جمالیاتی فکر: پس منظر و جائزہ


ایستھیٹکس یہ انگریزی زبان و ادب کی اصطلاح ہے اگرچہ لفظ جمالیات اس کا ٹھیک سے مترادف نہیں۔ ایستھیٹکس کا لفظ اپنے مفاہیم و معانی کے اعتبار سے بہت وسعت کا حامل ہے۔ لفظ جمالیات اس درجے کی وسعت سے تہی ہے۔ اگر ایستھیٹکس کے لیے دیگر الفاظ لیے جائیں تو وہ ”حسیات“ ، ”وحدانیات“ اور ”ذوقیات“ ہوں گے۔ لیکن اگر ہم اپنے کلچر و ثقافت کو دیکھیں تو یہ معانی کفایت نہیں کریں گے۔ ان لفظوں کے مختلف تناظر پہلے سے ہی موجود ہیں۔ حسیات سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی نفسیات کی شاخ ہے جس کا تعلق حسی قوت او ر محسوسات سے ہے۔ وحدانیات کا متعلق تصوف ہو گا، ذوقیات بھی ایک مبہم اصطلاح ہو گی۔ لہذا اسے ہی استعمال کرنا کسی حد تک مفہوم کی تفہیم ممکن بناتا ہے۔

جمالیات ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔ اس کا تعلق حسن اور اس کیفیات و مظاہر سے ہے۔ حسن اور فن کو مجموعی طور پر جمالیات کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ بات بہت سادہ سی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس سادگی کے بھی ہزار پہلو ہیں۔ جمالیات زمین سے عرش تک، جسم سے لے کے روح لطیف تک، پھول سے لے کانٹے تک، پانی سے لے کر تری تک، مفاہیم و معانی کا ایک بحر بے کراں۔ جمالیات حسن، فن اور ان کے متعلقات کے تشریح و توضیح کا نام ہے۔

کیٹس نے کہا تھا
”حسین چیز ایک ابدی مسرت ہے“

کیٹس کی اس بات میں نیا پن کیا ہے، یہ تو ایک وحشی اور اجڈ انسان بھی کہے گا، غیر مہذب آدمی بھی جب کوئی حسین چیز دیکھے گا تو اس سے لطف لے گا۔

اب آتے ہیں صوفیا کی جانب انھوں نے کیا کہا
”حسن مبدائے کائنات ہے“
انگریزی شاعر کہتا ہے
”ایک فردوسی آہنگ سے کائنات کا ڈھانچہ وجود میں آیا“

اب ہم قرآن سے پوچھتے ہیں وہ فردوسی آہنگ کیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی حکم دیتا ہے :“ ہو جا ”، بس وہ ہو جاتا ہے۔ (سورہ مریم 35 : 19 )

لفظ ”کن“ وہ فردوسی آہنگ ہے۔ یہ ساز حسن وہ آہنگ ہے جو ہستی آفرین ہے۔
نقش دو جہاں گردش پیمانہ دل تھا
”کن“ روز ازل نعرہ مستانہ دل تھا
حسن اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ حسن فاتح عالم ہے۔ یہودیوں کے ایک مطرب پیغمبر نے کہا تھا
”صیہون یعنی کمال حسن سے خدا جلوہ گر ہوا“

ہر ایک نے حسن کی اپنی ہی تعریف کی، تصوریوں نے حسن کو تصور کے پردے میں قید کر ڈالا، مادیوں نے اس کے تاروپود مادے سے جوڑ دیے، اخلاقی فلاسفروں نے اسے اخلاق سے ملایا، افادیوں نے اسے نیکی اور خیر سے، عملیوں نے کہا حسن اور حقیقت وہ ہیں جو عملی زندگی کا حصہ بن سکیں۔ یعنی کچھ کر سکیں۔ کسی نے کیمیا کی جلوہ گری کو حسن کہا، کسی نے مقناطیس کی کشش کو حسن کہا۔ کسی نے کہا زندگی کا قیام اور بقا کی جدوجہد حسن ہے۔ اگر بقا ہی نقطہ حسن ہے تو مور میں خوب صورتی کی کیا ضرورت۔ کیا خوب صورتی کے بغیر سلسلہ نسل اگے نہ بڑھ سکتا تھا۔ حسن کا تصور کبھی بھی ایک سا نہیں رہا۔ یہ معروض کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔

سقراط نے کہا
”کیا جو چیز غیر مرئی ہو اس کی تصویر کھینچی جا سکتی ہے“
”حسین چیز سے کیا کوئی حقیقی فائدہ ہو سکتا ہے“
”حسن اس چیز کا نام ہے جو غرض کو پورا کرے“
”حسن وہ چیز ہے جو لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو“

سقراط کے ان اقوال سے اس کے نظریہ حسن کا کچھ کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ سقراط کے خیال میں جذبات و احساسات غیر مرئی ہیں۔ وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے ہوتے لیکن وہ ہمیں لطف و مسرت دیتے ہیں۔ اور جو چیز نظر نہیں آ رہی اس کا بیان اتنا آسان کیسے ہو سکتا ہے۔ انسان کے جذبات کا اظہار اس کے چہرے کے تاثرات اور عملی حرکات سے ہو گا۔ اگر کوئی شخص چیخ رہا ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا مسئلہ کیا ہے۔ اگر کوئی مسکرا رہا ہے تو بھی اس کے باطن کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

لیکن حقیقت میں اس کے دکھ درد یا مسرت و خوشی کا کیا عالم ہے۔ لطف و انبساط یا اذیت و تکلیف کی کیا کیفیت ہے اس کو جان لینا نا ممکن ہے۔ سقراط نے کہا چہرے کے آثار وغیرہ ان خیالات کی نقل ہیں۔ فنون لطیفہ کو حسن کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ سقراط کے نزدیک فنون لطیفہ نقل ہیں۔ حسن کو عملی مفاد کے تحت فائدہ کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ کہا گیا حسن خیر اور حقیقیت ہے۔ اس سے الگ کچھ نہیں ہے۔ یہ حسن کا افادی نقطہ نظر ہے۔

افلاطون کا عقیدہ تھا کہ ایک عالم قدرت ہے جس میں ہم ہیں اور ایک عالم تمثال جو اس کائنات کی حدود سے ماورا اور پرے ہے۔ دنیا کے جتنے مظاہر و حوادث ہیں وہ عالم تمثال کے ازلی نمونوں کے کے ناقص پر تو ہیں۔ باشعور اور غیر ذی شعور مخلوقات کی جتنی بھی کیفیات ہیں وہ سب اکیس کلی تصورات کی نقل ہیں۔ افلاطون مادے کے وجود کا قائل ہے لیکن علم مادی یعنی عالم قدرت کو وہ حقیقی نہیں مانتا۔ عالم تمثال یا تصورات حقیقی ہیں۔ عالم قدرت کا وجود عارضی اور غیر حقیقی ہے۔

عالم قدرت میں جو کچھ بھی ہے وہ عالم تصورات کی نقل ہے۔ فنکار جب اپنے مشاہدے کو فنون لطیفہ کی شکل میں ڈھالتا ہے وہ نقالی کرتا ہے اور نقل کی نقالی کرتا ہے۔ گویا فنون لطیفہ تیسرے درجے کی نقالی ہے۔ حکمت و فلسفہ سے کم درجے کی چیز ہے۔ فنون لطیفہ ادنی درجے کے حامل ہیں۔ ان سے ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ حکمت و فلسفہ کا تعلق عقل و روح سے ہے۔ افلاطون بھی اپنے استاد کی طرح حسن کو خیر بلکہ خیر اعلی جانتا ہے۔

لیکن افلاطون نے حسن اور فنون کے اعتبار سے جو بحث کی تھی اس سے کئی سوالات نے جنم لیا۔

اگر تصورات عالم مادی سے الگ ہیں تو پھر بے جان، مجہول اور غیر متعین مادے پر اس کے اثرات کیسے مرتب ہوتے ہیں؟ نظام قدرت کیسے وجود میں آتا ہے؟ انسانی روح کیا ہے؟ روح اور جسم کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ عالم اجسام ہر وقت تغیر پذیر ہے، اس کی صورتیں بدل رہی ہیں، اس کی کیا وجہ ہو گی؟

ارسطو بھی اپنے استاد افلاطون کے نظریات سے کسی حد تک متفق ہے مگر اختلاف بھی رکھتا ہے۔ ارسطو بھی تصورات کا قائل ہے لیکن وہ تصورات کے وجود کو ماورائی کائنات کا حصہ نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک تصورات کا تعلق اسی عالم مادی سے ہے۔ اسی عالم مادی کے اندر ازل سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ تصورات مادہ کے اندر جاری و ساری ہیں ان کا اپنا الگ سے کوئی وجود نہیں ہے۔ وہ صورت یا ڈھانچہ جس میں کوئی چیز اپنا اظہار کرتی ہے وہ اس کی تقدیر کا تعین کرتی ہے۔ ہمارے محسوسات و مدرکات عارضی نہیں ہیں، مادہ اور صورت کے باہم اختلاط سے ان کا وجود ہے۔ مادہ بے جان نہیں ہے بلکہ متغیر اور ترقی پذیر ہے۔ ارسطو مادے کو الگ اقسام میں بانٹ دیتا ہے۔

مادہ اولیٰ۔ یہ ہمارے شعور سے باہر ہے۔ اس کا تعلق غیر متعین امکانات سے ہے۔
مادہ محسوس۔ یہ واقعیت کا حامل ہے۔ حقیقی ہے اور متعین صورتیں رکھتا ہے۔

مادہ ایک سے دوسری میں بدل جاتا ہے جس کے باعث حادثات جنم لیتے ہیں۔ اس لیے یہ عالم مادی حادث ہے اور مائل بہ ترقی ہے۔

” شعریات“ یہ ارسطو کی یادگار ہے۔ ارسطو کی یہ تصنیف فلسفہ حسن کے حوالے سے یادگار ہے۔ جیسا کی اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے اس نے فلسفہ حسن کی تشریح صرف فن شاعری تک محدود رکھی ہے۔ فن شاعری میں سے صرف ”رزمیہ“ ، ”طربیہ“ ، اور ”المیہ“ سے بحث کی ہے۔ ارسطو نے کہا فنون لطیفہ نقل ہیں لیکن یہ جزئیات کی نہیں بلکہ کلی خصوصیات کی نقل ہوتی ہے۔ صناع یا فنکار کو جزئیات سے کوئی سروکار نہیں، اسے کلی نظام خیال سے سروکار ہوتا ہے۔

”جب سوفو کلیز مانٹی گونی کے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے جو اپنے معتوب اور مقتول بھائی کی بے گور و کفن لاش کو رکھ کر اے ڈھانپ رہی ہوتی ہے تو اسے بالکل بھی یہ یاد نہیں رہتا کہ انٹی گونی نے کیا کیا تھا اور اس کے دل کی حالت کیا تھی۔ وہ اس وقت نہ جانے کتنی جاں نثار بہنوں کو اپنے بھائیوں کو سپرد خاک کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔“

ارسطو کے خیال میں نقل انسان میں رچی بسی ہے۔ اس کے خمیر میں ہے اس سے نہ صرف انسان لذت کشید کرتا ہے بلکہ اسے علم کی ابتدا اسی نقل سے ہوتی ہے۔

آسکر وائلڈ نے کہا تھا
”قدرت خود صناعی کی ایک بھدی نقل ہے“

افلاطون نے صناعی کو نقل کہا لیکن آسکر وائلڈ نے مخالف اور بالکل متضاد بیان کیا۔ اس نے کہا قدرت کے نقائص کو فنون لطیفہ دور کرتے ہیں۔

ارسطو نے المیہ کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ المیہ کا کام ہے کسی بھی شخص یا فرد کے عمل اور مکافات، حادثات روزگار اور پہلو بہ پہلو اس کے عروج و زوال اور رنج و راحت کی سچی تصویر پیش کر کے خوف و ہراس، ہمدردی اور غیرت کا احساس پیدا کرنا۔ روح میں توازن اور سنجیدگی و بلند حوصلگی پیدا کرنے کا کام المیہ ہے۔

سائرنیہ کے فلاسفروں نے کہا تھا کہ ہستی سالمات کی اتفاقی ترتیب و ترکیب کا نتیجہ ہے۔ یہی سالمات جب منتشر ہوتے ہیں تو ہم اسے موت سے تعبیر کرتے ہیں

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا ء کا پریشان ہونا
(چکبست نرائن)
فلسفہ ایبقوریت والوں نے کہا
”کھاتے پیتے اور عیش کرتے زندگی کے دن گزار دو“

سائرنیہ اور ایبقوریوں کے فلسفے میں فرق یہ ہے سائرنیہ والوں نے جسم کی لذتوں کے طرف توجہ کی اور اسے ہی سب کچھ جان لیا جبکہ ایبقوریوں نے ذوق عالیہ اور لطیف لذتوں پر زور دیا اور فنون لطیفہ کو ترقی و فروغ دیا۔ ایبقوریت والے یہ سمجھتے تھے کہ روح بھی مادی ہے اس لیے ہی اسے رنج و راحت کا احساس ہوتا ہے۔ روح کی ترکیب لطیف سے لطیف سالمات سے وجود میں آئی ہے۔ عقل حس کی لطیف صورت ہے۔ انسان کی فطرت حس ہے۔ انسان اسی لیے لذت و انبساط کی جانب مائل رہتا ہے۔

ایبقوریوں نے کہا کہ حسن تناسب مادی ہے۔ ایسا تناسب مادی جو ہمارے حواس کو اچھا لگے اور اس سے لذت کشید ہو سکے۔ ارسطا خورس، ذوائلوس اس کے نمائندہ ہیں۔

فلاطینوس کا خیال ہے کہ خدا اور مادہ دونوں حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ مادہ خدا کی ذات کا حصہ ہے۔ مادے میں الوہیت ہے۔ جب الوہیت کے پیمانے میں جوش آیا تو کائنات نے جنم لیا۔ ہستی کا مدعا ہے کہ وہ دوبارہ ذات الوہیت کا حصہ بن جائے۔ خدا سے ہستی کے وجود کے تین مراحل ہیں۔ روحانیت، حیوانیت اور جسمانیت

جب ہستی اپنے وجود کو خدا کے وجود میں ضم کر لے گی تب بھی تین مراحل ہیں۔ حسی ادراک، استدلال اور عارفانہ وجدان

حس جسم سے ہے، حس کی ترقی بالآخر عقل میں ہوتی ہے اور عقل کی ترقی روح میں اور پھر ذات کبریا میں ادغام
فلاطینوس کے نزدیک حسن کے معنی ہیں

جب لطیف کثیف پر برتر ہو جائے، اعلی ادنی پر فوقیت لے جائے، تصور مادہ پر حاوی ہو جائے، روح جسم کو زیر کر لے، خیر شر پر غالب آ جائے تو یہ حسن ہے

حسن کا تعلق عالم باطن سے ہے اور عالم باطن عالم ظاہر سے بر تر ہے۔

”سینٹ آگسٹن“ ایک خطیب تھا، اس کا عہد جوانی رندانہ و مجموعہ خرابات رہا۔ لیکن آخر کا وہ عبادت کی طرف مائل ہو گیا۔ اس نے حسن اور فنون لطیفہ کے تعلق کی بحث کی ہے۔ وہ کائنات عالم میں حسن کو دیکھتا ہے۔ وہ وحدت الوجود کے نظریہ سے موافقت رکھتا تھا۔ حسن نام ہے تنوع اور تلون کا۔ وہ کہتا ہے واحد کے ثبوت کے لیے کثرت کا ہونا ضروری ہے۔ زندگی کی برائیاں اور مصیبتیں کائنات کے حسن کے ترکیبی عناصر ہیں۔ حسن ایک آہنگ ہے جو مخالف اور متضاد سروں سے مل کر وجود پاتا ہے۔ سینٹ آگسٹن نے گویا قبح کو بھی حسن کے ضمن میں بیان کیا۔

اسکوٹس ایریجنا نے بھی جمالیات پہ اظہار خیال کیا ہے اور ہبوط آدم کے قصے کی تعبیر کی۔ اسکوٹس ایریجنا کے خیالات بھی آگسٹن سے ملتے ہیں بلکہ قبح کے حسن کہنے میں کسی قدر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ لیکن نظم و ترتیب کے بیان میں وہ آگسٹن سے بڑھ گیا۔ اس نے حسن حقیقی اور غیر حقیقی کے درمیان امتیاز کو واضح کیا۔ قصہ ہبوط آدم کی نئی تعبیر میں اس نے کہا فردوس میں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا وہ خیر و شر کے علم کا درخت تھا۔ یہ درخت ”مظاہرہ کی ماہیت“ کا ہے۔ اگر مظاہر کو عقل کے ذریعے جانیں گے تو خیر ہو گا اور اگر اشتہائے نفس کے ذریعے جانیں گے تو وہ شر ہو گا۔

تیرہویں صدی کے شروع میں طامس اکؤ ناس ایک ممتاز صاحب فکر تھا۔ متکلم تھا اور مناظروں کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ اس کا رجحان تصوف اور اشراقیت کی طرف تھا۔ اس کو کائنات کے انگ انگ میں، ذرے ذرے میں حسن نظر آتا تھا۔ مادی توازن اور جسمانی تناسب کی خوش آہنگی کو حسن جانتا تھا۔ حسین چیزیں آسودگی دیتی ہیں۔ ہمارے قوی سامعہ اور باصرہ حسی ذوق کو آسودہ نہیں کرتے بلکہ علمی ذوق کو کرتے ہیں۔ ہمارے قوی دو رخے ہیں۔ حسی بھی ہیں اور علمی بھی۔

کیمپت نلا ایک صاحب فکر گزرا ہے۔ سترہویں صدی کا زمانہ ہے۔ اس نے حسن کو علامت خیر اور قبح کو علامت شر بتایا۔ اس کے نزدیک خیر عشق و معرفت ہے۔

فلسفہ جدید کی ابتدا سترہویں صدی سے ہوتی ہے۔ حسن و فن کے نظریے پر ایک دفعہ پھر بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ فرانسس بیکن کہتا ہے

تجربات و مشاہدات علم انسانی کا ذریعہ ہیں۔ تجربات و مشاہدات کی صحت کا معیار عقل و استدلال ہے
حسن اور فنون لطیفہ کو بھی اس نے عقلیت اور تجربات کی بنیاد پر سمجھا
شاعری کو خواب و خیال کی بات کہا، شاعری کا تعلق علم و حکمت سے نہیں بلکہ حسیات سے ہے
شاعری لطف و انبساط دیتی ہے اور ہے بس۔
فنون لطیفہ کا کام جی بہلانے کے سوا کچھ نہیں ہے
انسانی ذہن کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ تخیل، حافظہ اور عقل اور تینوں کے الگ کام ہیں
تخیل شاعری پیدا کرتا ہے
حافظہ تاریخ میں معاون ہے
عقل فلسفہ کو پیدا کرتی ہے

ڈیکارٹ بھی فرانسس بیکن کا ہم خیال تھا بلکہ اس سے زیادہ فنون لطیفہ کا مخالف تھا۔ اگرچہ اس نے افلاطون کی طرح شعر و شاعری کو بے کار تصور نہیں کیا اور ان کو نکال باہر کرنے کا نہیں کہا لیکن اس نے کہا کہ شاعری کو عقل کے تابع ہونا چاہیے۔ اصل میں ڈیکارٹ کا زمانہ نشاۃ الثانیہ کا زمانہ ہے اور اس کے خیالات اسی تحریک بیداری کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں

لاک فنون لطیفہ کو حس سے متعلق تصور کرتا تھا اور اس کو حواس ظاہری کا نتیجہ کہتا تھا۔ فلسفہ حواس ظاہری کی چیزیں ہیں، اس کا حق و باطل سے کوئی تعلق اور رشتہ نہ ہے۔ لاک کے مطابق فنون لطیفہ کم تر درجے کے اکتسابات میں سے ہے۔ اور والیئر بھی اس کا ہم خیال تھا۔

شیٹرز بری اور ہیچسن یہ دونوں صاحبان فکر حسن اور فنون لطیفہ کے حوالے سے جو خیال رکھتے تھے وہ اس دور کے مروجہ فکر سے مختلف تھا۔ یہ ذوق وجدان کو عقل اور قیاس سے الگ حیثیت دیتے تھے۔ ذوق وجدان کو ایک الگ اہم قوت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک عقل، حواس خمسہ اور ذوق وجدان یہ تینوں الگ الگ ہیں۔ ان کے نزدیک ذوق حسن ایک فطری قوت ہے جو کہ عقل اور حواس خمسہ کے درمیان ہے۔

لائنز جرمن تھا اور حسن و فنون لطیفہ کے حوالہ سے اس نے بھی کام کیا اور سوچ بچار کی۔ لائنز کے نزدیک ایک متحرک اور خلاق چشمہ مانتا ہے۔ اس کے نزدیک حقیقت کا ارتقائی عمل جاری و ساری ہے۔ اس کے نزدیک ہستی مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اور مخلوق و خالق تک مختلف درجات ہیں۔ اس کے نزدیک حسن و فن علم و حکمت کی ابتدائی چیزیں ہیں اور یہ محسوسات اور معقولات کے درمیان کی منازل ہیں۔ اس نے فنون لطیفہ کی قدر و قیمت تسلیم کی ہے۔

شکک ہیوم اٹھارہویں صدی کا صاحب فکر ہے۔ اس کا استدلالی انداز ناقص تھا۔ اس نے سب کو تشکیک زدہ کر دیا۔ اس کے نزدیک علم بے اصل ہے۔ خدا، کائنات، روح اور مادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ علم انسانی کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہمیں جو نظر آتا ہے سب کچھ ایسا نہیں ہے اور شاید ایسا ہو بھی نہ۔ فنون لطیفہ کے متعلق اس کا نظریہ افادی تھا۔ خیر وہ ہے جو فائدہ دے۔ حسن وہ جو اچھا لگے۔

بام گارٹن ہیوم کا ہم عصر تھا۔ اس کا حسن کے متعلق نقطہ نظر واضح تھا۔ اس کے وقت سے ہی جمالیات کے لیے ایستھیٹکس کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ لائنز نے مدرکات اور جذبات کو عقل و فکر کی ناقص صورتیں کہا تھا۔ بام گارٹن نے ان کے نظریات سے آگے کی بات کی۔ اس نے احساس اور عقل کو موازنہ و مقابلہ کو صورت میں دیکھا۔ اس کے نزدیک علم و عرفان ہی دونوں کا حاصل ہے۔ فنون علم و حکمت کی ابتدا ہیں، احساس سے استقرار اور استدلال کا آغاز ہوتا ہے۔

اس کے نزدیک منطق کا تعلق کلیات سے ہے اور جزئیات کلیات کا ہی حصہ ہیں، جزئیات کا تعلق مشاہدات حس سے ہے۔ منطق کل سے متعلق ہے اور اپنے فیصلے صادر کرتی ہے۔ مطنق زمان و مکان اور دیگر تصورات کلیہ سے پیوست ہے۔ محسوسات کا تعلق جزئیات سے ہے۔ یہ جزئیات کل سے جڑی ہوئی ہے۔ محسوسات الجھی ہوئی شکل ہیں اور منطق ان الجھی لڑئیوں کو سلجھاتی ہے۔ اس کے نزدیک حسن اور حقیقت دونوں ایک ہی جوہر اولی ٰ سے ہیں۔ جب ہمیں محسوس ہو تو حسن اور جب تعقل ہو تو حقیقت۔ حسن و حقیقت دونوں ہم آہنگ ہیں، آہنگ کا احساس جمالیات فنون لطیفہ ہے۔

برک نے جمالیاتی قیاس اور منطقی قیاس کے درمیان فرق قائم کیا۔

”برک کے خیال میں جمالیاتی تجربہ محض ایک خوش گوار التباس نہیں ہے جیسا کہ لاک کا خیال تھا۔ برک کو خیال ہے کہ فنی تخلیق انسان کے دل و دماغ پر وہی اثر کرتی ہے جو واقعی دنیا کی کوئی شے کر سکتی ہے مگر جمالیاتی تجربہ ایک خالص جذباتی تجربہ ہے جس میں عقل یا ارادے کے عمل کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جلیل کو برک جمیل سے اعلی مانتا ہے۔ جلیل وہ ہیئت ہے جو نفس انسانی میں سب سے زیادہ قوی جذبہ پیدا کرے اور یہ جذبہ ایک پر انبساط ہیئت ہے جس میں الم، خطرہ اور موت کے امکان کا احساس شامل ہوتا ہے۔ المیہ سے ہمارے اندر جلیل ہی کا شعور بیدار ہوتا ہے۔“

کانٹ نے حسن کی چار حدود بیان کی ہیں۔
حسن وہ ہے جو بے غایت ہم کو سرور دے
حسن وہ ہے جو بغیر کسی تصور کے ہم کو سرور دے
حسن وہ ہے جو ایک غایت کا پتا دے لیکن حقیقت میں کوئی غایت نہ ہو
حسن وہ ہے وہ جو انبساط کلی کا سبب ہو

”کوئی چیز حسن ہے تو اس کے حسن کا جواز ہمارے پاس نہیں ہوتا وہی چیز دوسروں کے لیے بھی حسین ہوتی ہے کیونکہ انسانوں میں احساس کی سطح پر اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں حسن سے حاصل ہونے والی مسرت کا دائرہ وسیع اور آفاقی حدود کو چھو لیتا ہے“

مختصراً کانٹ کا اصرار اسی تصور پر ہے کہ معروض یا شے علم کا موضوع بننے کے اپنی اصل ہیئت پر قائم نہیں رہتی بلکہ وہ ایک ایسی تبدیل شدہ ہیئت اختیار کر لیتی ہے جس کی اصلیت اور معلوم تجربے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس طور پر کانٹ کا تصور سر تا سر داخلی اور اس کے لیے حسن موجود فی الذہن ہے۔

شلر کے نزدیک انسان اور خارجی دنیا کے درمیان چار قسم کا تعلق ہے
جسمانی، علمی، اخلاقی، جمالی
اس کے نزدیک جمالی تعلق سب سے برتر ہے

شلنگ کے نزدیک حسن میں تشخص پیدا کرنے کا نام فنون لطیفہ ہے۔ فنون لطیفہ تصور محیط سے وابستہ ہیں۔ یہی تصور محیط روح رواں ہے۔ فنکار جب کسی ایک شخص میں تصور محیط دیکھ لیتا ہے تو تو اس شخص یا چیز کو تصور محیط بنا لیتا ہے۔ شاعری کا واسطہ اس عالم تصورات تک ہے جس کو عالم مثال بھی کہا جاتا ہے۔ فنون لطیفہ درحقیقت اس ماورائی وجدان کو معرض اظہار میں لانا ہوتا ہے۔ فلسفہ اور فنون لطیفہ ایک دن اس حقیقت اولیٰ کو تلاش کر ہی لیں گے

فریڈرک ہیگل کی کتاب جمالیات ایک عالمانہ کتاب ہے۔ اس میں فلسفہ حسن، فنی جذبہ اور مختلف فنون کے درجات اور ارتقا کو زیر بحث لایا ہے۔ ہیگل کا فلسفہ شلنگ سے ملتا جلتا ہے مگر اس سے وسیع ہے۔ عالم مادی کا روح رواں ایک نفس کل ہے۔ نفس کل یا جسے تصور مطلق کہیں جب اپنا وجدانی اظہار کرتا ہے تو فنون لطیفہ وجود میں آتے ہیں، جب وہ اپنے آپ کو احترام کی نگاہ سے دیکھے تو مذہب بنتا ہے اور جب عقل کی بنیاد پر اپنی جانچ کرے تو فلسفہ۔ یہ نفس کل ہر وقت ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔ ہیگل کے نزدیک حسن اور حقیقت ایک ہی ہیں۔ فنون لطیفہ اور مذہب ایک دوسرے کے الٹ ہیں۔ ان دونوں کی باہم ترکیب سے فلسفہ بنتا ہے۔ گویا فنون لطیفہ بر تر ہیں۔

شوپنہار کے نزدیک تصور مطلق ایک اندھا ارادہ ہے۔ یہ ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے لیکن اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ زندگی کی سب خرابیاں اسی تصور مطلق کے اندھے ارادے کی وجہ سے ہیں۔ فنون لطیفہ کو فلسفہ پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ شاعر کو فلسفی سے برتر مانتا ہے۔ فنون لطیفہ کی وابستگی تصورات سے ہے۔ جو کہ کل کا حصہ ہے۔ فنون لطیفہ کو جزئیات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسی لیے فنون لطیفہ وجہ سکون ہیں۔ اس نے اخلاقیات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔

دی سینکس کے نزدیک فنون لطیفہ کی حدود کے اندر جو کچھ ہے وہ متحد، منصفانہ اور متشکل ہے۔ فنون لطیفہ کا کام بری سے بری صورت کو بھی خوش نما انداز میں بیان کرنا ہے۔ اس کے نزدیک خیال ہی سب کچھ ہے۔

برگساں نے حقیقت کو قوت حیات سے تعبیر کیا۔ یہ ہی سارے ہنگامہ ہستی کا حاصل ہے۔ انسان کی پہلی ارتقائی منزل مادی جسم ہے اور دوسری منزل شعور ہے۔ انسان میں شعور عقل و وجدان کی صورت میں مرتب ہوتا ہے۔ اس نے وجدان کو عقل پر فوقیت دی۔

بینڈیتو کروچے ایک اہم جمالیاتی فلاسفر ہے۔ 1902 ء میں اس نے اظہاریت پر تین خطبات دیے جو بعد میں اس کی کتاب جمالیات کی صورت سامنے آئے۔ اس کے نزدیک جمالیاتی تجربہ خالص تجربہ ہے۔ کروچے کے فلسفہ روح میں وجدان کو اہمیت دی گئی۔ وجدان اصلی ہے۔ وجدان خلقی نوع کا ہے۔ وجدان منفرد ہے۔ وجدان کرہ فن ہے۔ فن چونکہ وجدان ہے اس لیے وہ دائمی ہے۔ کروچے علم کی دو اقسام بتاتا ہے

وجدانی علم
منطقی علم
وجدانی علم کا سر چشمہ تخیل ہے۔ جس سے پیکروں کی تخلیق ہوتی ہے۔

منطقی علم کا سرچشمہ عقل ہے جس سے تصورات خلق ہوتے ہیں۔ یہ آفاق اور اشیا کے باہم رابطے کا علم ہے۔ اظہار کے ضمن میں کروچے کا خیال ہے کہ وہ ایک خالص انفرادی اور ذہنی عمل ہے۔ وجدانی علم ہی اظہاری علم ہے۔ کسی چیز کے وجدان کر لینے کے معنی اپنے اوپر اس کے اظہار کر لینے کے ہیں۔ اس طرح وجدان کرنا ہی اظہار ہے۔ اس کے نزدیک دونوں باہم مرادف ہیں۔

”ہم نے کسی چیز پر ذہنی طور پر دسترس حاصل کر لی گویا اپنے اوپر اس کا اظہار کر لیا۔ اور اپنی پہلی اور بنیادی سطح پر اس تصویر یا مجسمے کی تشکیل ذہن میں ہو جاتی ہے۔ زبان، ساز، رنگ وغیرہ وسائل سے جو مادی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے وہ دراصل اظہار کے بعد کا عمل ہے۔ جس کا جمالیاتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“

کروچے اظہار کو فنکار اور قاری دونوں کے لیے برابر معنی دیتا ہے۔ جب قاری فن پارہ سے محظوظ ہوتا ہے تو وہ بھی اس کا اپنے اوپر اظہار کر لیتا ہے۔

”قبح ایک ناکام اظہار ہے۔ حسن میں وحدت ہوتی ہے اور قبح انتشار کو مختص ہوتا ہے۔ ناکام فن پاروں کے محاسن میں مقدار کا فرق ہو سکتا ہے۔ لیکن حسن کے محاسن میں مقدار کے فرق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حسن کے معنی مکمل حسن کے ہیں اور جو مکمل نہیں ہے وہ حسن بھی نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف قبح میں مقدار کے لحاظ سے کم یا زیادہ قباحت ممکن ہے“

وٹ گنش ٹاین، مورس ویٹز، ڈبلیو اے کینک، پال زف وغیرہ جو جدید دور کے جمالیاتی فلاسفہ میں سے ہیں فن کے عمومی نظریہ کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک فنون کا مطالعہ جو کچھ کہ وہ ہیں کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ پال زف کہتا ہے کہ فن نہ تو خود اعادہ کرتا ہے اور نہ وہ کوئی جامد شے ہے بلکہ حرکت ہی حرکت ہے۔

جمالیات کے موضوع پر اسپر شاٹ نے لکھا

”اس (یعنی جمالیات) کے موضوع پر جتنا زیادہ لکھا گیا ہے۔ اس میں مطالعہ کے لائق اتنا ہی کم ہے، اور یہ پتہ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments