برطانیہ میں بچوں کی ایسی بیماری کا ’مفت‘ علاج جس پر 18 لاکھ پاؤنڈ تک خرچہ آتا ہے

فرگس واش - میڈیکل ایڈیٹر


Reece Morgan and Arthur

بے بی آرتھر صرف مانچ ماہ کا ہے۔ اسے یہ پتہ بھی نہیں کہ اس کے دائیں بازو میں جو دوائی ڈالی جا رہی ہے وہ دنیا کی سب سے مہنگی ادویات میں سے ایک ہے۔

اس میں تباہ کن پروگریسو ڈس آرڈر کی بیماری کی وجہ سے پٹھوں پر اس کا کنٹرول ختم ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن وہ ان پہلے مریضوں میں سے ایک ہے جن کا زولجینسما سے علاج برطانیہ کا ادارہ نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) برداشت کر رہا ہے۔ یہ ایک جین تھیراپی ہے جس پر 18 لاکھ پاؤنڈ تک خرچہ آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

چارلی، جس کی بیماری کی تشخیص ممکن نہیں

بچوں کی موت ’خالی پیٹ لیچی کھانے‘ سے ہوئی

پانچ ماہ کی تیرا جس کی انوکھی بیماری کا علاج 16 کروڑ کا انجیکشن ہے

ہر سال تقریباً 40 بچے سپائنل میسکولر ایٹروفی (ایس ایم اے) کی انتہائی شدید قسم کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو وہ شاذ و نادر ہی دو سال سے زیادہ جی سکتے ہیں۔

این ایچ ایس نے اسے بنانے والی کمپنی سے ایک خفیہ رعایت حاصل کی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر سال زولجینسما سے اس بیماری میں مبتلا درجنوں بچوں کا علاج ہو سکے گا۔ یہ دوائی ادویات کی کمپنی نوارٹیس جین تھراپیز تیار کرتی ہے۔

جنوب مشرقی لندن سے تعلق رکھنے والے آرتھر کے لیے اپنے بازوؤں اور پیروں کو حرکت دینا بہت مشکل ہے اور وہ اپنا سر بھی نہیں اٹھا سکتا، لہذا کچھ مستقل نقصان پہلے سے ہی ہو چکا ہے۔

امید ہے کہ اس ایک مرتبہ کیے جانے والے علاج سے اس کی حالت کچھ مستحکم ہو گی اور مزید خرابی سے بچا جا سکے گا۔

اس کے والد ریس مورگن کہتے ہیں کہ یہاں تک پہنچنے میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری امید ہے کہ وہ اپنی حرکت کے حوالے سے بہترین زندگی گزار سکے۔ ہمیں نہیں پتہ، لیکن ہم اپنی بساط کے مطابق اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اسے ہر وہ چیز دیں جس کی اسے ممکنہ ضرورت ہو۔‘

زولجینسما کس طرح کام کرتی ہے؟

اس دوائی میں اس گمشدہ یا ناقص جین کی صحت مند کاپی موجود ہوتی ہے جسے ایس ایم این 1 کہتے ہیں۔

اسے ایک بے ضرر وائرس میں ڈالا جاتا ہے۔

جسم میں داخل ہو کر وائرس متبادل جین کو موٹر نیورون خلیوں کے نیوکلیئس میں پہنچا دیتا ہے۔

خلیوں کو آہستہ آہستہ تباہ ہونے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔

اب صحت مند موٹر نیورون خلیے اس ایس ایم این پروٹین کو تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں جو پہلے موجود نہیں تھی اور جو پٹھوں کے کام کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

’بہت اہم قدم‘

Arthur

ایویلینا لندن چلڈرن ہسپتال، جہاں آرتھر کا علاج ہو رہا ہے، ان چند ہسپتالوں میں سے ایک ہے جو زولجینسما دیں گے۔

اب پورے ملک میں این ایچ ایس کے چار سپیشلسٹ سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔ دوسری جگہیں جہاں یہ سہولت ہے وہ مانچسٹر یونیورسٹی این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ، شیفیلڈ چلڈرنز این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور یونیورسٹی ہسپتال برسٹل اور ویسٹن این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ ہیں۔

ایویلینا میں ماہر امراض اطفال ڈاکٹر الزبتھ وریج کہتی ہیں کہ یہ علاج ان بچوں کی قسمت بدل سکتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 20 سال پہلے ایس ایم اے کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی متوقع عمر بہت تھوڑی ہوتی تھی۔

’اب ہمارے پاس یہ صلاحیت ہے کہ بچوں کو اس قابل بنا سکیں کہ وہ رول کر سکیں، بیٹھ سکیں اور یہاں تک کہ کھڑے ہو سکیں، یہ ایس ایم اے کے علاج کے بغیر ناممکن ہوتا۔‘

این ایچ ایس انگلینڈ کے چیف ایگزیکٹیو سر سائمن سٹیونز کہتے ہیں کہ یہ ایک ’زبردست خبر ہے کہ یہ انقلابی دوا اب این ایچ ایس پر آرتھر جیسے بے بیز اور بچوں کے لیے بھی دستیاب ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ زولجینسما ہیلتھ سروس کے زیرِ استعمال ان ’زندگی بدلنے والی تھیراپیز‘ میں شامل ہے جسے ’معمول کے مطابق‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔

برطانیہ میں نوارٹیس جین تھراپییز کی جنرل منیجر سیلی۔این سینگاریڈیس اسے ’انگلینڈ میں بچوں کے لیے ایک انتہائی اہم اقدام‘ قرار دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو اس تاریخی معاہدے میں شامل رہے ہیں جس نے ایسا ممکن بنایا ہے۔‘

اس کی زیادہ قیمت کے باوجود نائس اور سکاٹش میڈیسنز کنسورشیم دونوں نے یہ سفارش کی تھی کہ این ایچ ایس اس علاج کو فنڈ کرے۔

ٹرائلز یا تجربوں سے سامنے آیا ہے کہ اس کے دیرپا فوائد ہیں، جو کم از کم پانچ سال تک تو رہتے ہیں، اور شاید مستقل بھی ثابت ہوں۔

ایس ایم اے کے لیے صرف ایک اور مہنگا علاج جو کرانا پڑتا ہے وہ ریڑھ کی ہڈی میں انفیوژن ہے جو سال میں کم از کم تین بار کرنے کی ضرورت ہے۔

’اس نے اس کی جان بچائی ہے‘

جنوب مغربی لندن کی تورا میں پہلی مرتبہ علامات اس وقت نظر آئیں جب وہ تین ماہ کی تھیں اور انھیں اپنے پیٹ پر لیٹے ہوئے سر اٹھانے کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔

جب امریکہ میں زولجینسما کے ساتھ علاج شروع کیا گیا تو وہ اس وقت 10 ماہ کی تھیں۔ ان کی ماں تیسیہ اوسوا کہتی ہیں کہ وہ فلاپی تھیں یا ان کا ہاتھ پاؤں پر قابو نہیں تھا اور وہ نقل و حرکت نہیں کر سکتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ بنیادی چیزیں نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ اس کھلونے تک بھی نہیں پہنچ سکتی تھیں جو صرف پانچ سینٹی میٹر دور ہوتا تھا۔ ہم انھیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ صوفے پر بھی نہیں، جہاں ان کے چاروں طرف کشن اور تکیے رکھے ہوتے تھے کیونکہ ہر چیز بہت خطرناک تھی۔ ہم ایک سیکنڈ کے لیے بھی آرام نہیں کر سکتے تھے اور وہ اپنی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتی تھیں۔‘

اب دو سال اور آٹھ ماہ کی تورا ایک متجسس چھوٹی بچی ہیں جو تین زبانیں بولتی ہے اور اپنے والدین کی مدد سے تھوڑا بہت چل بھی سکتی ہیں۔

تیسیہ کہتی ہیں کہ ’اگر وہ صرف صوفے پر بیٹھی ہوں تو آپ کو یہ محسوس بھی نہیں ہو گا کہ (ان کے ساتھ) کچھ ایسا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔‘

’اس نے ان کی زندگی بچائی، اور بنیادی طور پر اب ان کے پاس موقع ہے کہ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوں اور وہ چیزیں کریں جو ہر بچے کے لیے بنیادی اور آسان ہیں لیکن ان کے لیے یہ بالکل ناممکن تھیں۔ کھیل کے میدان میں جانا، سوئمنگ کرنا، یا کسی کتاب کو تھامنا اور پڑھنا۔‘

تورا کے والد راجدیپ پتگیری کہتے ہیں کہ خاندان اب مثبت محسوس کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے ہم ڈرتے تھے کہ اگلا دن کیا لائے گا۔ ہمیں ہمیشہ خوف تھا کہ وہ کچھ چیزیں بھول جائیں گی، ان کے نگلنے کی، سانس لینے کی صلاحیت خراب ہو جائے گی۔ اب ہم اس امید سے انتظار کرتے ہیں کہ کل کچھ اچھا لائے گا۔‘

ایس ایم اے کتنا عام ہے؟

تقریباً 50 میں سے ایک انسان میں ایس ایم اے کی خراب جین ہوتی ہے اور یہ بیماری تقریباً ہر 10،000 پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے۔

یہ بچپن میں موت کی سب سے عام جینیاتی وجہ ہے۔

ایس ایم اے ایک ایسی حالت ہے جہاں بچے کی پیدائش کے وقت سے ہی گھڑی کی ٹک ٹک شروع ہو جاتی ہے یعنی اس کی موت کا خطرہ رہتا ہے۔ اور ہر وہ ہفتہ جو بغیر علاج کے گزرتا ہے اس میں نرو فائبرز یعنی اعصاب کے ریشوں کو مزید نقصان پہنچانے کا خطرہ رہتا ہے، جو بچے کے چل سکنے، بھاگ سکنے اور بغیر مدد کے بیٹھ سکنے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اس کا عام طور پر اس وقت پتہ چلتا ہے جب بچے تقریباً تین ماہ کے ہو جاتے ہیں اور وہ معمول کے سنگ میل پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں جیسے ٹانگیں مارنا یا اپنا سر پکڑنا۔

لیکن اس وقت تک موٹر نیورون سیلز کو مستقل نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔

جن خاندانوں میں پہلے ہی کوئی متاثرہ بچہ ہوتا ہے انھیں پیرینٹل سکریننگ کی سہولت کی پیشکش کی جاتی ہے۔

اس سے چھوٹے بچوں کو پیدائش کے کچھ دنوں بعد ہی زولجنسیما دی جاتی ہے، علامات شروع ہونے سے بہت پہلے۔

اس کا مطلب ہے کہ ان کے مسلز یا پٹھوں کی نشو نما نارمل ہوتی ہے اور انھیں حرکت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp