دو صدیوں کا انسان ۔ آصف فرخی


آصف سے میری تفصیلی گفتگو سترہ اپریل کو ہوئی تھی۔ وہ دنیا زاد کے ”وبا نمبر“ کی تیاری میں مصروف تھے۔ اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد پرچے کے لئے کچھ بھیجوں۔ میں نے کہا ایک غیر مطبوعہ نظم ہے ”پرندے چہچہاتے ہیں“ ۔ ادھر سے آواز آئی۔ اچھا عنوان ہے! ۔ پھر ٹھہر کر بولے، اور آپ کی وہ نظم جو ’ہم سب‘ میں آئی ہے (وبا کے دنوں میں ایک نظم) عمدہ نظم ہے اسے اور بڑھائیے۔ میں نے کہا آصف وہ نظم بڑی ہی تھی لیکن میں نے اختصار کے خیال سے بہت سے مصرعے نکال دیے۔ مگر کمال ہے آپ نے پکڑ لیا۔ میں آصف کی باریک بینی اور ذہانت پر حیران رہ گئی۔ میں نے کہا یہ نظم بھی جو آپ کو بھیج رہی ہوں (پرندے چہچہاتے ہیں ) اسی نشست میں ہوئی تھی۔ بلکہ کہیں بھیجنے جا رہی تھی لیکن آخری تین مصرعوں میں الجھ گئی ہوں۔ میں ابھی مطمئن نہیں ہوں۔ آصف نے کہا وقت ہو تو سنا دیجئے۔ میں خوش ہو گئی۔ ایک سانس میں نظم سنا دی۔ ادھر سے جواب آیا۔ فوراً بھیجیے، میں نے ہنس کر کہا کہیں اور بھی بھیج سکتی ہوں۔ آصف بولے بالکل نہیں جناب! اب یہ نظم میری ہے۔ پرچہ تقریباً تیار ہے۔

وہ لہجہ میرے کانوں میں اب تک گونجتا ہے۔ وہ ایک پر امید اور پرجوش انسان کی آواز تھی جو وبا جیسے موضوع پر نگارشات اکٹھا کر رہا تھا یعنی ایسے لایعنی موسم کو بھی بامعنی بنانے کے عمل میں مصروف تھا جب لوگ صرف اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گئے تھے، آصف ان کے اندر کے خوف کو ایک تخلیقی جہت میں پیش کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ یہ بہت انوکھی بات تھی۔ ایسے وقت میں جب ہر طرف ایک بے سمتی اور بے یقینی کی فضا تھی اور ایک نفسا نفسی کا عالم تھا ایسے میں دنیا زاد کے ”وبا نمبر“ کا آئیڈیا۔ کس قدر قابل تحسین تھی یہ بات۔ میں نے کہا آپ نے پرچہ بند کر کے تو ہمارا دل ہی توڑ دیا تھا۔ خدا کا شکر کہ آپ کی قسم ٹوٹی۔ مبارک ہو اور نظم تو آپ کی ہوئی۔ وہ مزاجاً کم آمیز آدمی تھے لیکن اس دن بڑے مزے میں باتیں کر رہے تھے۔ بہت پر امید تھے۔ پرچے کی بحالی اور مزید دو شمارے نکال کر پچاس کی گنتی پوری کرنے کا عزم لئے ہوئے۔ میں نے حسب وعدہ نظم ’پرندے چہچہاتے ہیں‘ اسی وقت بھیج دی اور ساتھ نوٹ لگا دیا کہ رائے دیجئے کہ کون سے آخری تین مصرعے زیادہ بہتر ہیں۔ فوراً جواب آیا کہ ’یہ والے مصرعے رکھیے‘ ۔ آصف کی دو ٹوک رائے نے میری الجھن دور کردی۔

کہتے ہیں انسان کو زندگی میں ایک بار ہی عشق ہوتا ہے۔ آصف نے بھی عشق کیا اور وہ عشق تھا قلم اور کتاب سے۔ وہ طالبعلمی کے زمانے سے اپنی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر خود کو منوا چکے تھے۔ ان کے پاس ایسی تعلیمی سند تھی کہ وہ دنیا میں کہیں بھی چلے جاتے ان کے لئے نہ ملازمت مسئلہ تھی اور نہ ہی شہریت۔ لیکن آصف زمیں سے جڑے ہوئے انسان تھے۔ انہوں نے پاکستان میں رہ کر بہت باوقار طریقے سے کام اور نام کمایا۔ وہ طب کے شعبے سے نکلے اور ادب کی تدریس میں آ گئے۔ یہ دریا کے مخالف سمت تیرنے کا عمل تھا لیکن انہوں نے وہاں بھی بہت جلدی اپنا مقام بنا لیا۔ مجھے انہوں نے حبیب یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں مدعو کیا۔ میرا لیکچر رکھا اور اپنے طالب علموں سے ملوایا۔ میں نے محسوس کیا کہ طلبہ اور طالبات ان کے گرویدہ تھے۔

ان کے رسالے دنیازاد کو اگر دیکھا جائے تو اس پرچے میں آصف نے بھاگتے دوڑتے وقت کو ہمیشہ قید کرنے کی کوشش کی۔ فہمیدہ ریاض کے انتقال کے بعد ان کے بکھرے ہوئے قلم اثاثے کو جس جانکاہی سے آصف نے سمیٹا اور جس دیانت داری سے اسے تاریخ کے حوالے کیا وہ آصف ہی کا حصہ تھا۔ آصف یہ کام نہ کرتے تو فہمیدہ ریاض کے آخری دن شاید وقت کی گرد میں دب کر معدوم ہو جاتے۔

اپنی ذاتی زندگی میں آصف بہت رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ ان کی نشست و برخاست میں ایک شائستگی اور لہجے میں فطری متانت تھی۔ نپی تلی گفتگو ان کا مزاج تھا۔ وہ الفاظ کے معاملے میں بھی کفایت شعار آدمی تھے۔ آصف نہ ایک لفظ زائد بولتے تھے اور نہ لکھتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر اختصار پسند انسان تھے اور زندگی کے باب میں بھی انہوں نے اختصار پسندی سے کام لیا۔ اس اختصار پسندی میں جامعیت تھی اسی لئے چھوٹی سی زندگی میں اتنا کام کر دکھایا جو بہت سے لوگ مل کر بھی کرنا چاہتے تو مشکل تھا۔ آصف سے میری مختصر ملاقات اور مختصر گفتگو کے باوجود ایک گہرا اور طویل مکالمہ تھا۔ بالمشافہ گفتگو ہوتو اختصار پسندی کا یہ عالم تھا کہ اکثر سوال کے جواب میں وہ صرف مسکراہٹ سے بھی کام چلا لیا کرتے تھے۔ یہ مسکراہٹ کبھی دل آویز ہوتی تھی تو کبھی درد انگیز۔ ان سے ملنے والے کو پہلی ملاقات میں یہ احساس ہوجاتا تھا کہ وہ بہت لئے دیے رہتے ہیں۔

نجی زندگی میں جس شخص کی لچھمن ریکھا میں کسی اجنبی کو پاؤں رکھنے کی جرات نہ تھی، تخلیقی میدان میں وہ بالکل دوسرا آدمی تھا۔ علمی اور تخلیقی گفتگو ہو تو آصف رواں ہو جاتے تھے۔ وہ جس خوبی اور لطف کے ساتھ ادب اور آرٹ کی پرتیں کھولتے چلے جاتے تھے۔ ذات کے معاملے میں اتنے ہی کم آمیز اور مشکل انسان تھے۔ ان کی ذات کی پرتیں اکثر ان کی کہانیوں میں کھلتی ہیں۔ مکان کی تلاش کے حوالے سے انہوں نے جو کالم لکھا تھا اس نے مجھے پریشان کر دیا۔ وہ صرف ایک مکان کی تلاش میں سرگرداں فرد کی کہانی ہی نہیں تھی بلکہ بین السطور ویرانی دل کا نوحہ بھی تھا۔ ایک لٹے پٹے فرد کا المیہ۔ میں تین دہائیوں سے وطن سے دور ہوں اور وہاں کی بہت سی سرگرمیوں اور گرم بازاری سے ایک حد تک نا واقف ہوں۔ شاید اسی لئے مجھے اس خبر سے ایک دھچکا سا لگا کہ آصف گھر ڈھونڈ رہے ہیں آصف کے گھر میں جا چکی تھی۔ ان دونوں نے ہر بار جس محبت اور تپاک سے میرے لئے اپنے گھر محفل سجائی۔ جس اہتمام سے دوستوں کو بلایا۔ ان کا وہ گھر، وہ گلابوں والا چمن اور کتابوں والی دنیا، وہ سب کچھ یاد آتا چلا گیا۔ دل چاہا کہ کاش میرا خدشہ غلط ہو۔ ان کی دوسری کہانیوں کی طرح یہ بھی صرف کہانی ہو۔ ان کی کہانیاں اکثر اتنی ہی بھرپور ہوتی تھیں کہ ان پر آپ بیتی کا گمان ہوتا تھا۔ لیکن آپ بیتی کو کہانی کے قالب میں ڈھال کر غم چھپانے کا ہنر بھی آصف کو خوب خوب آتا تھا۔

اب سوچ رہی ہوں تو یاد آ رہا ہے کہ میں نے کبھی انہیں اپنی کسی ذاتی تحریر کے حوالے سے ایک جملہ بھی بولتے نہیں سنا۔ کسی تخلیق کار کے یہاں ذات کی ایسی نفی بہت مشکل سے ملے گی۔ آصف کھوئے ہوؤں کی تلاش میں بھی سرگرداں رہتے تھے۔ میں جب سنہ 2004 میں چودہ سال بعد کراچی گئی تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ میرے بہن بھائی یورپ اور امریکہ جا بسے تھے اور گھر میں صرف میری والدہ اور بوڑھی نانی تھیں یا دو ایک ملازم عورتیں۔ ان حالات میں کوشش کے باوجود بہت سے نئے پرانے دوستوں اور لکھنے والوں سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ فاطمہ حسن اور ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کے گھر ہو آئی تھی۔ کیونکہ میری رہائش بھی گلشن اقبال ہی میں تھی۔ آصف کو اطلاع ملی تو وہ مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ اور ڈان کے لئے انٹرویو کا وقت طے کیا۔ پھر ایک دن فون آیا کہ ابا آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ آپ اگر مصروف نہ ہوں تو کسی دن شام کو ہمارے ساتھ چائے پئیں۔ میری واپسی میں چند دن باقی تھے۔ میں نے کہا آج ہی چل سکتی ہوں۔
آصف شام کو آفس سے نکل کر سیدھے میری طرف آ گئے۔ میں تیار تھی۔ ڈاکٹر اسلم صاحب کا گھر ہمارے گھر سے بمشکل دس منٹ کے فاصلے پر ہوگا۔ آصف گاڑی چلا رہے تھے کہ اچانک گاڑی چلاتے چلاتے میری طرف مڑ کر دیکھا اور بولے آج آپ کے لئے ایک سرپرائز ہے۔ گاڑی کو ہلکا جھٹکا لگا اور دوبارہ رواں ہو گئی، مگر میں نے اس لمحے آصف کے چہرے پر بالکل کھلنڈرے بچے کی سی شوخی اور چمک دیکھی۔ میں نے کہا سرپرائز! آصف بولے جی! میرا ایک دوست ہے، اس سے آپ کو ملواؤں گا۔ کمال کا شاعر ہے آپ اس سے نہیں ملی ہیں اردو اس کی مادری زبان نہیں ہے لیکن غزل سنیں گی تو حیران رہ جائیں گی۔ میں نے کہا نام بتائیے۔ بولے۔ یہ سرپرائز ہے۔ ! اس وقت مجھے حیرت یہ نہیں ہوئی کہ وہاں میرے لئے کوئی سرپرائز ہے۔ میرے لئے تو آصف کا یہ انداز ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔ وہاں میری ملاقات عرفان ستار سے ہوئی۔ جناب اسلم فرخی، تاج آپا اور آصف فرخی یہ تین سامعین تھے اور دو شاعر۔ پروفیسر اسلم فرخی صاحب کے گھر کی وہ یادگار شام میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ عرفان ستار جب شعر سنا رہے تھے تو آصف کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کی آنکھوں سے محبت کی پھوار برس رہی تھی۔ عرفان کو جب کسی شعر پر داد ملتی تو آصف یوں دیکھتے جیسے یہ داد انہیں کو مل رہی ہو۔

عقیل عباس جعفری نے مشورہ دیا کہ مجھے اپنا دوسرا مجموعہ دنیازاد سے شائع کرانا چاہیے۔ میں نے عقیل سے کہا کہ مشورہ چونکہ آپ نے دیا ہے تو بات بھی آپ ہی کریں۔ اگر وہ تیار ہوں تو بتائیے۔ چند روز بعد آصف میرا انٹرویو کرنے کے لئے آئے تو انہوں نے مجموعے کی اشاعت پر آمادگی ظاہر کی۔ میں نے آصف سے کہا کہ آج کل امریکہ سے آنے والے اکثر شعرا نے یہ بدعت رائج کر رکھی ہے کہ وہ اپنا شعری مجموعہ اپنے خرچے پر چھپواتے ہیں۔ میں اس بدعت میں پڑنا نہیں چاہتی۔ آصف مسکرا کر بولے اس کی فکر نہ کیجئے۔ میں شائع کروں گا۔ آپ مسودہ فراہم کیجئے۔

اس سے اگلے سال دو ہزار پانچ میں میرا پاکستان جانا ہوا۔ اس بار میں تین ہفتوں کے لئے گئی تھی اور مسودہ لے کر گئی تھی۔ آصف نے کمپوزنگ کا کام شروع کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میری موجودگی میں کتاب آ جائے لیکن کراچی کا یہ حال کہ ایک دن بجلی غائب تو دوسرے دن پانی۔ کمپوزر بے چارہ کسی طرح اپنا کام پورا کرتا تو راستے بند۔ آگے کے مراحل۔ کتاب کا کور نہیں بنا تھا، دیباچہ نہیں لکھا گیا تھا۔ میں نے کہا آصف اتنی عجلت میں جیسی کتاب میں چاہتی ہوں چھپنا ممکن نہیں۔ لیکن آصف پر امید تھے۔ بولے آپ دیباچے اور کور کے بارے میں سوچئے۔ میں نے دیباچے کے لئے فہمیدہ ریاض اور کور کے لئے ناہید رضا کا نام لیا۔ انہوں نے کہا آپ ان دونوں سے بات کیجئے۔ میری بات ہو گئی تو آصف نے مسودہ اسی دن فہمیدہ ریاض کے گھر پر پہنچایا۔ وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنی جلدی کتاب کیسے چھپے گی۔
میری واپسی میں اب بمشکل ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ پھر کور کے لئے پینٹنگ کا انتخاب کرنا تھا اس کے لئے ناہید رضا کے گھر جانا تھا۔ وہاں بھی آصف مجھے لے گئے۔ پھر مرحلہ تھا کتاب کے نام کا۔ مجھے کوئی نام ہی نہیں سوجھ رہا تھا۔ میں نے کہا آصف پہلی کتاب کا نام تو سردار جعفری صاحب کا تجویز کردہ تھا۔ ”کنج پیلے پھولوں کا“ انہوں نے میری غزل کے مصرعے سے اخذ کیا تھا۔ اب یہ کام آپ کیجئے۔ بولے اچھ۔ چھا۔ دیکھتا ہوں۔ دوسرے دن شام کو آئے تو ہاتھ میں کتاب کے ناموں کی ایک فہرست تھی۔ جو انہوں نے میری غزلوں سے اخذ کیے تھے۔ یوں میرے دوسرے مجموعے کو یہ نام ”دھوپ اپنے حصے کی“ آصف فرخی نے دیا۔ وہ عجیب آدمی تھے جس کام کو کرنے کی ٹھان لیتے تھے پھر پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ آصف نے جتنی تگ و دو کر کے میری دوسری کتاب چھاپ دی وہ اگر اس وقت نہ چھاپتے تو شاید پھر بہت دیر ہو جاتی۔ یہ آصف کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔

آصف کا مجھ پر ایک اور بھی احسان ہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے مجھ سے کہانی لکھنے کی فرمائش کی۔ عصمت چغتائی نے میرے پہلے مجموعہ کلام پر اپنی رائے میں لکھا تھا کہ ”تمہارے شعروں میں بھی تو ویسی ہی کہانیاں ہیں، ان ہی انسانوں کی ہیں جنہیں میں نے بھی دیکھ کر خون تھوکا تھا“ اور انتظار حسین صاحب نے بھی میری شاعری کے حوالے سے ان ہی ”کہانیوں“ کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن وہ کہانیاں میری شاعری میں تھیں۔ نثر ایک الگ صنف تھی۔ اور نثر میں میں نے خاکے لکھے تھے۔ کہانی نہیں لکھی تھی۔ اس طرف مجھے لانے والے آصف ہیں۔ انہوں نے میری پہلی کہانی ”دنیا زاد، کتابی سلسلہ 02“ میں بچے اور کہانی کے عنوان شائع کی۔ پھر وہ برابر تقاضا کرتے رہے۔ پھر یہ ہوا کہ آصف کو میں نے تین کہانیاں اور ایک عصمت چغتائی کا خاکہ چار چیزیں بھیجیں اور لکھ دیا کہ آصف جو تخلیقات آپ کو بھیج رہی ہوں ان میں سے کوئی معیاری ہو تو چھاپیے گا ورنہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیجئے گا۔ میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ نثر میرا میدان نہیں ہے اور یہ میرا پہلا قدم ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ آصف کی ایک مختصر ای میل آئی جس سے اندازہ ہوا کہ کہانی انہیں پسند آئی ہے۔ بس۔ نہ یہ لکھا تھا کہ کون سی کہانی۔ میں چپ سادھے رہی۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ آصف اس معاملے میں ایماندار آدمی ہیں۔ غیر معیاری تحریر کے ساتھ وہ سمجھوتہ نہیں کرتے۔

پھر میرا آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس میں جانا ہوا۔ میلے میں باہر کتابوں کے اسٹال کے پاس آصف کھڑے نظر آئے انہوں نے بھی دور سے مجھے دیکھ لیا۔ تیز تیز قدم سے میری طرف آئے۔ مجھے ایک طرف اشارے سے بلایا آہستہ سے جھک کر سرگوشی میں کہا یہ رکھ لیجیے۔ بڑی مشکل سے ایک آپ کے لئے بچائی ہے۔ اور دھیرے سے دنیا زاد کا کتابی سلسلہ 44 مجھے تھما دیا۔ پھر مسکرا کر کہا اس میں آپ بھی ہیں! ۔ میں نے بے اختیار پوچھا۔ کون سی والی؟ آصف نے کہا۔ میں نے کوئی رسک ہی نہیں لیا۔ میں کچھ سمجھی کچھ نہیں سمجھی۔ آصف نے کہا اچھا جناب اب میں چلتا ہوں۔ اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے بیتابی سے فہرست پر نظر ڈالی۔ ایک۔ دو۔ تین۔ چار۔ میں نے چار چیزیں بھیجی تھیں اور چاروں پرچے میں موجود تھیں۔ ان ہی کہانیوں نے مجھے سلیم الرحمن صاحب سے متعارف کرایا اور انہوں نے مجھے سویرا میں لکھنے کی دعوت دی۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ اور یہ کریڈٹ آصف کو جاتا ہے کہ انہوں نے مجھے کہانی کار بنا دیا۔

اگر میں یہ کہوں کہ آصف نے اپنی عمر چھپا رکھی تھی تو برا نہ مانئے گا۔ آصف فرخی نے اپنی عمر دو طرح سے چھپا رکھی تھی۔ ان کے اندر ایک بوڑھی روح تھی جو فرخ آباد کے کسی دیوان خانے سے نکل کر ان میں حلول کر گئی تھی جسے لوگ فرخی کے نام سے جانتے تھے اور ایک بچہ تھا جو ان آنکھوں کی حیرانی میں جھانکتا نظر آتا تھا جسے لوگ آصف کے نام سے پکارتے تھے۔ اسے کوئی فن پارہ نظر آتا تو وہ چہکنے لگتا تھا۔ اس کی شربتی آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک پیدا ہوجاتی تھی۔ آصف کے اندر کا وہ پرتجسس لڑکا ایک ٹوٹتی بکھرتی تہذیب کی مصنوعی اقدار کے گارے سے بنی ہوئی پرانی دیوار کی شکستہ منڈیروں سے آنے والے دنوں کو جھانک جھانک کر دیکھتا تھا۔ وہ بچہ جو اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہو گیا تھا اور جسے دیوار کے اس پار اترنے کی جستجو تھی۔ اسے گلی میں بھٹکتے بلی کے بیمار بچوں کا غم بیتاب کر دیتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ان کے لئے مٹھاس تھی اس کی دوستی گلی میں بھٹکتے ان زخمی اور بیمار بلی کے بچوں سے تھی جنہیں صاحب ثروت لوگ اپنے نونہالوں کا دل بھر جانے پر کسی کوڑے کے ڈھیر پر چھوڑ جاتے تھے۔ وہ سماج کی دیوار پھلانگ کر انہیں اپنے گھر لے آتا تھا۔ اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ جس سماج میں وہ زندہ ہے وہاں سانس لینے کے لئے کچھ شرطیں ہیں اور وہ ان شرطوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔

ایک بار آصف نے اپنے کالم میں گوریا کا نوحہ لکھا تھا۔ میں ان کی یہ کہانی ”اور چڑیا اڑ گئی“ پڑھ کر پریشان ہو گئی تھی۔ چڑیا اور چڑے کی کہانی ہم میں سے کون ہے جس نے بچپن میں نہ سنی ہو۔ مجھے بچپن میں اس کہانی سے سخت چڑ تھی۔ جہاں ہماری نانی اماں نے کہا کہ ”بھیا ایک تھی چڑیا اور ایک تھا چڑا” میں نے منہ پھلا کر کروٹ لی۔ اصل میں مجھے چڑیا پر غصہ آتا تھا۔ نانی کہتی تھیں کہ چڑیا نخرے پیٹی تھی۔ پھر چپکے سے ساری کھچڑی اکیلے کھا گئی اور چڑا بھوکا باہر کھڑا رہا، ادھر اس نے اندر سے کنڈی بھی چڑھا لی وہ تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ادھر سے بڑھئی کا گزر ہوا۔ مگر ہر بار تو خدا کا کرنا ایسا نہیں ہوتا کہ۔ خیر تو میں کہہ رہی تھی کہ آصف کا کالم پڑھ کر انکشاف ہوا کہ کراچی سے گوریا کوچ کر گئی۔ یہ تو عجیب سی بات تھی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ لیکن ایسا تھا۔ اس تحریر کی ہر سطر میں دکھ تھا۔ تشویش تھی۔ آصف فرخی جیسا آدمی جسے جدید اور کلاسیکی ادب پر یکساں دسترس حاصل ہو۔ جس نے عالمی ادب گھول کر پیا ہو۔ شیکسپئر اور میر انیس کی شاعری کے ابلاغ پر یکساں قدرت رکھتا ہو۔ یہ زبان و ادب کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے کدھر جا نکلا۔ وہ اس غم میں کاہے کو دبلا ہوا جا رہا تھا کہ کراچی سے گوریا نے کوچ کیا۔ اصل میں اس کے اندر دو روحیں یکجا ہو گئی تھیں۔ ایک وہ حیران پریشان بچہ جو آنے والے زمانے کے لئے پیدا ہوا تھا جس کا نام آصف تھا۔ اور ایک وہ جید بزرگ جنہیں لوگ فرخی کے نام سے جانتے تھے۔ دونوں اب منوں مٹی تلے آرام کر رہے ہیں۔ سب غموں سے آزاد۔ ان کی بلا سے اس مردہ سماج کی دیوار رہے یا ڈھے جائے۔ شہر میں چڑیا رہے یا کوچ کر جائے۔ قیمتی مسودے اور نادر تحریریں، مرحوم دوستوں کی کتابیں اور محبت کے نسخے ردی میں بک جائیں یا دریا برد ہوجائیں۔ اب کوئی ان پر آواز اٹھانے والا نہیں۔ کوئی ان پر آنسو بہانے والا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments