امن زندہ باد


میرا تعلق سندھ کے ایک ایسے شہر سے ہے جہاں اقلیتی قومیں اکثریت میں ہیں، سندھ میں کافی ایسے شہر گاؤں ہیں جہاں ہندو آبادی عمومی طور پر زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان کا ہمارے سماج میں ہونا ایک گلدان کی مانند ہے جس میں مختلف اقسام کے پھول گلدان کی رونق کو نمایاں کرتے ہیں، ۔ ہمارے شہر میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مثالیں روزمرہ کی زندگی میں ہی دکھنے کو مل جاتی ہیں۔

مذہبی تہواروں، عید، شادیاں یا تحفے کے طور پر دی جانے والی سوغات ہماری شہر عمرکوٹ کے مشہور حلوائی ”کرشن“ کی مٹھائی ہوتی ہے۔ جو کسی بھی خوشی کے موقع پر دی جاتی ہے۔ برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہمارے ثقافتی اور تہذیبی انداز کافی ملتے جلتے ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر ملنے سے ہماری عاجزی مذہبی تفریق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

میری نانی اماں پانچ وقت کی نمازی خاتون ہیں، وہ گاؤں کی چند پڑھی لکھی عورتوں میں شمار ہونے کے ساتھ خد پڑھاتی کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں، سارا گاؤں ان کی آج بھی عزت کرتا ہے۔ ان کے گاؤں کی ساری سہلیوں کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ میری نانی اماں کو ہندو مذہب کے تمام ریتی رواج، تہوار اور دیگر چیزیں یاد ہیں وہ کبھی بھی ہمیں بتانے سے نا اتراتی ہیں نہ ہچکچاتی ہیں۔ ان کے چھوڻے بڑے دنوں کا احترام بھی کرتی ہیں۔

میرے دل میں احترام اس لیے بھی ہے کہ ہمارے شہر کے برابر میں ہندو مذہب کا ایک بڑا شو ماہ دیو کا مندر ہے جہاں ہر سال بڑا میلا لگتا ہے۔ بچپن میں وہ ہمارے گاؤں کے قریب ہوا کرتا تھا تو ہم پیدل بھی جایا کرتے تھے، اس مندر کو میں ایک الگ ہی عاجزی سے دیکھتا ہوں کیوں کہ تاریخ اور میرے بڑے بزرگ کہتے ہیں اس کی تعمیر میرے پڑداداؤں میں سے کسی نے کی تھی۔

یہ صرف اک طرفہ سچ سنا ہے اس کا بقیہ حصہ بھی آپ کو سناتا ہوں۔ میرا اسکول کے وقت کا بہترین ہندو دوست اسکول میں اسمبلی کے دوران ہونے والی تلاوت قرآن پاک سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے قرآن پاک کی کچھ سورتیں بر زبانی یاد کرلی وہ آج بھی اس کو یاد ہیں اور کبھی پوچھنے پر بڑی عقیدت کے ساتھ سناتا بھی ہے، وہی دوست رمضان کے دنوں میں قدر کے روزوں کی تاریخیں مجھ سے لکھوا لیتا ہے اور روزے بھی رکھتا ہے۔

اس کے ساتھ امن زندہ باد کے ہیش ٹیگ میں کام کرنے والے میرے عزیز دوست سنجے متھرانی ایک صحافی ہیں۔ ان کا کام ہمیشہ بھائی چارے اور امن کے ارد گرد رہا ہے، وہ کبھی بھی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں انسانیت کا قد مذہب سے بڑا ہو۔ وہ جس سوچ فکر کو ایک طویل عرصے سے لے کر چل رہے ہیں اس میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری شامل ہیں۔ ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا دوست امریکہ میں کلچر سے منسلک لگنے والی سکالرشپ میں ایک مسجد کی صفائی کر کے یہ ثابت کر آیا کہ ہماری ثقافت اور تہذیب کسی سے نفرت نہیں سکھاتی۔

امن زندہ باد کا سلوگن کافی معاملات واضح کر دیتا ہے کہ کس طرح ایک صحافت سے منسلک شخص امن امان اور بھائی چارے کو فروغ دے رہا ہے۔

محرم کے دنوں میں یہ لوگ اکثریت میں ہونے کے باوجود احتراماً وہ ساری چیزیں نہیں کرتے جس سے کسی فرقے کی دل آزاری ہو، امام حسین کی سبیلوں کے ساتھ رمضان کی افطاری یہاں اب کسی مکتب فکر کے ساتھ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کرواتے ہیں اور یہاں یہ سب خدمات عام طور پر ہوتی نظر آتی ہیں۔

انسان کا آپس میں تعلق اشرف المخلوقات کا ہے، اللہ تعالی کی ذات رب العالمین اور نبی پاک کی ذات رحمت العالمین نے انسانیت سے محبت کا درس دیا ہے ہمارے معاشرے میں مذہبی دنگے، فسادات نہیں ہوتے۔ اور مذہب کے نام پر جبر نہیں ہوتا، امن اور بھائی چارے کا درس ہمارا دین بھی دیتا ہے اور معاشرہ بھی دیتا ہے۔ میری جس معاشرے نے پرورش کی ہے وہ مجھے کیا بھلا نفرت اور انتشار سکھائے گا جس میں میری پرائمری تعلیم ان اساتذہ نے کی جو خد ہندو مذہب سے تھے۔ الفاظ کا تلفظ انہوں نے میرا کلمہ طیبہ پڑھوا کے درست کروایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments