے 20 سال قبل جنرل موٹرز کی غیر مقبول ای وی ون کی ٹیسٹ ڈرائیو لی تھی۔ اسے بنانے میں کمپنی کے ایک ارب ڈالر لگ گئے تھے اور اسے بےکار سمجھا گیا تھا۔ ایسی صرف ایک ہزار گاڑیاں بنائی گئی تھیں جنھیں بعد ازاں ضائع کر دیا گیا۔

جنرل موٹرز

سنہ 1998 میں جنرل موٹرز کی ای وی ون کار جسے بےکار کہا گیا

ای وی ون کار کی رینچ مایوس کن تھی۔ چارجنگ کے بعد عام ڈرائیور اسے صرف 50 میل کی دوری تک چلا پاتا تھا۔ مگر ولسن کو یہ کار بھا گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ‘مجھے یاد ہے میں نے سوچا تھا یہی مستقبل ہے۔’

جب ایک دہائی بعد انھوں نے ٹاپ گیئر میں اپنے ساتھی پریزنٹر جیریمی کلارکسن کو اپنی پہلی الیکٹرک کار سٹریون سی زیرو دکھائی تو وہ اشتعال میں آگئے۔

‘یہ ایسا تھا جیسے میں نے کوئی بہت بُرا کام کیا ہو۔ انھوں نے کہا تم نے ہم سب کو رسوا کر دیا ہے۔ یہاں سے نکل جاؤ!’

اب وہ اس کار کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آپ اس میں ہیٹر نہیں چلا سکتے تھے کیونکہ اس سے گاڑی کی رینج مزید کم ہوجاتی تھی۔

مگر فی الحال حالات کافی بدل چکے ہیں۔ ولسن کا کہنا ہے کہ ٹیسلا ماڈل تھری میں رینج کے کوئی مسائل نہیں۔ یہ ایک بار چارج کرنے پر قریب 300 میل دور تک جاسکتی ہے اور 3.1 سیکنڈوں میں اس کی رفتار صفر سے 60 پر جاسکتی ہے۔

‘یہ انتہائی پُرسکون، ہوا دار، خوبصورت ہے۔ اسے چلانے میں لطف ملتا ہے۔ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ میں کبھی واپس نہیں جانا چاہتا۔’

ان گاڑیوں کو کنٹرول کرنے والے کمپیوٹر، ان کے چارجنگ سسٹم اور گاڑیوں کے ڈیزائن بہتر ہوچکے ہیں۔

لیکن ولسن بتاتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر اس میں تبدیلی بیٹری کی بہتر کارکردگی سے رونما ہوئی ہے۔ یہ ان گاڑیوں کا نہ دھڑکنے والا دل ہے۔

اور پھر سب سے زیادہ تعجب کرنے والی تبدیلی ان کی گرتی قیمتیں ہیں۔

امریکہ میں قائم ماحول دوست توانائی پر تحقیق کرنے والی تنظیم آر ایم آئی سے منسلک میڈلائن ٹائسن کہتے ہیں کہ ایک دہائی قبل بیٹری میں ایک کلو واٹ آور توانائی پر 1000 ڈالر کا خرچ آتا تھا۔ اب یہ رقم گِر کر 100 ڈالر ہوچکی ہے۔

اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان کی قیمت اندرونی دہن انجن کی گاڑیوں سے کم ہونے لگی ہے۔

ٹائسن کے مطابق اگر آپ ایندھن اور سروس کی قیمت کا جائزہ لیں تو پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے یہ ای وی کارز سستی ہیں۔ کیونکہ انھیں ایندھن اور سروس کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی۔

اسی دوران توانائی کی کثافت (انرجی ڈینسٹی) یعنی آپ ایک بیٹری میں کتنی زیادہ توانائی بھر سکتے ہیں، بھی بڑھ رہی ہے۔ اب یہ بیٹریاں پائیدار بھی ہوچکی ہیں۔

گذشتہ سال چینی کمپنی سی اے ٹی ایل نے دنیا کی پہلی بیٹری کی رونمائی کی جس سے گاڑی 10 لاکھ میل کی دوری طے کرسکتی ہے۔

آمد و رفت کی ٹیکنالوجی کمپنیاں اوبر اور لفٹ اس دوڑ میں سبقت لے رہی ہیں کیونکہ ایسی گاڑیوں سے زیادہ بچت ممکن ہے جو زیادہ دوری کا سفر کم پیسوں میں طے کرسکیں۔

تاہم ٹائسن کے مطابق قیمتوں میں مزید کمی کے بعد عام صارف بھی انھیں خرید سکیں گے۔

یہ تبدیلی کتنی تیزی سے آئے گی؟

اس کا جواب ہے بہت تیزی سے۔

سنہ 1990 کی دہائی میں انٹرنیٹ کی طرح الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ بھی برق رفتار سے پیداوار حاصل کر رہی ہے۔

سنہ 2020 میں ان کی عالمی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا اور یہ 43 فیصد پر آکر 32 لاکھ ہوگئی۔ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران گاڑیوں کی فروخت میں پانچ گنا کمی کے باوجود ایسا ممکن ہوا۔

دنیا بھر میں گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار

دنیا بھر میں گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار

یہ گاڑیوں کی مجموعی فروخت کا صرف پانچ فیصد ہے لیکن ہم ایس کی شکل میں پیداوار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

سرمایہ کاری کے بینک یو بی ایس کی تازہ پیشگوئی کے مطابق سنہ 2025 تک عالمی سطح پر تمام نئی گاڑیوں کی فروخت میں 20 فیصد الیکٹرک کاریں ہوں گی۔

اس کے مطابق سنہ 2030 تک ان کی تعداد 40 فیصد اور سنہ 2040 میں بظاہر تمام بکنے والی نئی گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی۔

اس کی وجہ ایک نیا مرحلہ ہے جسے صنعتی ماہرین ‘لرننگ کروو (سیکھنے کا مرحلہ)’ کہتے ہیں۔

ایک چیز کو زیادہ بنانے سے ہم اسے مزید بہتر اور سستا بنا سکتے ہیں۔ اسی لیے اب کمپیوٹر، کچن اپلائنسز اور پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی قیمتیں خریدنے کے قابل بنائی گئی ہیں۔

بیٹری

بڑے پیمانے پر بیٹریاں تیار کرنے والی کمپنیاں ان کی قیمتوں کو کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں

اسی لیے بیٹریوں کی قیمت اور اس کے ساتھ الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت کم ہورہی ہے۔

کیلیفورنیا میں سنگولیریٹی یونیورسٹی میں توانائی اور ماحول کے ماہر رامز نعام کہتے ہیں کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے ہم اس تبدیلی کو حقیقت میں بدلتا دیکھ سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی الیکٹرک کار کی قیمت اندرونی دہن انجن کو ٹکر دے گی، یہ ‘گیم چینجر’ ہوگا اور حالات فوراً بدلنا شروع ہوجائیں گے۔

ٹیسلا کے مالک ایلون مسک بھی ان خیالات سے اتفاق رکھتے ہیں۔

گذشتہ ماہ انھوں نے اپنی کمپنی کے سرمایہ کاروں کو بتایا کہ ماڈل تھری دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی سیڈان کار بن چکی ہے۔ انھوں نے پیشگوئی کی کہ ٹیسلا کی نئی اور سستی کار ماڈل وائے دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کار بن سکتی ہے۔

مسک نے میٹنگ میں بتایا کہ ‘الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق صارفین کے خیالات میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اور ہم اب تک کی سب سے زیادہ طلب (ڈیمانڈ) دیکھ رہے ہیں۔’

لیکن اس سے پہلے کے الیکٹرک گاڑیاں روایتی پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کی جگہ لیں، بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے اہم یہ کہ سب کو یہ آسانی میسر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی گاڑیاں سستی قیمت پر چارج کر سکیں، اس بات سے قطع نظر کے ان کے گھر میں چارجنگ کی سہولت موجود ہو۔

اس کے لیے بہت کام اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کچھ دہائیاں قبل ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے پٹرول سٹیشنز کا نیٹ ورک قائم ہوا تھا۔

لیکن اگر آپ کو پھر بھی اس پر شک ہے تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ خود الیکٹرک کار چلا کر دیکھیں۔

کئی بڑی کمپنیوں نے اب اپنی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرا رکھی ہیں۔ تو کوئنٹن ولسن کی طرح آپ کسی پر بھی ٹیسٹ ڈرائیو آزما سکتے ہیں۔ اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ آیا آپ گاڑیوں کے اس انقلاب کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp