کیا صحافی ہونے کے لیے میڈیا ادارے کا ملازم ہونا لازم ہے؟


انفارمیشن منسٹر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ  ”طلعت حسین صحافی نہیں اس لئے کہ وہ کسی میڈیا ادارے کا ملازم نہیں“ ۔

صحافی کون ہے؟ ٹیکنالوجی کی بدولت ہر شعبے کی طرح صحافت کی حدود و قیود بھی بدل گئی ہیں۔ اب صحافت کی دنیا میں سب صحافی ہیں! سوشل میڈیا پر موجود سب لوگ میڈیا پریکٹشنرز ہیں۔ یونیسکو کی ڈیفینیشن کے مطابق صحافت کے عمل میں شامل تمام افراد صحافی ہیں۔ اگر صحافت کا مقصد پبلک کو آڈینس بنا کر انفارم اور ایجوکیٹ کرنا ہے، پبلک انٹرسٹ (یعنی مفاد عامہ) کی ترویج کرنا ہے اور طاقتور کا الفاظ کے ذریعے احتساب کرنا (کلمہ حق وغیرہ) ہے تو پھر ملالہ بھی جرنلسٹ ہے، گریٹا تھرنبرگ بھی جرنلسٹ ہے، میں بھی ہوں اور آپ بھی ہیں!

اسی طرح میرا اور آپ کا فیسبک پیج اور ٹویٹر اکاؤنٹ اور کسی کی ویب سائٹ دراصل میڈیا ہے جس پہ ہم دوسروں سے حاصل کی گئی انفارمیشن یا خبر بھی چھاپتے ہیں اور اپنی رائے بھی دیتے ہیں اور تجزیہ بھی۔ آج کی انفارمیشن کی دنیا صحافت کی دنیا ہے اور اس میں سب ہی صحافی ہیں۔

کل وقتی صحافت اور پارٹ ٹائم صحافت کا فرق اور ملازمتی صحافت اور خود وقتی صحافت کا فرق بے معنی ہو گیا ہے۔ فرق صرف قابل اعتماد انفارمیشن اور فیک انفارمیشن کا ہے۔ جسے ہم ابھی بھی میڈیا کے مین سٹریم ادارے کہتے ہیں وہ بھی فیک نیوز پھیلاتے ہیں اور ایک عام مگر انفارمڈ شہری کسی باقاعدہ میڈیا کا تنخواہ شدہ ملازم نہ ہونے کے باوجود قابل بھروسا انفارمیشن اور انفارمڈ رائے دے سکتا ہے۔

دراصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہم سب اپنے پیدائشی حق اظہار رائے کے رشتے میں اکٹھے بندھے ہیں۔ اس بنیادی حق سے ایک فرد بھی محروم ہو جائے تو سب کا حق ماند پڑ جاتا ہے۔ اس لیے ہم سب کو مل کر فریڈم آف ایکسپریشن کا دفاع کرنا ہے۔ صحافت دراصل حق اظہار رائے کی عملی شکل ہے اور ہم سب کو کسی نہ کسی طرح صحافت سے جوڑتی ہے۔ اسی لئے سندھ اور وفاق کے جرنلسٹ پروٹیکشن بل کا فائدہ سب کو پہنچنا چاہیے۔ اگر اظہار رائے سلامت رہے گا تو صحافت سلامت رہے گی۔

ذرا غور کیجئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments