برطانوی فیشن میگزین ووگ کے سرورق پر دوپٹہ اوڑھے ملالہ یوسفزئی: ’آپ اپنی ثقافت کے اندر اپنی آواز بن سکتے ہیں‘


نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی برطانوی فیشن میگزین ووگ کے رواں برس جولائی میں آنے والے شمارے کے سرورق پر نظر آئیں گی۔

ٹوئٹر پر ووگ میگزین کے سرورق کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ملالہ نے لکھا: ’میں جانتی ہوں کہ ایک نوجوان لڑکی جس کا کوئی مشن، کوئی نظریہ ہو اس کے دل میں کتنی طاقت ہوتی ہے اور میں اُمید کرتی ہوں کہ جو بھی لڑکی یہ سر ورق دیکھے گی اسے پتا ہو گا کہ وہ بھی دنیا کو بدل سکتی ہے۔‘

واضح رہے کہ یہ الفاظ ملالہ کے ووگ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں سے ہیں جس میں انھوں نے اپنی فیملی، اپنے مستقبل اور ثقافتی طور پر اپنے لباس کی اہمیت پر بھی بات کی۔

ملالہ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’یہ لباس نمائندگی کرتا ہے کہ میں کہاں سے آئی ہوں۔‘

انھوں نے کہا ’مسلمان لڑکیاں یا پشتون لڑکیاں یا پاکستانی لڑکیاں، ہم جب اپنے روایتی لباس پہنتی ہیں تو ہمیں مظلوم یا بے آواز یا مردوں کی سرپرستی کے تحت زندگی گزارنے والا سمجھا جاتا ہے۔‘

’میں ہر ایک کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ثقافت کے اندر اپنی آواز بن سکتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’میں گھر میں بہت حکم چلاتی ہوں۔۔۔بھائیوں کو ہر وقت لیکچر دیتی ہوں‘

ناخواندہ غریب کسانوں کی بیٹی کو ہارورڈ میں سکالرشپ مل گئی

آکسفورڈ سے تعلیم مکمل، ’مبارک ہو ملالہ‘

یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی کو اکتوبر 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملے کے بعد علاج کے لیے انگلینڈ منتقل کیا گیا تھا اور وہ صحت یاب ہونے کے بعد حصولِ تعلیم کے لیے وہیں مقیم ہیں۔

ملالہ نے گذشتہ برس آکسفرڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی ڈگری مکمل کی ہے اور سنہ 2014 میں انھیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ دنیا بھر میں اب تک کی سب سے کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہیں۔

ملالہ تقریباً ایک دہائی سے لڑکیوں کی تعلیم کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔

گذشتہ ماہ ملالہ یوسفزئی نے فلسطینی بچوں کی فلاح و بہبود کیلیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی رقم عطیہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ رقم غزہ میں بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جائے گی۔

https://twitter.com/Malala/status/1399782399450484751

سوشل میڈیا پر تبصرے: ’ووگ کے سرورق پر ملالہ، یہ میری طرح کا گلیمر ہے‘

سوشل میڈیا پر یہ تصویر سامنے آنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر سے ووگ کے سرورق کو پذیرائی مل رہی ہے۔

بینا شاہ نے لکھا: ’زیادہ تر لوگ ووگ کے سرورق پر آنا اعزاز سمجھتے ہیں لیکن ملالہ کے معاملے میں، یہ ووگ کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔‘

برطانوی صحافی سیرین کالے نے لکھا: ’یہ ایک خواب تھا جو سچ ہو گیا۔ میں کبھی بھی ملالہ جیسی کسی اور شخصیت سے نہیں ملی۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’ملالہ ہمیشہ کی طرح شلوار قمیض پہنے اور سر ڈھانپے ہوئے۔ یہ شاید ووگ کا اپنی نوعیت کا پہلا سر ورق ہے۔‘

حرا عظمت نے لکھا: ’نوبل انعام اور دوسری چیزوں کو ایک طرف رکھ دیں، ملالہ دنیا کی سب سے دلکش اور پیار کرنے والی پاکستانی عوامی شخصیت میں شامل ہیں۔

انڈین صحافی سمیتا پرکاش نے لکھا: ’ووگ کے سرورق پر ملالہ۔ کوئی دبلی پتلی ماڈل نہیں۔‘

حضرا نے لکھا: ’ایک بین الاقوامی اشاعت کا سر ڈھانپے ایک عورت کا انتہائی حیرت انگیز فوٹو شوٹ۔۔۔ ’تخلیق‘کے لیے دوپٹے کے ساتھ کوئی احمقانہ کوشش نہیں کی گئی۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’ووگ کے سرورق پر ملالہ، یہ میری طرح کا گلیمر ہے۔‘

عمران منیر نے لکھا: ’یہ پاکستان کے لیے فخر کا لمحہ ہے۔ وہ اپنے ملک کی ثقافت کو پیش کر رہی ہیں۔‘

لیکن بات ملالہ کی ہو اور ان پر تنقید نہ کی جائے یہ کیسے ممکن ہے۔ کچھ صارفین جو بظاہر ملالہ کو پسند نہیں کرتے، نے ووگ کے سرورق پر ان کی تصویر پر سوال بھی اٹھائے۔

ایک صارف نے ملالہ کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا: ’آپ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لیے آواز اٹھا سکتی تھیں لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ ہر وہ لڑکی جو اس سرورق کو دیکھے، وہ یہ جانتی ہو کہ آپ کے پاس تبدیلی لانے کا ایک موقع تھا لیکن آپ نے اپنے مقاصد کے لیے ایسا نہیں کیا۔‘

واضح رہے کہ غزہ میں ہونے والی حالیہ کشیدگی کے دوران ملالہ کے بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا تاہم ملالہ نے اسرائیل کے فضائی حملوں میں زخمی فلسطینی بچوں کیلیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی رقم عطیہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

ایک اور صارف نے ملالہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’آپ کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ دنیا کو ایک عورت کی نظر سے دیکھتی ہیں یا ایک مسلم عورت کی نظر سے کیونکہ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔‘

انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے ملالہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’نوبل انعام کے لیے عزت اسی دن کم ہو گئی تھی جب مجھے پتا چلا کہ گاندھی کو نوبل انعام نہیں ملا لیکن ملالہ کو ملا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp