الف اور ابلیس (مکمل کالم)


الف کالج میں تھا جب ابلیس سے اس کی پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ وہ اسے ایک دوست کے روپ میں ملا تھا۔ پہلا سگریٹ، پہلی انگریزی فلم اور پہلی مرتبہ پھجے کے پائے کھانے وہ ابلیس کے ساتھ ہی اس بازار میں گیا تھا جہاں اب صرف شرفا رہتے ہیں۔ شروع شروع میں الف کو ابلیس میں ہمراہی میں بہت لطف آتا تھا لیکن الف کی اس سے دوستی زیادہ دیر نہیں چلی اور کچھ ہی عرصے میں ان کی ا۔ ن بن ہو گئی۔ ابلیس چاہتا تھا کہ الف ہر کام اس کی مرضی کے مطابق کرے جبکہ الف خود کو ایک حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتا تھا۔

مثلاً ابلیس کی خواہش ہوتی تھی کہ الف رمضان میں روزے نہ رکھا کرے جبکہ الف ایک بھی روزہ نہیں چھوڑتا تھا، ابلیس اس بات سے بہت جز بز ہوتا تھا، اس نے الف کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر بات نہ بنی اور بالآخر ابلیس نے الف سے مایوس ہو کر اس کا پیچھا چھوڑ دیا۔ الف نے مسلسل بیس برس تک روزے رکھے، اکثر سحری کے وقت اس کی آنکھ نہ کھل پاتی تو وہ بغیر سحری کے روزہ رکھ لیتا مگر قضا نہ کرتا۔ ایک مرتبہ ایسے ہی الف نے سحری کیے بغیر روزہ رکھ لیا مگر افطاری سے کچھ دیر پہلے اس کے سر میں اس قدر شدید درد ہوا کہ لگا جیسے سر پھٹ جائے گا، اسپتال لے جایا گیا، دو ٹیکے لگے، پھر کہیں جا کر اسے آرام آیا، ڈاکٹر نے بتایا کہ نا قابل برداشت بھوک سر درد کی وجہ بنی تھی۔

الف نے ایک مفتی صاحب کو اپنا مسئلہ بتایا، انہوں نے فتوی ٰ دیا کہ ایسی حالت میں روزے کی رخصت لی جا سکتی ہے، فقط اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ الف نے اس دن کے بعد سے روزے نہیں رکھے۔ ابلیس کو اس بات کی سن گن مل گئی۔ اس نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے پھر الف سے رابطہ کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ الف نے بھی سوچا کہ پرانا دوست ہے ملنے میں کوئی حرج نہیں اور یوں آہستہ آہستہ دونوں کا تعلق بحال ہو گیا مگر اس شرط پر کہ ابلیس الف کو کبھی کسی غلط کام کے لیے مجبور نہیں کرے گا۔ ابلیس نے الف کی یہ بات مان لی۔

الف او ر ابلیس کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھنے لگا، وہ ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ضرور ملتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے، زیادہ تر یہ گفتگو ادب، سیاست اور سوسائٹی کے مسائل سے متعلق ہوتی۔ بعض اوقات یہ نشستیں خاصی طویل ہو جاتیں اور دونوں کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو پاتا۔ ان مباحث میں ابلیس مذہب کے حوالے سے گریز کرتا مگر کہیں نہ کہیں بات کرتے ہوئے اسے مذہبی، اخلاقی یا فلسفیانہ دلیل دینی پڑتی تو وہ پہلے الف سے باقاعدہ اجازت لیتا اور پھر بات کرتا۔

الف کو ابلیس کی یہ عادت بہت پسند تھی، اسے لگتا تھا کہ ابلیس اب خالصتاً علمی بنیاد پر گفتگو کرتا ہے اور اس کا مقصد اسے گمراہ کرنا نہیں۔ اکثر اوقات یوں ہوتا کہ دونوں کوئی موضوع طے کر لیتے اور پھر اس پر باقاعدہ تیاری کر کے بحث کرتے۔ الف کو ان مباحث میں بہت لطف آنے لگا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ابلیس کبھی کبھار الف کے موقف کو تسلیم

بھی کر لیتا اور اپنی بات پر زیادہ اصرار نہیں کرتا تھا۔ ایک روز وہ دونوں ایسی ہی ایک بحث میں الجھے ہوئے تھے، الف بڑے زور و شور سے ابلیس کو اخلاقی اقدار پر لیکچر دے رہا تھا۔ الف کا کہنا تھا کہ انسان کو اعلی اخلاقی قدروں کا حامل ہونا چاہیے، جہاں تک ممکن ہو پارسائی سے کام لینا چاہیے، تقوی ٰ اور قناعت کو اپنا شعار بنانا چاہیے، سچائی کا علم بلند رکھنا چاہیے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے، روپیہ پیسہ کمانا بری بات نہیں مگر زندگی محض دولت کمانے میں ضائع نہیں کرنی چاہیے، انسان کی زندگی کا مقصد دولت کے حصول سے کہیں ارفع ہے، بڑا انسان وہ نہیں جو زیادہ دولت مند یا طاقتور ہے، بڑا انسان وہ ہے جو فسطائیت کے خلاف جد و جہد کرتا ہے اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرتا ہے، اسی طرح بڑا لکھاری وہ نہیں جس کی تحریریں مقبول ہوتی ہیں، بڑا ادیب اور دانشور وہ ہے جو پسی ہوئی اقوام کے حق خود ارادیت کے لیے اپنے قلم کو استعمال کرتا ہے، زور آور کو بے نقاب کرتا ہے اور اپنی جان، مال اور عزت کی پروا کیے بغیر صرف اپنے ضمیر کے مطابق رائے قائم کرتا ہے، تاریخ میں ایسے لوگوں کا نام ہی روشن رہتا ہے۔

اپنی اس مختصر سی تقریر کے بعد الف کو امید تھی کہ ابلیس اس سے اتفاق کرے گا کیونکہ یہ باتیں ایک طرح سے آفاقی سچائی کے طور پر درست مانی جاتی ہیں، جو لوگ ان باتوں پر عمل نہیں کر پاتے وہ بھی اپنی گفتگو میں ان کی تردید نہیں کر سکتے۔ تاہم نہ جانے کیوں الف اس وقت بالکل بھول گیا کہ ابلیس بہرحال شیطان ہے اور شیطان اگر ایسی باتوں سے اتفاق کر لے گا تو کھائے گا کہاں سے!

ابلیس نے اپنی بات شروع کی : ”ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑاؤ اور دیکھو کتنے لوگ ہیں جو تمہارے بیان کردہ نظریات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں اور کس حال میں ہیں؟ تم مجھ سے زیادہ ایسے لوگوں کو جانتے ہو جو پارسا اور صالح ہیں، جنہیں میں کبھی گمراہ نہیں کر سکا مگر وہ بیچارے اکثر ذلیل و خوار ہی رہتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی، جابر حکمران ہی کیوں نہ بنا جائے؟ کیا فائدہ ہے ظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے کا، ظالم تو گولی سے اڑا دے گا اور کل کو وہ مظلوم بھی بھول جائے گا جس کے لیے اس نے گولی کھائی ہو گی، اور بالفرض اگر مظلوم اسے یاد رکھ بھی لے تو کیا محض اس یاد سے مرنے والے کے بیوی بچے گزارا کر پائیں گے؟

ذرا دیکھو ان لوگوں کو جو فسطائیت کا مقابلہ کرنے کی بجائے فسطائیت کے دست و بازو بن جاتے ہیں، کس قدر فائدے میں رہتے ہیں! قناعت پسندی اور سادگی رومانوی تصورات ہیں، ان کے سہارے جینا اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ تم نے کچھ نام نہاد اعلی ٰ اخلاقی اقدار طے کر کے یہ فرض کر لیا ہے کہ ان اقدار کے تابع زندگی گزارنے والا شخص تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔ تاریخ میں امر ہو کر آخر تم نے کرنا کیا ہے؟ اپنے نظریات کی خاطر جان دینا حماقت ہے، نظریات غلط بھی ہو سکتے ہیں اور جان واپس نہیں آ سکتی۔

کیا تم نے تاریخ میں پڑھا نہیں کہ جو لوگ جبروت کے سامنے کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہ کیسے روند دیے جاتے ہیں؟ ان کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں، ان کے بچے در بدر ہوتے ہیں، ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ ہاں، اب تم کچھ ایسے لوگوں کی مثال دو گے جنہوں نے تمہاری تعبیر کے مطابق حقانیت کا ساتھ دیا اور دنیا نے انہیں

سر آنکھوں پر بٹھایا، ان کی تکریم کی، مگر اے احمق انسان، ایسے لوگوں کی تعداد ان کے مقابلے میں کہیں کم ہے جنہوں نے ظلم کے ہاتھ مضبوط کیے اور اطمینان سے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا لیا۔ اب آخری پتہ تمہارے ہاتھ میں یوم حساب کا ہے کہ اس روز ظالم سے حساب لیا جائے گا اور مفاد پرست دانشوروں کے مقابلے میں کلمہ حق بلند کرنے والے لکھاریوں کی توقیر ہوگی، مگر اے بنی آدم، قیامت تو اصل میں خدا کا یوم حساب ہوگا کہ اس نے تمہاری دنیا میں ظالموں کے لیے اتنی آسائشیں کیوں رکھیں، جیسے وہ تمہارے شاعر نے کہا تھا نا کہ یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک۔

تو اے نادان شخص، کچھ ہوش کر اور اپنی زندگی ان خوابوں اور نظریات کے پیچھے برباد نہ کر جن کا کوئی مطلب ہے نا فائدہ۔ ”ابلیس نے اپنی بات ختم کی اور یک دم غائب ہو گیا۔ اس کے بعد الف نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ الف اکثر سوچتا ہے کہ ابلیس اس سے دوبارہ ملنے کیوں نہیں آیا؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اپنی دانست میں اسے گمراہ کرنے کے بعد ابلیس اب جشن منا رہا ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments