رفیع خاور ننھا، جن کی موت کی پولیس نے تو فائل بند کر دی لیکن پرستار 35 سال بعد بھی محبت کی فائل کھولے بیٹھے ہیں

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


ننھا

ڈرائنگ روم میں اپنے وقت کی مشہور فلم اداکار و کامیڈین کی لاش پڑی تھی اور ان کے جسم سے نکلنے والا خون ایک چھوٹے تالاب کی شکل اختیار کر چکا تھا جبکہ عقبی دیوار پر خون کے علاوہ دماغ کے لوتھڑے بھی چپکے ہوئے تھے۔

مردہ جسم کے ساتھ ہی ایک دو نالی بندوق پڑی تھی اور کچھ ہی فاصلے پر ایک خط جس میں لکھا تھا کہ ’میں اپنی مرضی سے خودکشی کر رہا ہوں لہذا میری موت کا ذمہ دار کسی دوسرے شخص کو نہ ٹھہرایا جائے۔‘

رفیع خاور المعروف ننھا کو دنیا سے گئے 35 برس ہو گئے ہیں لیکن ان کی پُراسرار موت کا معمہ آج تک حل نہیں ہوا۔ پولیس نے ان کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے اس کیس کی فائل بند کر دی تھی مگر ان کے بہت سے ساتھی آج بھی اس موت کو خودکشی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

رفیع خاور ننھا کی زندگی کی ابتدا خوشیوں، کامیابیوں اور قہقوں سے لبریز تھی لیکن اُن کا انجام انتہائی دلخراش تھا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق ننھا نے دو نالی بندوق اپنے منھ میں رکھ کر گولی چلائی تھی جس سے اُن کا کھوپڑی اڑ چکی تھی اور عقب میں موجود دیوار خون سے لت پت تھی۔

ننھا

جس رات ننھا کی موت واقع ہوئی اُس رات انھوں نے اپنے دوست علی اعجاز کو فون کیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنی زندگی میں مجھے بتایا تھا کہ ننھا زندگی کے آخری ایام میں انتہائی ڈپریشن کا شکار تھے، انھوں نے ایک عرصہ سے شراب نوشی اپنی عادت بنا لی تھی اور اُس رات بھی وہ نشے میں تھے۔

ان کے ساتھی اداکار اور فلمی دنیا سے وابستہ شخصیات بتاتی ہیں کہ ننھا نے اپنی زندگی کی آخری رات اداکارہ نازلی کے ہاں گزاری جہاں ایک برتھ ڈے پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا، وہ آدھی رات کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے اور صبح ڈرائنگ روم میں مردہ پائے گئے۔

اپنے عروج کے دور میں ننھا اپنی ساتھی اداکارہ نازلی سے عشق کرنے لگے تھے اور یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ دونوں شادی کر چکے ہیں ہیں تاہم نازلی نے بعد میں دعویٰ کیا تھا اُن دونوں کے مابین دوستی ضرور تھی لیکن انھوں نے نکاح نہیں کیا تھا۔ ننھا کے اہلخانہ، ان کی پہلی بیوی اور بیوی کے بھائیوں کو ننھا اور نازلی کے تعلقات پر شدید اعتراض تھا اور اس عشق کا چرچہ نگار خانوں میں زبان زد خاص و عام تھا۔

ننھا کی اداکارہ نازلی محبت کی تفصیلات آگے چل کر، اس سے قبل ننھا کے کریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کمال رضوی اور رفیع خاور

کمال احمد رضوی (الن) نے رفیع خاور (ننھا) کا الف نون کے لیے انتخاب کیسے کیا؟

رفیع خاور ننھا چار اگست 1944 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے، اُن کے والد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے جو بعدازاں لاہور کے علاقہ شاد باغ میں آ کر آباد ہوئے۔ ننھا نے اپنا نام اور مقام بڑی محنت سے بنایا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر فربہ تھے اور سکول میں بچے اُن کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔

وضع قطع سے ننھا پہلوان دکھائی دیتے تھے لیکن ان کے اندر ایک باریک بیں اور طبع زاد فنکار بے چین تھا جو اپنے فن کے اظہار سے دنیا پر چھا جانا چاہتا تھا۔ زمانہ طالب علمی تک ننھا کو نگارخانوں اور فنکاروں سے دور رکھا گیا لیکن جب انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز نیشنل بنک سے کیا تو وہ لاہور میں آرٹس کونسل کے چکر کاٹنے لگے تھے۔

سینیئر اداکار خالد عباس ڈار بتاتے ہیں کہ ننھا آرٹس کونسل سپورٹس سائیکل پر آیا کرتے تھے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کا آغاز تھا، لاہور آرٹس کونسل میں روزانہ جو محفل سجائی جاتی اس میں ڈاکٹر انور سجاد، منیر نیازی، قوی خان، خالد سعید بٹ، کمال احمدرضوی، مسعود اختر، شعیب ہاشمی، سلطان کھوسٹ، فاروق ضمیر، سلیم چشتی اور عشرت رحمانی شامل ہوتے تھے۔

سنہ 1964 میں جب لاہور سے پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو اس سے قبل کمال احمد رضوی تھیٹر اور ریڈیو میں کام کر کے اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ سنہ 1965 میں انھیں لاہور سینٹر سے ڈرامہ سیریز بنانے کی ذمہ داری دی گئی تو انھوں نے پی ٹی وی کے لیے اس انٹیلیجینٹ آئیڈیا یعنی ’الف نون‘ کے لیے اپنے جوڑی دار کے طور پر رفیع خاور ننھا کا انتخاب کیا۔

حالانکہ اس وقت ان کے سامنے درجنوں معروف اداکار موجود تھے لیکن انھوں نے قدرے جونیئر فنکار کو منتخب کیا۔ الف نون نشر ہوا تو الن ( کمال احمد رضوی ) اور ننھا (رفیع خاور) لوگوں کے محبوب فنکار بن گئے تھے جبکہ یہ سیریز جنوبی ایشیا میں ٹیلی ویژن کی تاریخ میں فیملی ڈرامہ کی پہلی مثال ثابت ہوئی۔

سنہ 1965 کے صرف تین سال بعد سنہ 1969 میں الف نون کو دوسری بار نئے سرے سے پروڈیوس کیا گیا جبکہ سنہ 1982 میں اسی ڈرامے کو رنگین ٹی وی کے لیے تیسری بار پروڈیوس کیا گیا۔ ایک ہی ڈرامے کو تین مرتبہ پروڈیوس کرنے کا یہ پی ٹی وی کی تاریخ کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔

رفیع خاور

شباب کیرانوی کی فلم نوکر نے ننھا کو فلم سٹار بنایا

سنہ 1965 میں جب ’الف نون‘ پہلی بار آن ایئر گیا تو ننھا پاکستان میں ’فیملی آرٹسٹ‘ کی حیثیت اختیار کر گئے۔ شباب کیرانوی نے ان کی مقبولیت کو فلم میں کیش کرانے کے لیے سنہ 1966 میں انھیں اپنی فلم ’وطن کے سپاہی‘ میں کاسٹ کیا۔ اس کے بعد ننھا باقاعدہ فلمسٹار کے طور پر فلم کی بڑی سکرین سے وابستہ ہو گئے اور وہ ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر بہت کم دکھائی دیتے۔

سنہ 1976 میں شباب کیرانوی کی فلم ’نوکر‘ میں اگرچہ اداکار محمد علی نے ٹائٹل رول نبھایا تھا لیکن یہ فلم ننھا سے منسوب ہو گئی تھی۔ اس فلم میں ننھا کا کردار ’کامیڈی کریکٹر ایکٹر‘ کے طور پر کنفرم ہوا جس کے بعد وہ فلم ٹریڈ کی مستقل ضرورت بن گئے۔

شباب کیرانوی سمیت ہر قابل ذکر پروڈکشن ہاؤس نے ننھا کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔ پنجابی فلم ’حکم دا غلام‘، ’ضدی‘، ’جال‘، ’تم سلامت رہو‘ اور ’آواز‘ میں اُن کے کردار کو پسند کیا گیا۔

ہدایتکارہ شمیم آرا کی فلم ’پلے بوائے‘ کے لیے ننھا کے کردار نے باکس آفس پوزیشن مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس کے علاوہ ’بھروسہ‘، ’شبانہ‘، ’جدائی‘، ’باؤ جی‘، ’نکاح‘، ’صاحب جی‘، ’لوو سٹوری‘ اور ’ہسدے جاو تے ہسدے آؤ‘ میں ننھا کے کردار کو خاص توجہ حاصل ہوئی جبکہ ’ٹہکا پہلوان‘ اور ’جن چاچا‘ ایسی فلمیں ہیں جو ننھا نے ٹائٹل رولز کے طور پر کی تھیں۔

علی اعجاز اور ننھا کی جوڑی پر مشتمل ’دبئی چلو‘ ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے پاکستان فلم انڈسٹری کی اگلی دہائی دونوں فنکاروں کے نام لکھ دی تھی۔

فلم پوسٹر

سلطان راہی کی سلطانیختم ہوئی اور ننھا، علی اعجاز کا دور شروع ہوا

’دبئی چلو‘ بنانے کا پس منظر یہ ہے کہ گرمیوں کے موسم میں سلطان راہی چھٹیاں گزارنے کے لیے امریکہ اپنے بچوں کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور ان کی امریکہ روانگی کے بعد دو سے تین ماہ کے لیے نگار خانوں میں تالے پڑ جایا کرتے تھے۔

ہدایتکار حیدر چوہدری نے فلم نگر کی اس ’قحط الرجالالی‘ سے نمٹنے کے لیے ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کو آزمایا۔ دونوں کے ساتھ اداکارہ ممتاز اور دردانہ رحمان کو ہیروئنوں کے طور پر کاسٹ کر کے چھوٹے بجٹ کا پراجیکٹ سپر ہٹ کرایا اور فلم انڈسٹری کا رُخ بدل دیا۔

اس زمانے میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی کے بغیر فلم بنانے کا تصور ایسے ہی تھا جیسے شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری کے بغیر حکومتی کابینہ نامکمل رہتی ہے۔ دبئی چلو پلاٹینم جوبلی ہوئی تو فلم نگر پر سلطان راہی کی سلطانی ختم ہوئی اور ننھا علی اعجاز کا راج شروع ہوا۔

دوبئی چلو کے بعد ’سوہرا تے جوائی‘ بھی کامیاب ہوئی جس میں ننھا نے سسر اور علی اعجاز نے داماد کا کردار نبھایا تھا۔ سنہ 1981 میں ننھا اور علی اعجاز کی فلم ’سالا صاحب‘ بلاک بسٹر ہٹ ہوئی جس کے ہدایتکار الطاف حسین تھے۔ اس فلم نے ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کو دوام بخشا۔

سنہ 1983 میں ہدایتکار رنگیلا نے ننھا اور علی اعجاز کے ساتھ ’سونا چاندی‘ بنائی جس کی کامیابی نے دونوں کی جوڑی کو مال بنانے کا فول پروف فارمولا قرار دے دیا۔

اس کے بعد درجنوں فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کو کاسٹ کر کے کامیاب فلمیں بنائیں۔ اس عرصہ کے دوران ننھا اور علی اعجاز کے ساتھ ہیروئنوں کے طور پر رانی بیگم، عالیہ، انجمن، گوری، ممتاز، دردانہ رحمان اور نازلی کاسٹ کی جاتی رہیں۔

یہ وہ دور تھا جب ننھا پر دھن دولت کی بارش ہو رہی تھی اور ان کا ستارہ عروج پر تھا۔ اس عرصہ میں اداکارہ نازلی ان کے قریب ہوئیں اور پھر یہ قربت، محبت اور عشق میں بدل گئی۔ ننھا کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ننھا کی زندگی میں ان کی بیوی کے علاوہ نازلی واحد دوسری عورت تھیں۔

ننھا، نازلی

’پھر ایک رقاصہ ہم دونوں کے بیچ آ گئیں‘

نگار خانوں میں ننھا اور نازلی کے عشق اور ان کے ہولناک انجام کو آنکھوں سے دیکھنے والے اس درد ناک کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ یک طرفہ عشق تھا جو ننھا جیسے معصوم اور سادہ لوح نے نازلی سے کیا تھا۔

ماضی کی نامور ہیروئن جنھوں نے ننھا کے ساتھ کئی فلموں میں اکٹھے کام کیا انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نازلی شاید وہ پہلی عورت تھی جنھوں نے ننھا کو ’آئی لو یو‘ کہا تھا اور اس کے خوب چرچے تھے۔

ننھا اور نازلی کی یہ قربت ننھا کی پہلی بیوی اور اُن کے برادران نسبتی کو کھٹکتی تھی مگر جلد ہی ننھا اصرار کر کے فلموں میں اپنے ساتھ نازلی کو کاسٹ کروانے لگے تھے۔

ماضی کی معروف اداکارہ دردانہ رحمان بتاتی ہیں کہ ’ننھا بہت ہی شاندار فنکار تھے، آغاز میں ’دبئی چلو‘ سے میری اور ان کی جوڑی غیر معمولی ہٹ ہوئی اور اس کے بعد ہم دونوں نے درجنوں فلموں میں ایک ساتھ کام کیا لیکن پھر ایک رقاصہ ہم دونوں کے درمیان آ گئیں۔‘

ماضی کے ایک نامور ہدایتکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کے وعدے پر بتایا کہ ننھا اور نازلی کا عشق نگار خانوں میں مشہور ہو گیا تھا اور ننھا اس عشق میں بہت آگے نکل گئے تھے۔

اس رات نازلی کے گھر کیا ہوا؟

اداکارہ نازلی کی ایک قریبی رشتہ دار اور ٹی وی کی معروف اداکارہ مہر النسا مہرو بتاتی ہیں کہ ’میں اُس وقت نو سال کی تھی اور نازلی کے ہاں ایک سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں میں اپنی دادی اور آنٹی کے ساتھ شریک تھی۔‘

’ہم لگ بھگ آٹھ بجے رات وہاں پہنچے تو انکل رفیع (ننھا ) وہاں موجود تھے۔ یہ پارٹی رات ڈیڑھ بجے تک جاری رہی لیکن ننھا رات بارہ بجے کے قریب وہاں سے چلے گئے اور صبح ہمیں پتہ چلا کہ ننھا کو قتل کر دیا گیا ہے لیکن پولیس اور میڈیا اسے خود کشی قرار دے رہے ہیں۔‘

مہرالنسا نے کہا کہ ’رفیع انکل (ننھا) اور نازلی ایک دوسرے سے مخلص تھے دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن اس رشتے کو ناپسند کرنے والوں نے ان کے قتل کی سازش تیار کی۔‘

ہدایتکار سید نور بتاتے ہیں کہ ’ننھا ایک جذباتی انسان تھے، انھیں زندگی میں کسی سے پہلی بار محبت ہوئی تھی، انھوں نے محبت میں چوٹ کھائی جسے وہ برداشت نہ کر سکے اور جذبات میں اپنی جان کھو بیٹھے۔‘

ننھا کی موت کے بعد فلمی سطح پر نازلی کو سوشل بائیکاٹ جیسی صورتحال کا سامنا رہا اور آہستہ آہستہ وہ فلمی دنیا سے دور ہوتی گئیں۔

اس واقعے کے 35 سال بعد جب گذشتہ روز میری اُن سے بات ہوئی تو وہ فون پر ننھا کا نام سُن کر غمگین ہو گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ننھا ناصرف ایک بہترین اداکار تھے بلکہ ایک عالی ظرف انسان بھی تھے۔‘

نازلی نے اپنی کامیابی کا کریڈٹ ننھا کو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بہت سے لوگوں کا کیریئر بنایا کیونکہ وہ ایک ہمدرد انسان تھے۔ نازلی کا کہنا تھا کہ چونکہ آج کل ان کی طبعیت خراب رہتی ہے اس لیے فون پر وہ زیادہ بات نہیں کر پاتیں۔

بعدازاں نازلی کے فون نمبر سے ایک خاتون نے اُن کی جانب سے یہ مختصر موقف دیا کہ ’ننھا ایک حساس انسان تھے جو زندگی کی تلخیوں کا سامنا نہیں کر پائے۔ ان کے خلاف سازش ہوئی جس کے نتیجے میں ایک انتہائی خوبصورت روح دنیا سے چلی گئی۔ وہ زندگی سے پیار کرنے والے انسان تھے اور زندگی سے پیار کرنے والا انسان کبھی خودکشی نہیں کرتا۔‘

کمال رضوی اور رفیع خاور

ننھا موت سے بہت ڈرتے تھے

ہدایتکار الطاف حسین نے ننھا کے ساتھ بیسیوں فلمیں کیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے آج تک یقین نہیں آتا کہ ننھا نے اس قدر درد ناک طریقے سے اپنے آپ کو ختم کر لیا۔ ننھا مرنے سے بہت ڈرتا تھا، مجھے یاد ہے کہ میں نے منگلا جھیل میں رانی بیگم اور ننھا پر گیت کس مشکل سے فلمبند کیا تھا۔ ایسا اکثر ہوتا رہا کہ اگر کوئی خطرناک سین ہوتا تو ننھا ڈرتے ہوئے اسے کرنے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔‘

الطاف حسین نے کہا کہ ’وہ محبت کا شکار ہوا۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ مالی مشکلات کا بھی شکار تھا کیونکہ اس نے اپنا زیادہ تر پیسہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے پاس بیرون ملک بینکوں میں رکھا ہوا تھا۔ بیوی اور اس کے رشتہ داروں کو جب یہ علم ہوا کہ ننھا دولت کسی اداکارہ پر خرچ کر رہا ہے تو انھوں نے اسے پیسے دینے بند کر دیے جس سے وہ معاشی دباؤ کا شکار ہوا۔‘

الطاف بتاتے ہیں کہ ’ننھا نے ڈپریشن سے فرار کے لیے کثرت سے شراب نوشی کا سہارا لیا جس سے اسے مذید ذہنی اور جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘

الطاف حسین نے بتایا کہ ’وہ اپنے موٹاپے کے باعث شدید احساس کمتری کا شکار تھا، وہ ہیرو بننا چاہتا تھا اور ہیرو ہی دکھائی دینا چاہتا تھا۔ ایسا سادہ دل تھا کہ اس کا موٹاپا اس کی پہچان بنا اور وہی موٹاپا اس کا احساس کمتری تھا۔‘

آخری شوٹنگ

ٹی وی اور فلم کے سینیئر اداکار جنھوں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی انھوں نے بتایا کہ وہ ننھا مرحوم کا ہمسائے تھے اور اُن کی موت سے صرف ایک دن قبل وہ انھیں ہدایتکار مسعود بٹ کی فلم ’قرض‘ کی شوٹنگ پر ان کے گھر سے دریا راوی پر لے کر گئے تھے۔

مذکورہ فلم میں اداکارہ انجمن ہیروئن تھیں جبکہ ننھا جوگی کا روپ دھارے ہوئے تھے۔

’فلم کی ڈیمانڈ کے مطابق چڑیا گھر سے اژدھا سانپ منگوائے گئے تھے جسے ننھا مرحوم اور میں نے گلے میں ڈالنا تھا اور انجمن پر گانا فلمبند کیا جانا تھا۔ اس لوکیشن پر ہم سب نے دیکھا کہ جونہی ننھا کے گلے میں سانپ ڈالنے کی کوشش کی گئی انھوں نے خوفزدہ ہو کر انھوں نے اس شخص کوجھڑک دیا جس نے اژدھا اٹھایا ہوا تھا۔‘

سینیئر اداکار نے کہا کہ ’یہ واقعہ مجھے بھولتا نہیں ہے کہ ایک ایسا شخص جو چند گھنٹے قبل فلم کی شوٹنگ کے لیے سانپ کو گلے میں ڈالتے ہوئے ڈر رہا تھا وہ چند گھنٹے بعد اپنے منھ میں دونالی بندوق کا فائر کر کے اپنے آپ کو ختم کر لے۔‘

ننھا

ننھا کی موت اور کرائم رپورٹرز

پولیس ریکارڈ اور میڈیا کے مطابق اداکار رفیع خاور ننھا نے محبت میں ناکامی پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی تھی۔

سینیئر کرائم رپورٹر تنویر زیدی کہتے ہیں کہ اداکار ننھا نے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنی ذاتی لائسنسی بندوق سے کیا تھا۔ بندوق کی نالی پر ننھا کے فنگر پرنٹس موجود تھے، ننھا نے دو نالی بندوق منھ کے قریب رکھ کر پاؤں کے انگوٹھے سے فائر کیا اور اپنا خاتمہ کر لیا۔

تنویر زیدی نے بتایا کہ ننھا کے آخری خط (جس میں انھوں نے خودکشی کرنے کی اطلاع دی تھی) کے بارے رائٹنگ سپیشلسٹ نے تصدیق نہیں کی تھی کہ واقعی یہ خط ننھا نے مرنے سے قبل خود تحریر کیا تھا۔

سینئر کرائم ایڈیٹر بابا جمیل چشتی بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ 35 سال قبل رونما ہوا تھا لیکن جائے وقوعہ انھیں آج تک یاد ہے۔

’ننھا کے منھ اور ناک سے بہنے والا خون جم چکا تھا۔ ننھا کی لاش کے اوپر چادر ڈال دی گئی تھی اور پیچھے دیوار پر خون کے ساتھ دماغ کے لوتھڑے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے اس وقت بھی رپورٹ کیا تھا کہ پولیس ننھا کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے عجلت سے کام لے رہی ہے۔‘

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد سے ثابت نہیں ہوتا تھا کہ ننھا نے خودکشی کی ہے۔ بندوق کی نالی اگر منھ میں رکھ کر گولی چلانے کی کوشش کی جائے تو ہاتھ ٹریگر تک پہنچنا ناممکن ہے۔ یہ امر بھی مضحکہ خیز ہے کہ ننھا نے بندوق کا ٹریگر پاؤں کے انگوٹھے سے چلایا جس سے موت واقع ہوئی۔‘

ننھا کی موت کو پولیس نے خود کشی قرار دے کر فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دی تھی لیکن یہ دلوں پر حکومت کرنے والے فنکار کے بے مثل فن کا کرشمہ ہے کہ آج 35 سال گزر جانے پر بھی پرستاروں نے ان سے محبت کی فائل بند نہیں کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp