آزادی اظہار سلب کرنے میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کا مبینہ کردار: ’اغواکار پوچھتے رہے تمہارے سوشل میڈیا پوسٹس کے پیچھے کون ہے‘

سکندر کرمانی - بی بی سی نیوز، اسلام آباد


Shafiq Ahmed was walking near his home when a group of masked men bundled him into a car

پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ وکیل شفیق احمد

شفیق احمد نے جیسے ہی یہ دیکھا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے، انھیں فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ انھیں اغوا کیا جائے گا۔

پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ وکیل اور سوشل میڈیا کے سرگرم کارکن محمد شفیق احمد دسمبر 2019 میں اپنے گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے جب منھ ڈھانپے ہوئے چند افراد نے انھیں دبوچ کر زبردستی ایک گاڑی میں دھکیل دیا۔

یہ تمام واقعہ سی سی ٹی وی پر ریکارڈ ہو گیا تھا۔ اس ریکارڈنگ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شفیق احمد اپنے اغوا کاروں سے لڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور وہاں پر موجود افراد واضح طور پر پریشان ہیں لیکن اغواکاروں نے سختی سے ہر کسی کو مداخلت سے منع کر دیا۔

اس واقعے کے دو ہفتے تک شفیق احمد کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

شفیق احمد کو یقین ہے کہ ان کے اغواکاروں کا تعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے تھا۔ شفیق سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اور پاکستانی فوج پر تنقید کرتے تھے جن کے بارے میں کئی لوگ کا یہ تاثر ہے کہ وہ پس پردہ ملکی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔

پاکستان میں صحافتی قدغنوں کے بارے میں جاننے کے لیے مزید پڑھیے

صحافیوں پر تشدد کرنے والے پکڑے کیوں نہیں جاتے؟

پی ٹی آئی کا ایک سال: صحافت پر قدغنیں کون لگا رہا ہے؟

سینسرشپ: ’حساس موضوعات کو ہاتھ نہ لگائیں‘

وزیراعظم صاحب! آپ کو سینسرشپ کی خبر ہے

شفیق احمد کے ساتھ ہونے والا واقعہ، ان کا اغوا اور ان پر ہونے والا تشدد ایک ایسے سلسلے کی کڑی ہیں جس میں ریاست کے ناقدین کی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے اور بالخصوص ان افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت یا 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہیں جن کی مدد سے عمران خان کی موجودہ حکومت کا قیام وجود میں آیا۔

A still of the CCTV footage showing the kidnapping

شفیق احمد کے اغوا کا واقعہ سی سی ٹی وی پر ریکارڈ کیا گیا

رہائی کے بعد اپنے علاج کے لیے محمد شفیق ہسپتال میں تھے جہاں سے انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک نامعلوم مقام پہنچنے کے بعد ان پر کیا بیتی۔

‘انھوں نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھ دیں اور میری آنکھیں ڈھانپ دیں۔ پھر مجھے گاڑی سے باہر نکال کر ایک کمرے میں پھینک دیا اور مجھ پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں پوچھی، بس میرے کپڑے اتار کر مجھے برہنہ کر دیا اور مجھے زور زور سے چمڑے کی بیلٹ اور لاٹھیوں کی مدد سے مارنا شروع کر دیا، میری کمر پر، میرے تلوے پر۔’

شفیق احمد بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ تشدد کا سلسلہ پانچ سے چھ دن تک جاری رہا۔ اس دوران انھیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند رکھا گیا جہاں روشنی کا کوئی گزر نہیں تھا۔

شفیق احمد بتاتے ہیں کہ انھیں لگتا تھا کہ ان کی یہیں موت ہو جائے گی۔ ‘مجھے انھوں نے کہا کہ ہم تمہاری لاش کو دریا میں پھینک دیں گے۔’

اپنے رہائی کے بعد شفیق احمد نے اپنی ویڈیو بنائی جس میں ان کے ساتھ ہونے والے تشدد کے نشانات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

شفیق احمد کی گرفتاری اور پھر رہائی کے بعد کے ایک سال کے عرصے میں پاکستان میں حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے ایک صحافی، اسد علی طور کے گھر میں نامعلوم افراد داخل ہوئے جنھوں نے اپنا تعلق آئی ایس آئی سے ظاہر کیا اور انھیں باندھا اور مارا پیٹا۔

ابصار عالم

اپریل میں ایک اور صحافی اور تجزیہ کار ابصار عالم کو ان کے گھر کے باہر گولی ماری گئی جب وہ چہل قدمی کر رہے تھے

اس سے قبل اپریل میں ایک اور صحافی ابصار عالم کو ان کے گھر کے باہر گولی ماری گئی جب وہ چہل قدمی کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کا صحافتی آزادی کے حوالے سے 145واں نمبر ہے۔

بی بی سی کی جانب سے متعدد کوششوں کے باوجود حکومت اور فوج نے اس معاملے پر جواب دینے سے معذرت کی تاہم آئی ایس آئی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ گذشتہ ہفتے اسد طور پر ہونے والے حملے سےان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

شفیق احمد کا نے بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران اغواکاروں نے ان سے پوچھا: ‘تمہاری فیس بک اور ٹوئٹر پر کی گئی پوسٹس کے پیچھے کون ہے؟’

‘میں نے ان کو کہا کوئی مجھے نہیں بتا رہا کہ کیا لکھنا ہے۔ میری سویلین بالادستی کے بارے میں اپنی خود مختار سوچ ہے۔ لیکن وہ میری بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔’

شفیق احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ ان کو ‘فنڈنگ’ کس سے مل رہی ہے، ان کے دیگر ‘لبرل’ سماجی کارکنوں سے کیا تعلقات ہیں اور فوج کی جانب سے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مظاہرے کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے کیا روابط ہیں۔

آنکھوں پر پٹی بندھے ہوئے شفیق کو اس سوال جواب کے دوران محسوس ہوا کہ ان کے اغواکاروں کے پاس ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کی کاپیاں ہیں۔

‘میری تو آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی لیکن مجھے صفحات پلٹنے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ پوچھتے کہ ادھر کیا لکھا ہے تم نے فوجی ترجمان کے بارے میں، پھر کہتے یہاں تم نے فوج کے سربراہ کے بارے میں لکھا ہے، وہاں تم نے وزیر اعظم کے بارے میں لکھا ہے، کیوں کر رہے ہو ان پر تنقید؟’

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب شفیق کو اس طرح نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے قبل اپریل 2019 میں بھی ان پر ‘پاکستان کی ایجنسیوں کے بارے میں تضحیک آمیز مواد’ شائع کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن یہ مقدمہ آگے نہیں بڑھا۔

اس کے دو ماہ بعد جون 2019 میں شفیق کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور خبردار کیا گیا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کو ختم کریں اور اس کے بعد انھیں ان کے مکان سے کوئی 50 کلومیٹر دور پھینک دیا گیا۔

اس موقعے پر بھی ان کے اغواکاروں نے ان کو برہنہ کر کے ویڈیو بنائی اور ان کو مجبور کرتے ہوئے بیان دلوایا کہ ‘میں اب سوشل میڈیا پر کسی کے بارے میں کوئی تنقید نہیں کروں گا۔’

شفیق احمد کا دعوی ہے کہ ان کے اغواکاروں نے دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں تو ان کی ویڈیوز کو وائرل کر دیا جائے گا اور انھیں قتل کر دیا جائے گا

اور جب وہ سوشل میڈیا پر پھر سے متحرک ہوئے تو دسمبر 2019 میں انھیں دو ہفتے کے لیے پھر اغوا کر لیا گیا۔

تنقید پر پابندی

شفیق احمد کے علاوہ دیگر افراد کو بھی حال ہی میں ان کی آن لائن سرگرمیوں کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ صحافی اسد علی طور نے کچھ عرصے قبل یوٹیوب پر ویڈیوز شائع کرنی شروع کی تھیں تاکہ وہ ایسی خبریں اور مواد پیش کر سکیں جو کہ مقامی ٹی وی چینلز پر غیر اعلانیہ سینسرشپ کے باعث اپنی جگہ نہیں بنا پاتا۔

واضع رہے کہ پاکستان میں نشر کیے گئے ‘لائیو’ ٹاک شوز درحقیقت لائیو نہیں ہوتے بلکہ کچھ سیکنڈز کے وقفے سے چلتے ہیں تاکہ اگر شو میں موجود مہمان تنقید کرتے ہوئے حد سے گزر جائیں تو پروگرام کے پروڈیوسر اسے نشر ہونے سے روک سکیں۔

گذشتہ برس ایک پروگرام میں موجود مہمان پاکستان میں آزادی صحافت سلب ہونے کے بارے میں تبصرہ کر رہے تھے تو ان کے بیان کو بھی نشر ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

اسد علی طور کو بھی گذشتہ برس فوج کے بارے میں ‘تضحیک آمیز مواد’ پوسٹ کرنے پر گذشتہ برس ایک قانونی نوٹس جاری کیا گیا تھا جو کہ عدالت نے نومبر میں مسترد کر دیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسد طور نے بتایا کہ چند دن قبل ان کے اسلام آباد کے فلیٹ میں تین افراد زبردستی گھس گئے۔

اسد طور کہتے ہیں کہ ان افراد نے ان کو باندھنے کے بعد ان پر تشدد کیا اور پستول سے ان کی کہنی پر مارا پیٹا۔

جب بی بی سی نے اسد طور کے گھر کا دورہ کیا تو ان کے بیڈ روم کے فرش پر بھی خون کے دھبے موجود تھے۔

اسد طور نے کہا کہ ان افراد نے مطالبہ کیا کہ وہ نعرے لگائیں: ‘آئی ایس آئی زندہ باد، پاک فوج زندہ باد۔’

اسد طور

اسد علی طور اپنی عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی یو ٹیوب پر ویڈیو بلاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

بعد میں ان کے اپارٹمنٹ کے سی سی ٹی وی کیمرے سے نظر آیا ہے کہ اسد طور اپنے گھر سے بمشکل نکلتے ہیں اور گر جاتے ہیں۔ پولیس اس کیس کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے جبکہ آئی ایس آئی نے ملوث ہونے کے الزام کو مکمل طور پر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ الزامات ان کے خلاف ‘سازش’ ہیں۔

اسد طور پر حملے اور پاکستان میں صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے بارے میں سوال کرنے کے لیے جب بی بی سی نے پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس معاملے کو ‘ایجنڈا’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بی بی سی کے ساتھ صرف اس صورت میں گفتگو کریں گے اگر بی بی سی ایک پورا پروگرام پاکستان کی ‘کووڈ کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابی’ پر نشر کرے۔

پاکستان میں آزادی صحافت پر قدغنیں ایک پرانا مسئلہ ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں صورتحال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم نے پاکستانی صحافیوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے الزامات کو رد کرتے ہوئے انھیں ‘مذاق’ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میڈیا پر ‘ان سے زیادہ تنقید آج تک کسی پر نہیں ہوئی ہے۔’

حکومت کے چند اہلکاروں نے انفرادی واقعات کی مذمت ضرور کی ہے لیکن انہی عہدیداروں نے متعدد بار صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر ہونے والے حملوں کی سنگینی کے بارے میں کہا ہے کہ ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور خفیہ ادارے ان حملوں میں ملوث نہیں ہیں۔

بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک کے ساتھ ہونے والے ایک حالیہ انٹرویو میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دعوی کیا کہ ‘ماضی’ میں ایسے کئی لوگ تھے جنھوں نے خفیہ ایجنسیوں کا نام ‘استعمال’ کر کے بیرون ملک پناہ حاصل کی۔

تاہم ماضی میں ہونے والے کئی واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہونے کے باوجود آج تک کسی بھی واقعے میں ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

اس سال اپریل میں معروف تجزیہ کار ابصار عالم پرگولی چلائی گئی تھی جبکہ گذشتہ برس ایک اور معروف صحافی مطیع اللہ جان کو کئی گھنٹوں کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔

مطیع اللہ جان

گذشتہ برس ایک اور معروف صحافی مطیع اللہ جان کو کئی گھنٹوں کے لیے اغوا کیا گیا تھا

پاکستان میں کئی لوگ مذاقاً کہتے ہیں کہ ‘سب کو معلوم ہے’ کہ یہ ‘نامعلوم’ افراد کون ہیں۔

پاکستان کے معروف ٹی وی اینکر اور صحافی حامد میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم اپنی آزادی بہت تیزی کے ساتھ کھو رہے ہیں۔’

حامد میر، جن پر 2014 میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا، نے گذشتہ ہفتے ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے خلاف بڑی سخت تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ صحافیوں پر حملے بند کیے جائیں۔

اس تقریر کے بعد حامد میر کو ان کے ادارے نے چھٹی پر بھیج دیا۔

پاکستان میں حزب اختلاف کے رہنما ٹی وی پر ضرور آتے ہیں لیکن ایک سینئیر تجزیہ کار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان رہنماؤں کو ٹی وی پر آنے کی اجازت اس لیے ملتی ہے تاکہ پاکستان میں جمہوری اقدار کا بھرم قائم رہے لیکن بڑی واضح ‘سرخ لکیر’ ہے جسے وہ عبور نہیں کر سکتے۔

اور ان حدود میں سے سب سے حساس معاملہ پاکستانی فوج پر تنقید کا ہے جس نے پاکستان کے قیام کے بعد سے تقریباً نصف عرصے ملک پر حکومت کی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ وہ ابھی بھی قومی سیاست میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔

ایوارڈ یافتہ خاتون سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے جب پی ٹی ایم میں شمولیت اختیار کی تو ان پر ‘ریاست مخالف’ بیانات دینے کے الزامات عائد کیے گئے۔

گلالئی دعوی کرتی ہیں کہ خفیہ ایجنسی سے منسلک افراد نے ان کے قریبی ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ وہ ان تک پہنچ سکیں اور انھیں گرفتار کر سکیں۔

اپنی جان کو لاحق خطرے کے باعث گلالئی اسماعیل 2019 میں وطن چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئیں اور پناہ حاصل کرنے امریکہ منتقل ہو گئیں لیکن ان کے پیچھے میں ان کے عمر رسیدہ والدین پاکستان میں ہی مقیم رہے۔

اعتدال پسند خیالات اور روشن خیالی کے باوجود ان کے والدین پر ریاست کی جانب سے الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ انھوں نے دہشت گردوں کو امداد فراہم کی ہے۔

گلالئی اپنے والدین کے خلاف جاری مقدمات کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ ایک ‘مجموعی سزا’ کی مثال ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد ہے کہ ‘اگر وہ والدین وہ اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کرے جس کی مدد سے وہ طاقتور کے سامنے سچ بول سکے، تو یہ ان کا مقدر ہے۔ نہ صرف بیٹی کو سزا ملے گی، بلکہ والدین بھی بھگتیں گے۔’

Prime Minister Imran Khan

پاکستان میں آزادی صحافت پر قدغنیں ایک پرانا مسئلہ ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں صورتحال بگڑتی چلی جا رہی ہے

جہاں ایک جانب حکومت کے ناقدین پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، وہیں دوسری جانب پاکستانی حکام کی جانب سے علاقائی پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کا افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار بھی شامل ہے اور انڈیا مخالف عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کے اقدامات بھی لیے گئے ہیں۔

گلالئی اسماعیل اور دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ان معاملات اور پھر عالمی وبا کے جاری بحران کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ مغربی طاقتیں پاکستان میں ریاست کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کریں گی۔

شفیق احمد، جو کہ ایک وکیل بھی ہیں، کہتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ان کے اتنا پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ لوگوں نے کام کی غرض سے ان کے پاس آنا چھوڑ دیا اور ان کے پڑوسیوں نے ان سے رابطہ ختم کر دیا، لیکن شفیق کہتے ہیں کہ وہ خاموش نہیں ہوں گے۔

‘میں یہاں کب تک خاموشی سے بیٹھا رہوں گا؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp