’میر‘ اور جھنڈو بام


مجھے جھنڈو بام پسند ہے۔ جب بھی میرے سر میں درد ہوتا ہے میں جھنڈو بام لگاتا ہوں۔ مگر جھنڈو بام سے میرا تعلق تھوڑا ایوانؔ پاولوف کے تجربے والا بھی ہے۔ ہندوستان میں جھنڈو بام کی بڑی اعلی مارکیٹنگ کی گئی۔ ملائکہ اروڑا صاحبہ کے معروف آئٹم نمبر ’منی بدنام ہوئی‘ میں جھنڈو بام کا ذکر ہے۔ اسی طرح میری پسندیدہ سنی لیونے ؔجی کے معروف آئٹم نمبر بے ’بی ڈول میں سونے دی‘ میں بھی جھنڈو بام کا ذکر آتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ دونوں ہی آئٹم جن میں جھنڈو بام آیا ہے، پاکستانی گانوں کی نقل ہیں۔

’منی بدنام ہوئی‘ عمر شریف صاحب کی فلم ’مسٹر چارلی‘ کی مزاحیہ قوالی ’لڑکا بدنام ہوا‘ کی نقل ہے جبکہ ’بے بی ڈول میں سونے دی‘ سبز بگٹی کے بلوچی گیت ’ہئی سوہڑے سوہڑے چھما‘ کی نقل ہے۔ مگر نقل اصل سے زیادہ معروف ہے۔ اصل کو لوگوں نے تلاش ہی جب کیا جب نقل مشہور ہو گئی اور نقل کے ذریعے جھنڈو بام مشہور ہو گیا۔

فلموں اور گیتوں میں اصل اور نقل کی قسمت بہت عجیب ہوتی ہے۔ کبھی اصل معروف نہیں ہوتا اور نقل چھا جاتی ہے۔ ’منا بھائی‘ کے فین کم ہی جانتے ہیں کہ راج کمار ہیرانی سے پہلے بھی سنجے دت صاحب ایک فلم میں بالکل منا بھائی بنے تھے۔ تب ان کے ’سائڈ کک‘ کا کردار پنکچ کپور نے ادا کیا تھا اور ان کے سامنے ہیروئن ایشوریا رائے تھیں۔ یہی نہیں اس فلم میں امیتابھ بچن اور اجے دیوگن بھی تھے۔ مگر وہ فلم منا بھائی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

کامیابی کا تعلق پیسے لگانے سے بھی نہیں، کاسٹ سے بھی نہیں۔ کامیابی ایک جادو ہے۔ نقل یا متاثرہ چیزیں معروف ہوجاتی ہیں اور اصل لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتا ہے۔ شاعری میں ایک ہی زمین پر ان گنت غزلیں کہی جاتی ہیں۔ بعض مرتبہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ وہ جس غزل یا نظم کو پسند کرتے ہیں اس کی اصل زمین کس غزل یا نظم کی ہے۔ مثلاً ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ سے اکثر لوگ واقف ہیں مگر اس بات کو کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ بسمل عظیم آبادی کی یہ غزل، غالب کی غزل ’سادگی پہ ان کے مرجانے کی حسرت دل میں ہے‘ کی زمین پر ہے۔ سوچئے غالب جیسے بڑے شاعر کی ’اوریجنل‘ زمین ایک سطحی انقلابی غزل سے معروف ہو گئی؟ معروف ہوجانا بھی ایک جادو ہے، مشہور ہوجانا بھی ایک کمال ہے۔ مگر جھنڈو بام والوں کو سلام کہ انہوں نے اپنی ’پروڈکٹ پلیسمنٹ‘ صحیح جگہ کی۔

غالب کے بارے میں مشہور ہے کہ مغلوں کے زوال کے بعد وہ بہادر شاہ کے لئے لکھے قصیدوں میں گورنر پنجاب میکلوڈ بہادر کا نام ڈال کر ان کے دربار میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ پاپی پیٹ بھی انسان سے کیا کیا کرواتا ہے۔

درباری شعراء بادشاہوں کے قصیدے لکھتے ہیں ان کی آبدار تلوار کی مدح کرتے ہیں۔ درباری مورخ اپنے ولی نعمت کی پسند کی تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ سب کچھ پاپی پیٹ کی خاطر۔ مگر کبھی کبھی یہ سب پاپی پیٹ کے لئے نہیں بلکہ شانوں پر موجود سر کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔ محمد قاسم ہندو شاہ (المعروف بہ قاسم فرشتہ) نے تاریخ ابراہیمی (جو کہ تاریخ فرشتہ کے نام سے معروف ہوئی) لکھتے ہوئے عجیب انداز میں تاریخ لکھوانے والے بادشاہ کے ضبط کا امتحان لیا۔

اس نے بادشاہ کو جو پہلا مسودہ پیش کیا اس میں کچھ ایسی باتیں لکھی تھیں کہ جن پر بادشاہ کا چراغ پہ ہوجانا بلکہ مورخ کی گردن اتار دینا بالکل ممکن تھا۔ مگر بادشاہ اسے پڑھ کر خوش ہوا اور قاسم کو سراہا۔ اس بات نے قاسم کی ہمت بڑھائی اور اس نے اپنی تاریخ مکمل آزادی فکر سے لکھی۔ اس واقعے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سچ بولنے والے گردن کٹوانے سے ڈرتے نہیں۔ اور سچ کو سراہنے والے طاقتور بھی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہ جاتے ہیں۔ مگر سچ بولنا ایک عادت ہے۔ جیسے کہ جھوٹ بولنا۔ ایک سچے انسان کو کبھی جھوٹ بولنا پڑے تو اسے بہت مشکل ہوتی ہے اور اس کا جھوٹ فوراً پکڑا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جھوٹے کے لئے سچ بولنا ایک مشکل کام ہے۔ انسان اپنی فطرت سے لڑتا ہے تو اس کی سانس پھول جاتی ہے۔

وظیفہ خوری بھی ایک عادت ہے، ایک فطرت ہے۔ غالب کو جب بہادر شاہ کے دربار کا آسرا نہیں رہا تو اس نے چھوٹے چھوٹے نوابوں اور انگریزوں کے درباروں میں قصیدے بھیجے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ جب قصیدوں میں تعریف اتنی جھوٹی ہوتی ہے تو وہ لکھوائے ہی کیوں جاتے ہیں جب وظیفہ خوار ایسے اپنی وفاداری بدل لیتے ہیں تو کوئی بھی ان کو وظیفے پر رکھتا ہی کیوں ہے؟ شاید اس کا جواب انسانی فطرت میں موجود چاپلوسی اور خودنمائی کی خواہش ہے۔

مگر یہ تو نفسیاتی وجہ ہے۔ وظیفے پر قصیدہ خواں اور مورخ رکھنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ بادشاہوں اور طاقت والوں کی عوام کے دلوں میں ’پراڈکٹ پلیسمنٹ‘ ۔ جو غالبؔ کی شاعری کے دلدادہ ہیں وہ اس کے لکھے قصیدے بھی پڑھ لیں گے یوں میکلوڈ ؔبہادر بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائیں گے۔ جو سنی لیونے ؔ کی پورن فلمیں اور ملائکہؔ اروڑا کا ’چل چھیاں چھیاں‘ دیکھ جوان ہوئے ہیں وہ جھنڈو بام کو بھی پسند کریں گے مگر کل اگر اچانک سنی لیونے اور ملائکہ جھنڈو بام کے خلاف ہوجائیں اور اس کے خلاف پریس کانفرنس کرنے لگیں تو حیرت ہوگی۔

مگر سوال یہ بھی ہے کہ جھنڈو بام سے سنی اور ملائکہ کا جھگڑا وظیفے کا ہے یا نظریے کا؟ اگر سنی لیونے اور ملائکہ اروڑا اب جھنڈو بام کے خلاف پریس کانفرنس کر رہی ہیں تو پہلے اس کے گیت کیوں گاتی تھیں؟ مطلب ایسا تو نہیں کہ معاملہ انکریمنٹ کا ہے اور اسی لئے معاملات گرم ہو گئے ہیں؟ یا وظیفہ ٹائیگر بام سے زیادہ مل گیا ہے؟

غالب نے وظیفہ خواری کے حوالے سے بڑی اعلی بات اپنے ایک شعر میں کہہ دی،
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے جو کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

چند سال قبل راقم کو سرمد صہبائی صاحب نے اپنی فلم ماہ میر ؔکے پریمیر پر مدعو کیا تھا۔ اس فلم میں ایک بات دلچسپ معلوم ہوئی کہ میر کو بد دماغ دکھایا گیا ہے۔ میرؔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے وہ کسی کے وظیفہ خوار بن کر خوش نہیں، لیکن ہیں وہ بھی وظیفہ خوار ہی۔ کہانی میں ایک طوائف بھی ہے جو کہ میرؔ کی ریختہ پر عاشق ہے۔ اسے ایک نواب کی طرف سے ’نوکری‘ کا پیغام آتا ہے تو وہ جواباً اپنی آمادگی کا پیغام بھیج دیتی ہے۔ میرؔ سامنے کھڑے ہیں حیران و پریشان، کہ ان کی محبت کیوں طوائف کے لئے کافی نہیں اسے نواب کی باندی بن جانا کیوں گوارا ہے؟ وہ جواباً نواب کے بھیجے تحائف کی طرف اشارہ کر کے میر سے پوچھتی ہے، ’تم مجھے یہ سب دے سکتے ہو؟‘ ظاہر ہے میر کا جواب نفی میں ہے۔ اور یہی جواب کافی بھی ہے۔

مجھے پیزا پسند نہیں۔ زندگی میں صرف ایک مرتبہ ’پیزا ہٹ‘ گیا ہوں۔ مگر میرا خیال ہے کہ پاپا جونز پیزا سے ذائقے میں کیلیفورنیا پیزا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ جب تک آپ نے صرف پاپا جونز پیزا کھایا ہے آپ اس کی تعریف کر سکتے ہیں مگر جب آپ کو کیلیفورنیا پیزا کی لت لگ جائے تو پھر پاپا جونز میں مزا نہیں آتا۔ میکلوڈ بہادر اگر بہادر شاہ ظفر سے زیادہ وظیفہ دینے لگیں تو بہادر شاہ کے رنگون جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ زر و جواہر کے در کھولے جائیں تو بہادر شاہ کی ہجو بھی لکھوائی جا سکتی ہے۔

منی جھنڈو بام ’نہیں‘ ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments