آن لائن کریڈٹ کارڈ اور ایزی پیسہ میں دھوکہ دہی سے کیسے بچاؤ کریں


یہ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہم اپنے موبائل فون پر ایک ویڈیو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہی ہمیں ایک ”یو ایس ایس ڈی“ پیغام موصول ہوا کہ ٹیلی نار گفٹ شاپ سے آپ نے جو خریداری کی تھی، اس کے چار ہزار روپے ادا کردیں، ساتھ ہی ٹیلی نار ایزی پیسہ اکاؤنٹ کا پن کوڈ درج کرنے کے لیے خالی خانہ اور بھیج دو کا بٹن تھا۔ ہم نے فوری طور پر اس کے ساتھ کینسل کا بٹن دبا دیا۔ کیونکہ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ دھوکہ دہی پر مشتمل پیغام ہے، حالانکہ یہ موبائل ہمارے بھائی کے پاس رہتا ہے اور اس میں ایزی پیسہ اکاؤنٹ بھی اسی کے نام پر ہے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی سے ہم نے پوچھا ہوگا کہ تم نے کوئی چیز خریدی ہے اور اس کے انکار پر اس پیغام کو کینسل کر دیا ہوگا تو نہیں، ہم نے پوچھے بغیر ہی اسے منسوخ کر دیا کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ وہ یوں گھر والوں کو بتائے بغیر آن لائن خریداری نہیں کرتا۔ کچھ دیر بعد دو تین دفعہ یہی پیغام آیا توہم نے بھائی سے پوچھ ہی لیا اور اس نے بھی تصدیق کر دی کہ اس نے ایسی کوئی خریداری نہیں کی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتا دیا کہ آج کل اسی طرح کے بہت دھوکے ہو رہے ہیں۔

ابھی کل ہی میرا ایک فیس بک دوست بتا رہا تھا کہ اس کے بھائی کو اسی طرح کا پیغام ملا اور اس نے بغیر سوچے سمجھے اس میں اپنا پن کوڈ ڈالا تو اس کے کھاتے سے تیس ہزار روپے چلے گئے۔ دیکھا آپ نے، آن لائن اگر زیادہ آسانی سے رقوم کا تبادلہ قانونی طور کیا جا سکتا ہے تو آپ کے ساتھ غیر قانونی طور پر دھوکہ دہی کی واردات بھی بہت آسانی سے ہو سکتی ہے، صرف چند لمحات کے لیے آپ ذرا سے بے دھیان ہوئے، آپ نے غلطی سے پیغام کو پورا سمجھنے اور اس پر غور کرنے سے پہلے ہی اگر غلطی سے اپنا پن کوڈ داخل کر دیا تو آپ کی رقم گئی

پھر بقول شاعر
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزاء پائی

اور کم از کم آپ پاکستان میں تو اس بات سے بے فکر ہو جائیے کہ کمپنی یا بنک اس حوالے سے آپ کی کوئی مدد کریں گے۔ بلکہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی موبائل کمپنیوں نے ایک اندھیر سی مچا رکھی ہے اور یہ مختلف ویب سائٹوں کو اپنی دیگر مصنوعات مثلاً گیمز، میوزک اور دیگر ایسی اضافی مصنوعات خریدنے کے لیے ایسے اشتہارات جاری کرتی ہیں جنھیں ”ون کلک سبسکرپشن“ کہا جاتا ہے۔ اور یہ واقعی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اگر آپ کے سامنے یہ اشتہار آ گیا ہے تو چاہے آپ نے اس میں بیان شدہ مصنوعہ کو نہ خریدنے اور اسے بند کرنے پر کلک کیا ہو لیکن آپ کے ذمے اس اشتہار میں دی جانے والی چیز مثلاً گیمز وغیرہ کے لیے پندرہ بیس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ ”پاپ اپ سبسکرپشن“ کے اشتہار بھی ہوتے ہیں کہ جیسے ہی یہ آپ کے براؤزر پر چلے تو خود بخود آپ کی جانب سے سبسکرائب ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اس معاملے میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہوتا، آپ کے سامنے صرف ایک اشتہار آنے کی دیر ہوتی ہے اور پھر مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق، آپ کے پیسے کٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کے اشتہارات کے ذریعے کوئی ڈیڑھ دو سالوں سے دھوکہ دہی ہو رہی تھی، صارفین شکایتیں کر کر کے تھک گئے تھے۔

اب کل ہی یہ خبر پڑھی ہے کہ پی ٹی اے نے موبائل کمپنیوں کو اس طرح کے اشتہارات دینے سے منع کیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ وہ اپنے صارف کی واضح رضا مندی لیے بغیر اس کے کھاتے سے ایسی کسی خدمات کے حوالے سے رقم نہیں کاٹ سکتے اور اس حوالے سے موبائل کمپنیوں کو بیس دنوں کی مہلت دی ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے حوالے سے تفصیلات بتائی جائیں۔ لیکن جتنے عرصے کے دوران جب موبائل فون کمپنیوں کو اس حوالے سے منع نہیں کیا گیا تھا تو انہوں نے صارفین سے کتنے کروڑ یا ارب روپے اس طرح کے دھوکے سے ہتھیا لیے ہوں گے، ان کا حساب کون دے گا؟

کیا اس عرصے کے دوران صارفین سے اس طرح کی دھوکہ دہی کے ذریعے ہتھیائی گئی رقم ان کو واپس کر دی جائے گی؟ اور کیا اپنے صارفین کے اعتبار کو اس طرح سے مجروح کرنے پر ان کمپنیوں پر کوئی بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا؟ خاطر جمع رکھیے! ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ مغرب میں کہا جاتا ہے کہ کسی ادارے کو اپنے صارفین کو دھوکہ دینے میں پکڑے جانے کے بعد مستقبل میں مزید دھوکہ دہی کرنے سے روکنے کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ اس پر پہلے دھوکے کے حوالے سے بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے تاکہ اسے مالی حوالے سے تکلیف پہنچے اور وہ آئندہ صارف کے ساتھ دھوکہ کرنے سے پہلے اسے یاد رکھے۔

یاد کیجئے کہ جب ایپل نے جان بوجھ کر اپنے پرانے موبائل فونز کو سست رفتار کیا تھا تو یورپی یونین نے اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔ لیکن یہ ہمارے موبائل فون کمپنیوں والے اپنے صارفین کے ساتھ اس طرح کے جرم کرنے کی کوئی سزا نہیں بھگتیں گے۔ یہ موبائل کمپنیوں والے اس سے یہی سمجھیں گے کہ چلو اس دھوکے کے ذریعے عوام کی جیبوں سے کئی کروڑ یا ارب تو آرام سے نکلوا لیے ہیں، اب صارفین کو لوٹنے کا کوئی نیا طریقہ سوچتے ہیں۔

زونگ نے یہ ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ اگر آپ نے ان کی مقرر کردہ تاریخ تک اپنا موبائل بیلنس خرچ کر لیا تو کر لیا ورنہ آخری تاریخ گزرنے کے بعد وہ آپ کا بیلنس ضبط کر لیتے ہیں۔ اور اس بات پر کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے کہ کیوں بھئی! آپ ایک چیز بیچ رہے ہیں (یعنی بیلنس) اور ہم نے وہ چیز خرید لی ہے، تمام سرکاری ٹیکس وغیرہ ادا کر کے، اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم جب چاہے، اسے خرچ کریں، آپ کون ہوتے ہیں ہمیں مجبور کرنے والے کہ ہم اپنی رقم آپ کے طے شدہ وقت کے مطابق استعمال کریں۔

اور نہ استعمال کریں تو آپ کے پاس ہماری رقم چھین لینے کا اختیار کہاں سے آ گیا، کس نے آپ کو یہ اختیار دیا ہے؟ لیکن کسی نے اب تک تو زونگ کو اس طرح صارف سے رقم چھیننے سے نہیں روکا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں ذرا آپ بازار چلتے کسی شخص یا بچے ہی کے ہاتھ سے پندرہ بیس روپے چھیننے کی کوشش کیجئیے! پہلے تو ارد گرد کے لوگ آپ کی درگت بنائیں گے، پھر پولیس نہیں چھوڑے گی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں موبائل کمپنیوں کی صرف برائی ہی کر رہا ہوں، اچھائی بیان نہیں کر رہا تو موبی لنک کے بیلنس کی کوئی مدت استعمال نہیں ہوتی، اور یہ بات بیان کرنے کے لیے موبی لنک والوں نے ہمیں کوئی پیسے نہیں دیے ہیں۔

کچھ سال پہلے ہم نے بنک میں کوئی تین سالوں کے لیے رقم فکس کرائی۔ جس دن فکس رقم کا سرٹیفیکیٹ ختم ہونا تھا، اسی دن ضرورت کی وجہ سے ہم رقم لینے چلے گئے، رقم تو مل گئی لیکن کچھ مہینوں بعد پتا چلا کہ بنک نے ہم پر تین سالوں کے منافع کو واپس لینے کے لیے ہمارے اکاؤنٹ سے رقم کاٹ لی ہے، وجہ یہ بتائی گئی کہ آپ کو فکس رقم کی مقررہ مدت کے خاتمے کی تاریخ سے اگلے دن رقم لینی چاہیے تھی، اب یہ وقت سے پہلے نکلوائی جانے والی رقم میں شمار ہوتی ہے تو اس وجہ سے ہم نے سارا منافع کاٹ لیا ہے۔

ہم کیا کر سکتے تھے، چپ ہو گئے۔ لیکن اب آپ سوچیے کہ آپ کوئی رقم فکس کراتے ہیں تو اسے مقررہ تاریخ سے اگلے دن دوبارہ فکس کراتے ہیں تو یوں بنک کے پاس آپ کی رقم رکھنے کے لیے ایک اضافی دن آ جاتا ہے۔ یوں ہی اگر آپ اپنی رقم ہر دفعہ ایک دن بعد دوبارہ فکس کراتے رہیں، خاص طور پرایک مہینے جیسی کم مدت کے لیے تو ایک دن ایسا آ جاتا ہے کہ جس دن آپ نے پہلی دفعہ رقم جمع کرائی تھی، اس تاریخ سے دو ہفتے یا اس سے بھی زیادہ کی کوئی تاریخ آ جاتی ہے، حالانکہ آپ نے تو اپنی رقم کو دوبارہ فکس کرانے میں کوئی دیر نہیں کی ہوتی لیکن بنک کے اگلے دن دوبارہ فکس کرنے کی شرط کی وجہ سے آپ کی اس حوالے سے تاریخ کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف آپ بنک سے کوئی قرضہ لیتے ہیں تو قسط دینے کی تاریخ سے اگلے دن جا کر رقم جمع کرائیے۔ بنک آپ کو دیر سے رقم جمع کرانے پر مزید جرمانہ عائد کر دے گا لیکن صارف کو جس دن رقم دینے پر معاہدہ ہوتا ہے، اسے اگلے دن لینے کا کہتے ہیں۔

جس معاشرے میں کاروباری اخلاقیات کی یہ حالت رہ گئی ہو، وہاں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ موبائل کمپنیاں یا بنک آپ کی رقم کی واقعی حفاظت کریں گے اور کسی آن لائن دھوکہ دہی کے نتیجے میں آپ کو اپنی رقم واپس مل جائے گی تو آپ کا خدا ہی حافظ۔

انٹرنیٹ پر آپ کریڈٹ کارڈ دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے طریقے ڈھونڈیں تو آپ کو بہت سے مشورے مل جائیں گے مگر ان میں سے زیادہ تر اس طرح کے ہوتے ہیں کہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنا۔ مثلاً اپنے بنک/کریڈٹ کارڈ سٹیٹمنٹ کو غور سے پڑھیے اور اگر کوئی ایسا خرچہ نظر آئے کہ جس کی آپ نے خریداری نہ کی ہو تو اپنے بنک/کریڈٹ کارڈ کمپنی کو فوری آگاہ کیجئے۔ اب اگر کریڈٹ کارڈ کمپنی نہ تسلیم کرے کہ آپ کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، آپ کو ادائیگی کرنا ہی پڑے گی۔

یا پھر اتنے زیادہ مشورے دیے گئے ہوتے ہیں کہ جن کو بزرگ افراد یا بے خیالی کا شکار غائب دماغ رہنے والے افراد ہر وقت نہیں اپنا سکتے۔ مثلاً انجان آن لائن خریداری کی ویب سائٹ سے خریداری نہ کریں اور ویب سائٹ کے پتے کو دیکھیں کہ اس کے شروع میں انکرپٹڈ کی علامت یعنی تین ڈبلیو کے بعد دو سلیش//اور تالے کا نشان موجود ہو۔ اور دکان پر خریداری کرتے وقت اپنے کریڈٹ کارڈ کو ہر وقت نگاہ میں رکھیں اور خریداری کے لیے جاتے ہوئے صرف ایک یا دو کارڈ ساتھ لیں اور بقیہ گھر پر چھوڑ دیں۔ اور بنک سٹیٹمنٹ کو جلا دیں یا مشین سے انتہائی باریک ٹکڑے کر کے پھینکیں۔

تو آخر کیسے بچاؤ کیا جائے؟ آپ کو اپنی رقم کی حفاظت خود ہی کرنا پڑے گی۔ تو آپ اپنی رقم کی حفاظت کیسے کریں؟ اس کا حل بہت آسان ہے۔ ہم آپ کو یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ ایزی پیسہ یا ڈیبٹ کارڈ سرے سے استعمال ہی نہ کریں۔ بس اس کے لیے آپ کو تھوڑی سی تکلیف بھی اٹھانا ہوگی۔ اور وہ یہ ہے کہ کبھی بھی وہ اکاؤنٹ کہ جس میں آپ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی رکھتے ہیں، اسے کسی اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈ سے منسلک نہ کرائیں بلکہ صرف چیک کے ذریعے رقم نکلوائیں، بنک اکاؤنٹ فارم پر واضح کردیں کہ اس کھاتے کے لیے آپ کبھی اے ٹی ایم کارڈ جاری نہیں کرائیں گے۔

اگر آپ کو آن لائن خریداری کے لیے یا روزمرہ کی ادائیگیوں کے لیے یا کسی اور مقصد کے حوالے سے ڈیبٹ کارڈ، یا ایزی پیسہ اکاؤنٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لیے اے ٹی ایم /ڈیبٹ کارڈ میں پانچ دس ہزار سے لے کر حسب ضرورت اتنی رقم رکھیں جتنی آپ کو ایک مہینے کے اخراجات کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اپنی تنخواہ کا چیک آپ اپنے اے ٹی ایم کھاتے میں جمع کرا سکتے ہیں، اسی طرح سے اگر آپ کوئی کاروبار کرتے ہیں تو ایزی پیسہ اکاؤنٹ رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بنک کے اوقات تو زیادہ سے زیادہ شام پانچ بجے تک ہوتے ہیں لیکن اگر آپ رات دس گیارہ بجے گھر جا رہے ہیں تو ایک بڑی رقم نقد ساتھ رکھنے کا خطرہ مول لینے کی بجائے ایزی پیسہ دکان سے اسے اپنے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں منتقل کرا دیجئے۔

بس یہ یاد رکھیے کہ مہینے بھر کے اخراجات کے بعد جو رقم بچ جائے، اسے اپنے چیک بک والے کھاتے میں گھر بیٹھے جمع کرا دیں۔ دراصل آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اے ٹی ایم/کریڈٹ کارڈ یا ایزی پیسہ اکاؤنٹ کی مثال آپ کی جیب کے بٹوے کی طرح ہے۔ جس طرح بٹوا کھو جانے یا چوری ہونے کی صورت میں آپ کو رقم چلے جانے کا جھٹکا تو لگتا ہے مگر آپ بٹوے کے چلے جانے سے پائی پائی کے محتاج نہیں یو جاتے اور آپ کو روز مرہ کے اخراجات ادا کرنے کی فکر لاحق نہیں ہوتی کیونکہ آپ کے پاس بنک میں یا گھر میں اپنی بچت کردہ رقم پڑی ہوتی ہے، اسی طرح اے ٹی ایم یا ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں دھوکہ دہی ہونے کی صورت میں بھی آپ کو اپنے روزمرہ کے اخراجات ادا کرنے کے حوالے سے تشویش کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اس کا یہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے اے ٹی ایم کارڈ/ایزی پیسہ اکاؤنٹ کو اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے منسلک نہ کریں۔

جس طرح آپ لٹ جانے کے خوف سے یا زیادہ بڑی رقم کا ڈھیر ہر وقت اٹھائے پھرنے کا بوجھ اٹھانے کی بجائے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اپنے بٹوے میں نہیں رکھتے بلکہ اسے گھر میں کسی تجوری یا بنک میں محفوظ رکھتے ہیں اور جب کوئی انتہائی ضرورت ہو یا بٹوے میں موجود رقم سے زیادہ رقم کی ضرورت پڑے، تو اسی وقت آپ تجوری یا بنک سے رقم نکلواتے ہیں۔ اسی طرح آپ اپنے ڈیبٹ کارڈ/ایزی پیسہ اکاؤنٹ کو روز مرہ کی، مہینے بھر کی خریداری کے لیے تو استعمال کریں مگر اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اس کارڈ سے منسلک نہ کریں۔

یہ یاد رکھیے کہ کریڈٹ کارڈ/ڈیبٹ کارڈ /ایزی پیسہ اکاؤنٹ رکھنے اور استعمال کرنے میں جتنی آسانی ہے، اتنا ہی ان کے استعمال کے حوالے سے آپ کو انتہائی چوکس رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ چیک بک کے معاملے میں کچھ بے احتیاطی کی جا سکتی ہے کیونکہ چیک بک کے حوالے سے دو تین احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ جو کہ یاد رکھنا آسان ہوتی ہیں۔ یعنی چیک بک محفوظ جگہ ہر رکھنا، انجان فرد کو چیک نہ دینا اور بلینک چیک پر دستخط کر کے نہ رکھنا۔

اگر آپ موجودہ کرونا کی وبا کی وجہ سے چیک کے لیے بنک جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تو پھر ایک سمجھوتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے بچت والے کھاتے کو آن لائن بنکاری سے منسلک کروائیں اور اس کے ذریعے پہلے دوسرے کریڈٹ کارڈ/ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں رقم منتقل کریں اور پھر اس کے ذریعے خریداری وغیرہ کریں۔ یعنی یہ ایک طرح سے بالکل ویسا ہی معاملہ ہوگا جیسا کہ اکثر لوگ ایک ذاتی موبائل نمبر یا ای میل کھاتہ رکھتے ہیں اور دوسرا وہ نمبر اور ای میل ہوتا ہے جو ہر کس و ناکس کے علم میں ہوتا ہے۔

اگر آپ کوئی بہت بڑی خریداری جیسے کہ جائیداد یا کار خرید رہے ہوں تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ادائیگی سے ایک دن پہلے یا اسی دن اپنے چیک والے کھاتے سے خود کو چیک جاری کر کے اپنے اے ٹی ایم/ڈیبٹ کارڈ/ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں منتقل کر لیں اور جس سے کار یا جائیداد خرید رہے ہوں، اسے ادائیگی کر دیں یا اگر وہ آپ کا جاننے والا ہو براہ راست چیک کے ذریعے ادائیگی کر دیں۔ لیکن اگر وہ بھروسے والا نہ ہو تو اسے ڈیبٹ کارڈ یا بنک ڈرافٹ کے ذریعے ادائیگی کریں کیونکہ چیک پر آپ کے دستخط، کھاتہ نمبر، چیک بک پر سیریل نمبر موجود ہوتے ہیں جو کسی دھوکہ دہی میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اپنانے میں آپ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ہم بعض اوقات جذباتی ہو کر کوئی چیز خرید لیتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں کہ غلط کیا۔ اب اپنی بڑی رقم کے کھاتے کو صرف چیک بک سے منسلک کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ کو بڑی خریداری کے حوالے سے سوچ و بچار کی زیادہ مہلت مل جائے گی۔

اسی طرح اگر آپ کو کوئی کسی جعلی جائیداد یا جعلی کاغذات کی حامل کار خریدنے کے لیے جھانسہ دے کر بیوقوف بنائے تو ڈیبٹ کارڈ یا ایزی پیسہ کی صورت میں فوری ادائیگی ہو جاتی ہے، چیک دینے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کو چند گھنٹوں کی مہلت مل جائے گی اور اس دوران آپ ایسے چیک کو منسوخ بھی کرا سکتے ہیں۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کسی ہنگامی صورتحال میں ڈاکٹر وغیرہ کے خرچے کے لیے بنک جانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈاکٹر اور مختلف ہسپتال اب بھی براہ راست چیک قبول کر لیتے ہیں۔

ویسے کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر کسی انجان شخص یا ویب سائیٹ کو دس ہزار روپے تک کی ادائیگی کرنا ہو تو آپ کوئی ڈیڑھ صدی سے رائج منی آرڈر کے ذریعے بھی ادائیگی کر سکتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ رقم بھجوانی ہو تو کئی منی آرڈر کے ذریعے مطلوبہ رقم بھجوائی جا سکتی ہے۔ اور اس طریقہ کار کے ذریعے آپ کی ذاتی معلومات کسی اجنبی تک نہیں پہنچتیں۔ مغربی ممالک میں آن لائن خریداری کا یہ طریقہ اتنے جدید ذرائع آنے کے بعد بھی خاصا مقبول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments