عمران حکومت کے لیے مشکلات


پاکستانی سیاست میں پی ڈی ایم کے قیام کے بعد حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ جس طرح حکومت چل رہی ہے اس سے مقتدر حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے جس کا ثبوت وفاقی وزراء کو جنرل باجوہ سے ایک لیکچر سننے کو ملا کہ کارکردگی کو بہتر کیا جائے۔ یوں لگتا ہے کہ ان حالات میں نواز شریف پاکستانی سیاست کا بخوبی جائزہ لے رہے ہیں اور محظوظ ہو رہے ہیں۔ شاید میاں صاحب حکومت کو پورا وقت دینا چاہتے ہیں کیونکہ مزید مہنگائی اور حکومتی نا اہلی سے سنٹرل پنجاب میں نون لیگ کے ووٹ بنک میں اضافہ ممکن ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے نواز شریف اپنی سیاست مریم نواز کو منتقل کرنا چاہتے ہیں اور میاں شہباز شریف فیملی جو کہ اسٹبلشمنٹ کے حلقوں میں فیورٹ سمجھی جاتی ہے کو پرانی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا۔ اب اگر بات کی جائے عمران خان کے بیانات کی کہ ان کو اکثر سنتے پایا گیا ہے کہ وہ این آر او نہیں دیں گے، ان سے بندہ پوچھے آپ سے جہانگیر ترین کے علاوہ کون این آر او مانگ رہا ہے۔ اب ایک نظر جہانگیر ترین اور دوسرے شوگر ملز مالکان کے بارے میں ایف ای اے کی انکوائری رپورٹ، علی ظفر کی حتمی رپورٹ ابھی تیار نہیں ہو سکی۔

اس رپورٹ میں جہانگیر ترین، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ شوگر مافیا کے بڑے سٹے باز زد میں آ سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ رپورٹ تعطل کا آشکار کیوں ہے۔ شوگر اسکینڈل کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ پر وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد شہزاد اکبر متحرک ہوئے اور ایف ای اے سے مزید ریکارڈ لیا۔ شاید یہی وجہ سے شہزاد اکبر جہانگیر گروپ کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ ایف ای اے ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کی گرفتاری کے لیے ورکنگ پیپرز کی تیاری شروع کر دی گئی ہے اور جہانگیر ترین کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور شوگر اسکینڈل میں ملوث دیگر با اثر سٹہ بازوں کے خلاف کیسز کی تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی ایک بار پھر ڈائریکٹر ایف ای اے ڈاکٹر محمد رضوان کے حوالے کر دی گئی ہے۔ مگر شوگر مافیا اور جہانگیر ترین کی طرف سے شدید احتجاج کے بعد ڈاکٹر محمد رضوان کو تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا اور قلم دان ایڈیشنل جنرل ایف ای اے ابوبکر خدابخش کو تھما دیا گیا۔ انہوں نے علی ظفر کو تفصیلی رپورٹ فراہم کی۔

جس کے بعد علی ظفر نے جہانگیر ترین اور دیگر شوگر مل مالکان سے ملاقات کی اور ابتدائی رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کے حوالے سے علی ظفر نے عمران خان سے تفصیلی ملاقات کی، علی ظفر کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزات اور ثبوتوں سے لگتا ہے کہ کہ ایف ای اے نے کچھ زیادہ ہی نا انصافی سے کام لیا ہے اور جو شواہد ایف ای اے نے دیے وہ بھی ٹھوس نہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو پھر شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر با اثر افراد کے خلاف کارروائی میں مشکلات پیش آئیں گی۔

یہاں پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ تبدیل کر کے جہانگیر ترین کو ریلیف دیا۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین گروپ کو ناراض کر کے مرکز اور پنجاب میں اپنا اثر و رسوخ نہیں کھونا چاہتے اور وہ بھی ان حالات میں جب پی ڈی ایم ایک بار پھر سے احتجاجی سیاست کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے جون میں عمران حکومت بجٹ کی پی پی پی اور اے این پی کی مخالفت کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے، پی ڈی ایم کے مطابق ملک بھر میں جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ نواز شریف نے پی پی پی اور اے

این پی کی پی ڈی ایم میں واپسی پر اپنا موقف دیا۔ یوں لگتا ہے کہ نواز شریف ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد کے بل بوتے پر حکومت کی پریشانی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ آنے والے دن پاکستانی سیاست میں کافی اہم ہیں۔ جون کا بجٹ، مہنگائی، جہانگیر ترین گروپ کی تشکیل اور پی ڈی ایم کی احتجاجی سیاست عمران حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کی عمران حکومت ان تمام چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments