گوری گاں


ہمارے گاؤں میں تو یہ معمول تھا۔ بالکل ایسے جیسا حقہ پینا عام تھا۔ گاؤں کے سبھی لوگ تمباکو میں ذرا سا گڑ ملا کر چلم بھرتے، انگاروں کو چمٹے یا ’ڈپھی‘ سے پھل میں دھرتے، لال سرخ انگاروں سے بھرے پھل کو ’بدھو‘ سے ڈھانپتے، حقے کا پانی بدلتے، تازہ کرتے اور سنہری اور سفید تلے سے سجی ’نڑی‘ کو منہ سے لگا کر گڑ گڑ کرتے اور دھوئیں کے بادل منہ اور ناک سے نکالتے رہتے۔

جیسے بستی کی ہر شادی بیاہ میں ڈھول کی تھاپ پر، گول دائرے میں، ایک ردھم میں، منہ سے چھی چھی کی آواز کے ساتھ جھومر ڈالنا کوئی نہیں بھولتا تھا۔ جیسے جمعرات کو مسجد میں چندہ دینا، حلوہ پکانا اور خاندان کے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے ختم پڑھانا معمول تھا۔ جیسے گھپ اندھیری رات میں چور کو دیکھ کر کوئی فرد ’کوک‘ مارتا تو پورا گاؤں اکٹھا ہو جاتا۔ جیسے اندھیری سیاہ راتوں میں گاؤں کے کتے اپنے اپنے ٹھکانوں سے بھونکتے رہتے۔ قریب دور، بھاری، باریک آوازیں رات کی تاریکی اور سناٹے کو ہم بچوں کے لیے کیسا ڈراونا اور سحر انگیز بنا دیتی تھیں۔ اور اندھیرے سے بھرے آسماں پہ کیسے عجیب سے بھتنے دکھائی دینے لگتے یا نیم کی شاخیں کسی ہیبت ناک دیو کا روپ دھار لیتی تھیں۔

جیسے دسمبر کی ٹھٹھرتی راتوں میں گاؤں سے متصل قبرستان میں ون کے پیڑوں سے گیدڑوں کی چیخیں تاریک خاموشی کو چیرتی ہوئیں پورے گاؤں میں گونجنے لگتی تھیں۔ حقی حقی واں، واں حقی واں، حقی حقی واں۔

بالکل ایسے جیسے شام ہوتے ہی سب بچے ٹی وی والے گھر کا رخ کرتے، زمیں پہ بچھے تان پہ یا مٹی سے لپے چبوترے پہ آلتی پالتی مارے ٹی وی دیکھتے اور خبریں لگتے ہی کپڑے جھاڑ کر اٹھ جاتے تھے۔ جیسے تپتی دوپہروں میں چڑیاں اپنی چونچوں میں دانے بھر بھر اپنے شور مچاتے بچوں کو چوگا دیتی رہتی تھیں۔ جیسے غلیل سے پرندوں پہ نشانے باندھتے لڑکے کو دیکھ کر کوے آسمان سر پہ اٹھا لیتے تھے۔

جیسے پانچ وقت گاؤں کی ’وچلی مسیت‘ کے لاؤڈ اسپیکر سے مولوی اکرم کی اذان گونجا کرتی۔ جیسے نیم کے درختوں کے سبز پتے رنگ پھیکا کرتے، دھیرے دھیرے سوکھ کر گر جاتے، پھر ننھی کونپلیں پھوٹتیں، ننھے پتے شاخوں پہ مسکرانے لگتے، شاخوں پہ بور لگتا، چھوٹے چھوٹے سفید پھول گود میں زرد رنگ کی پھوار لیے نمودار ہوتے تو گاؤں کے سبھی آنگن ہلکی خوشبو سے بھر جاتے۔ جیسے نمولیاں لگتیں اور وہی ہنستے مسکراتے پتے بوڑھے ہو کر شاخوں کا ساتھ چھوڑ کر مٹی ہو جاتے۔ جیسے پنڈ کے مشرق میں بابا ابو سمند کے قبرستان کے پاس بڑے پیپل کے عقب سے روز سورج نکلتا، دن بھر کا سفر کر کے گاؤں کے مغرب میں بابا موہل بادشاہ کے دربار کے قریبی درختوں کے پیچھے کہیں ڈوب جاتا تھا۔

ایسے ہی ہمارے بچپن کے دنوں میں ہماری بستی میں یہ رواج تھا کہ ہر رات ماں باپ بچوں کی ننھی ہتھیلیوں پہ ’گوری گاں‘ کیا کرتے تھے۔ سونے سے پہلے بسم اللہ، پہلا دوسرا کلمہ، نماز، آیت الکرسی، دعائے قنوت میں سے سبق یاد کروایا جاتا اور پچھلی رات کا سبق سنا جاتا اور پھر گوری گاں۔ بس اسی گوری گاں کے انتظار میں ہم عربی کے مشکل اسباق کو خوب رٹا لگا لیتے تھے۔ گوری گاں ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا جس میں ہنسی تھی، مزہ تھا۔ نیند کی گود میں جانے سے پہلے مزے کے وہ پل دو پل تھے جو پل بھر میں گزر جاتے تھے۔ باپ کی انگلی جب ہمارے دائیں ہاتھ کی لکیروں کو گدگداتی اچھلتی جاتی تو ہمارے من میں ان گنت جگنو جگمگانے لگتے۔

ایتھے گوری گاں سوئی
ایتھے وچھا بنھا
ایتھے بوہلی کاڑھی
ایتھے بھائی پیتی
ایتھے بھین پیتی
ایتھے ماں پیتی
ایتھے پیو نے پیتی
جاندی جاندی جاندی
گھڑا بھن گئی۔
جاندی جاندی
آہ لبھی پئی لبھی پئی۔

ہر ’ایتھے‘ کے ساتھ ہتھیلی پہ چلتی انگلی جگہ بدلتی جاتی۔ اور تمام گھر والوں کے نام لے کر ان کو ’بوہلی‘ پلائی جاتی۔ پھر نہ جانے گائے کھونٹے سے کھل جاتی تھی یا دودھ دوہنے والی عورت گھر لوٹ رہی ہے جو ’جاندی جاندی‘ گھڑا توڑ بیٹھتی ہے۔ ’جاندی جاندی‘ کہتے ہوئے انگلی ہتھیلی سے چلتی اور بازو کے درمیان گدگدی کرتی۔ پھر وہاں سے ڈگ بھرتی تو ’لبھی پئی لبھی پئی‘ کی گردان کے ساتھ بغلوں میں ’کتکتاریاں‘ نکالتی۔

ہنسی کی ندیاں بہنے لگتیں جو ننھے بچوں اور والدین سبھی کے دلوں کو سیراب کرتی جاتیں۔ اندھیری راتوں میں نیم کی شاخوں پہ ہلتے ڈراونے دیو ایک دم غائب ہو جاتے اور ان کی جگہ پریوں کا بسیرا ہو جاتا۔ دور کسی ڈھاری پہ بھونکتے کتے کی آواز میں جو خوف ہوتا وہ بھی ختم ہو جاتا۔ آسمان میں بسے ستارے ہمارے ساتھ مل کر مسکرانے لگتے۔ کئی ستارے تو یوں ٹمٹمانے لگتے گویا وہ بھی گوری گاں کھیل رہے ہوں۔ جگنو اپنی اپنی شمعیں لیے اڑنے لگتے۔

یہ تھی گوری گاں جس کا مطالبہ ہم روز سونے سے پہلے کرتے تھے۔ پھر ہنستے ہنستے سو جاتے تھے۔

اب ایک عمر بیت گئی کہ گوری گاں سے سامنا نہیں ہوا۔ اس سے کب بچھڑے یاد نہیں۔ اب میرے گاؤں کے رواج کچھ بدل سے گئے ہیں۔ اب حقے پینے والے کم لوگ ہیں۔ چھی چھی مست ہو کر جھومر ڈالنے والے خواب ہوئے۔ جھومر کے انداز بدل گئے۔ گیدڑوں کی حقی حقی واں سنے زمانہ ہو چلا۔ چوگا دیتی چڑیا اور اس کے شور مچاتے بچوں کو دیکھنے کے لیے شاید گاؤں کا کریہ کریہ گھومنا پڑے۔ سورج جس پیپل کی اوٹ سے طلوع ہوتا تھا وہ کب کا کٹ چکا اور کون جانے اس پہ بیٹھنے والے پنچھیوں کو کون سا آسمان کھا گیا اور ان کے گیتوں کو کس کی نظر لگ گئی۔ سورج اب بنا اوٹ لیے گاؤں کے مشرق سے کہیں نکل آتا ہے اور آنگنوں میں دھوپ انڈیلتا گاؤں کے مغرب میں چھپ جاتا ہے۔

رات اب بھی ہوتی ہے۔ کتے اب بھی رات کو بھونکتے ہیں۔ بس ان راتوں میں ہماری گوری گاں نہیں رہتی۔ کچھ ہی برس پہلے تو ہماری ہتھیلیوں پہ رہتی تھی۔ وہیں بچے جنتی تھی۔ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پہ ہی امی اینٹوں کا چولہا بنا کر بوہلی کاڑھتی تھی اور ہم سب امی ابو، بہن بھائی ہتھیلی کی لکیروں پہ ہی دائرہ بنا کر مل کر بوہلی پیتے تھے۔ ایک ننھی ہتھیلی پہ سارے جہاں کی خوشیاں اور رونقیں بستی تھیں۔ گوری گاں کھونٹے سے چھوٹتی بھی تھی تو ہماری بغل میں مل جاتی تھی۔ اب کی بار تو گوری گاں جاندی، جاندی، جاندی، جاندی، ہمارے گاؤں، ہمارے بچپن، ہماری زندگی سے کہیں دور نکل گئی ہے۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments