بقا صوفی ازم میں نہیں، سائنس میں ہے


دل جب بحر ظلمات کی گہرائیوں میں ڈوب چکا ہو تو آفتاب کی کرنیں بھی ضیا پاش نہیں بنتیں، چارہ سازوں کی چارہ سازی بھی کچھ کام نہیں آتی، اور چارہ ساز ہی اگر عقل گنوا بیٹھیں تو پھر قسمت کبھی یاوری نہیں کرتی، ایسا ہی کچھ معاملہ موجودہ وزیراعظم کا ہے جو پوری قوم کو صوفیوں کے جبے میں دیکھنا چاہتے ہیں، اگر بائیس کروڑ بھی صوفی بن جائیں تو کون سا ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کا آغاز ہو جائے گا، اس کے برعکس اگر بائیس کروڑ سائنس دان یا کم از کم تقاضائے دنیا کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو جائیں تو دنیا کی امامت پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں آن گرے گی جس کی تمنا میں فقیہان حرم صبح و شام مچلتے ہیں، ایک عجب نظریہ ہمارے ہاں فروغ پا چکا ہے جس کی بنیاد ہی غلط ہے کہ لوگوں کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ صوم و صلوٰۃ کی بنا پر کیا جاتا ہے، تاریخ اس عظیم شخصیت کا نام عمر ابن الخطاب بتاتی ہے جو اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مدینہ، ایک چھوٹا سا شہر جو رسالت مآب ﷺ کے طفیل حرم بن گیا تھا، کی گلیوں میں سے گزر رہے تھے کہ ایک گلی میں دو آدمیوں کو دیکھا جو جھگڑ رہے تھے، جھگڑنے والوں میں سے ایک کی نسبت امیر المومنین کے ساتھی نے کہا کہ یہ بہت نیک انسان ہے، تمھیں کیسے پتہ کہ وہ نیک ہے کیا تم نے اس سے کچھ لین دین کا معاملہ کیا ہے؟

امیر المومنین نے سوال پوچھا، میں نے اس کے ساتھ لین دین کا معاملہ تو نہیں کیا البتہ اکثر اس کو دیکھتا ہوں کہ وہ نماز بہت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے، اس شخص نے جواب دیا، امیر المومنین فرمانے لگے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص منافق ہو جو لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتا ہو، جب تم کو اس کے ساتھ واسطہ ہی نہیں پڑا تو تم صرف نماز کی بنیاد پر اسے کیسے نیک کہہ سکتے ہو، امیر المومنین کی زبان سے ادا ہوئے جملوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اچھائی اور برائی کی کسوٹی بدلنا ہو گی، یہ ضروری تو نہیں کہ ہر سائنس دان برا ہو اور ہر صوفی پارسائی کا مجسمہ، قوم کو صوفی بنانے کی کوششوں کو دیکھ کر احساس جاگزیں ہوا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بیسویں صدی کے ساتویں عشرے کے ساتویں سال پاکستان کے افق پر ایک درخشندہ ستارہ نمودار ہوا تھا جو اسلامی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنا کر پوری قوم کو با ایمان بنانا چاہتا تھا، وہ تو بعد میں فیض علی چشتی نے اپنی تصنیف ”بھٹو، ضیا اور میں“ میں گرہ کھولی کہ عوام کے جذبات سے کھیلنے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسے شوشے چھوڑے جاتے تھے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ ہو گا، کیا عجب کہ کل کو کوئی لکھ دے کہ موجودہ وزیر اعظم بھی عوام کی نظروں میں اپنی شخصیت کا مثبت پہلو پیش کرنے کے لیے صوفی ازم اور ریاست مدینہ کا راگ الاپتے تھے، فرق بنیادی ترجیحات کا ہوتا ہے، یورپ پر اس وقت قرون مظلمہ ( (Dark Ages کا دور چھایا ہوا تھا، ان کی شب غم کٹنے میں نہیں آ رہی تھی، انہوں نے یہ نقطہ پایا کہ دنیا کی امامت حاصل ہو گی تو صرف سائنس کی بنیاد پر، پھر انہوں نے ساری توجہ سائنس کے میدان میں لگا دی، پانچ صدیاں بھی بیتنے نہ پائی تھیں کہ وہ لوگ دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہو گئے، ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ صوفی ازم اور فلسفہ کی بنیاد پر ہم مغربی ممالک کو پچھاڑ دیں گے، اسی لیے تو وزیر اعظم ہر دوسری تقریر کو صوفیوں کے ذکر مزین کرتے ہیں، اور اب تو خاتون اول نے بھی لائبریری کا افتتاح کر دیا ہے جو صوفی ازم اور سائنس کا ملغوبہ تیار کرے گی، جس قوم کے بچوں کے ہاتھوں میں قرطاس و قلم کے بجائے رزق کمانے کے اوزار ہوں تو ایسے بچوں کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حکومت کو جابجا اعلیٰ معیار کے سکول تعمیر کرنے چاہئیں نہ کہ صوفی ازم کے فروغ کے لیے لائبریریاں، درویش کبھی جادۂ تصوف کا مسافر نہیں رہا، اس لیے صوفیوں کی کوئی ادا بھاتی ہی نہیں، پہلی تپسیا صوفی یہ تجویز کرتے ہیں کہ نفس کو مارو، کوئی تو سوال پوچھے کہ حضور جس مذہب کو بنیاد بنا کر آپ نفس کو مارنے کی تلقین کر رہے ہیں، کیا اس مذہب نے بھی نفس کو مارنے کی تعلیم دی ہے، کتاب لاریب ہو یا ذخیرہ حدیث، ایسی کچھ بھی مثال نہیں ملتی کہ نفس کو مارنے کا حکم دیا گیا ہو، اب یہ بھی سن لیجیے کہ صوفی حضرات نفس کو کیسے مارتے ہیں، ایک صوفی نفس کو مارنے کے لیے دس سال پانی میں کھڑا رہا یہاں تک کہ صوفی کا نچلا دھڑ مچھلیاں کھا گئیں، اب پتہ نہیں نفس مرا یا نہیں البتہ صوفی صاحب اپنا دھڑ ضرور گنوا بیٹھے، دوسرے صوفی چالیس دنوں تک ایک غار میں مقیم رہے، ان چالیس دنوں کے دوران صوفی نے صرف ایک پاؤ جو کھائے، ایسے کچھ اور بھی مافوق الفطرت قصے صوفیوں کے متعلق بیان کیے جاتے ہیں، ہم گناہ گاروں میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ نفس کو مار کر صوفی بنیں، بہتر یہی ہے کہ عوام کو بھی صوفی نہ بنایا جائے، صوفی اگر عمر بن ابراہیم خیام ایسے ہوں تو اور کیا چاہیے، مگر یہاں کے صوفیوں سے خدا کی پناہ۔

پس تحریر: وزیر اعظم اور خاتون اول کے بچے تو لبرل اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر قوم کے بچوں کو صوفی ازم کی پھکی، سہیل وڑائچ کیوں نہیں پوچھتے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments