سچ سے فرار کیوں؟


یہ حقیقت سب جانتے ہیں مگر اس کا ادراک اور معنی مختلف ہو جاتے ہیں۔ سچ سامنے ہوتا ہے البتہ سامنا کچھ مشکل ہوتا ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے اس کے اثرات اور نتائج پہلے سے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ جس کے باعث کچھ اور سوچ متبادل کے طور پر تیار ہوتی ہے۔ زندگی کے معمولات انہیں لگے بندھے فارمولوں پر چل رہے ہیں۔ اب سچ بے نقاب ہونے پر دکھ اور تکلیف کی نوعیت اور شدت قدرے کم ہوتی ہے کیونکہ انسان اپنا اور دوسروں کے مزاج سے مکمل جانکاری رکھتا۔

صرف رشتوں، ذاتی تعلق یا پھر کام کی نزاکت جھوٹ سے واسطہ پڑنے پر رنج کی کیفیت یا پریشانی کے جذبات امڈ آتے ہیں۔ انسانی نفسیات ہے ایسے سچ بے دھڑک بولے جاتے ہیں جس میں اپنا نقصان نہیں ہوتا بلکہ کچھ فائدہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہماری واہ واہ بھی خوب ہوجاتی ہے۔ زمانہ دبنگ کا ٹائٹل بھی دے دیتا ہے۔ لیکن دنیا کا چلن بہت ہی سادہ اور مصلحت پسندی پر مبنی ہے جگہ جگہ چیزوں کو چھپایا جاتا ہے دوسروں سے اوجھل کر کے معاملات نمٹانے کا مزاج سا بن گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کریں تو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

میڈیا میں بھی بہت کچھ سچ کی اوڑھنی میں پیش کیا جاتا ہے وہ بھی بہت زیادہ مصلحت پسندی سے بھرپور ہوتا ہے، جہاں میڈیا مالکان کے مفادات متاثر ہوتے ہوں، وہاں دبنگ سے دبنگ صحافی بھی لب سی لیتا ہے، ہاں اب سوشل میڈیا اور خصوصاً وی لاگ، یوٹیوب چینلز نے آزادی اظہار کی نئی جہت متعارف کرائی ہے، جس نے ابلاغ کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ انہیں آپریٹ کرنے والوں کو اچھی خاصی آمدن بھی دینا شروع کردی ہے، وہ چاہے اینکر ہو، یا رپورٹر، جہاں اپنے ادارے کو خبر اور تجزیہ دیتا ہے وہیں اپنے اس ذاتی معاملے کے لئے کچھ نہ کچھ سچ کہہ لیں بچا کر رکھتا ہے، کیونکہ یہاں نہ صرف پذیرائی ملتی ہے بلکہ اضافی رقم بھی۔

بات سچ اور جھوٹ کی ہو رہی تھی، کتنا سچ بولا جائے جسے دوسرے اور خاص طور پر ادارے برداشت کر لیں کیونکہ دبنگ، منہ پھٹ اور کھلی کھلی باتیں کرنے والا انداز کبھی کبھار تھوڑا مارجن لے جاتا ہے، حالیہ برسوں میں الیکٹرانک میڈیا میں ایسی تلخ و شیریں اور کھٹی میٹھی باتیں کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والے صحافی بے حد مقبول ہو گئے، وہ چاہے الفاظ کا چناؤ درست رکھ پائیں یا نہیں، ان کی معلومات ادھوری ہوں، اس کا لہجہ من بھا جاتا ہے، دیکھنے اور سننے والے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ تجزیہ بھی ہوجاتا ہے اور لفظوں کی چاشنی کا تڑکا بھی لگ جاتا ہے۔

اصل صحافت کچھ پس منظر میں چلی گئی ہے، حقائق تلاش کرنے کے بجائے سطحی اور بیان بازی پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔ سیاسی لوگوں یا اداروں سے وابستہ افراد کی الزام تراشیاں یا پھر ذاتی زندگیوں سے متعلق معلومات زیادہ دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ کسی دور میں شام کے ایونینگ اخبارات سنسنی خیز خبروں کے لئے مشہور تھے، جن میں افواہوں یا قیاس آرائیوں پر مبنی اطلاعات سینہ بہ سینہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی ملتا جلتا کام شروع کیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اخبار کی مستند خبروں کے سحر سے نکل آئے۔ خبر کی تعریف بدلتی دکھائی دی۔ بغیر تصدیق اور حوالے خبر چل جاتی ہے۔ تردید اور معذرت والے زمانے گزر گئے۔ ایک بار منہ سے بات نکل گئی سننے اور دیکھنے والے پر تاثر چھوڑ گئی، بعد میں کسی نے کوئی اخلاقی مظاہرہ نہ کیا اور کسی قسم کی وضاحت کی ضرورت کم ہی محسوس کی جاتی ہے۔ غلط تاثر اور خبر حقیقت کا روپ دھار لینے میں دیر نہیں لگاتی۔

سچ کیا ہے، کیسے اور کہاں سے ڈھونڈ کر نکالا جائے، اتنی زحمت اور تردد کچھ مشکل کام لگتا ہے، کہیں سے کوئی بات ملی، فوری اٹھائی اور فارورڈ کردی۔ بس ابلاغ یہیں رک کر رہ گیا۔ کوئی مرتا ہے یا جیتا ہے، کسی کو اپنے غلط قدم کا کبھی تاسف اور ندامت تک نہیں ہوتی، چاہے وہ ادارہ ہو یا فرد۔ ایک ذمہ دار پیشہ اب نہ جانے کس قدر بے احتیاطی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ گاہے بگاہے لگایا جاسکتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں، گروپ، تنظیمیں، افراد، ادارے خصوصاً ریاست کے اہم ستون ٹکراتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ذمہ دار پوزیشنوں پر بیٹھے افراد میڈیا میں توجہ لینے کے لئے بعض اوقات بڑی باتیں اور فیصلے کر گزرتے ہیں، جس کا اندازہ شاید انہیں بعد میں بھی نہیں ہو پاتا۔

مسئلہ پھر وہیں کا وہیں، میڈیا میں جو کچھ آتا ہے، اس کی حقیقت اور سچ جھوٹ کا تعین نہیں ہو پاتا، جس نے دبنگ انداز اپنایا وہ درست تصور کیا گیا۔ کوئی نہیں جان پاتا کہ اصل بات کہاں ہے۔ یہ بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ سچ کا دامن تھام کے رکھیں، ایسا ہو نہیں پاتا کیونکہ ادارے بھی اور ابلاغ سے وابستہ افراد بھی سچ سے بھاگتے ہیں، اس سے حاصل کچھ نہیں۔ بہتر ہے فرار۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments