سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاریاں


سندھ میں اس وقت امن امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر پولیس آپریشن کیا جا رہا ہے۔ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں پہلی مرتبہ ہے کہ ڈاکو نہ صرف پولیس کو ہٹ کر رہے ہیں بلکہ ریاست کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے کچے کے علاقوں میں بے رحم آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ شکارپور کے کچے میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسلحہ، ڈرون ٹیکنالوجی، بکتر بند اے پی سی چیز بھی پہنچ چکی ہیں جبکہ کراچی سے اسپیشل کمانڈوز اور سی ٹی ڈی کے سینکڑوں اہلکار بھی شکارپور میں پہنچ چکے ہیں۔

مقامی پولیس نے شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ کے کچے کے علاقوں میں آپریشن شروع ہوئے 10 دن ہو چکے ہیں تاحال ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہی آیا ہے۔ پولیس نے 10 دنوں میں نہ کوئی ڈاکو زندہ پکڑا گیا ہے، نہ ہی کسی ڈاکو کو مقابلے میں ہلاک یا زندہ گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن جس طرح پولیس نے حکمت عملی بنائی ہے۔ آپریشن کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پلاننگ کی جا رہی ہے۔ ایک ہی وقت سکھر، گھوٹکی، کشمور کندھ کوٹ اور شکارپور کے کچے کے علاقے کے تمام راستوں کو بند کر کے کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور ساتھ میں آپریشن کی ریہرسل بھی چل رہی ہے۔

لگ ایسا رہا ہے کہ یہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن نتائج دے پائے گا۔ اگر کامیاب نہ ہوا تو پھر امن ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ریاست اگر اپنی بات منوانے پر آ جائے تو سب کچھ ممکن ہے ناممکن کوئی چیز نہیں ہے۔ سندھ پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں ڈیڑھ سال کے دوران مختلف واقعات قبائلی دہشتگردی زمینیں تنازعات ذاتی دشمنی کے واقعات میں 1792 لوگ قتل ہوئے ہیں۔ 6 کروڑ سے زائد آبادی میں اتنے سارے لوگوں کا قتل سندھ سرکار اور پولیس کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 ماہ کے دوران کراچی ڈویژن میں سب سے زیادہ 480 لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔ سکھر ڈویژن میں 15 ماہ کے دوران 480 لوگ قتل ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ ڈویژن میں 472 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں۔ آصف علی زرداری کے آبائی ڈویژن شہید بے نظیر آباد میں 296 افراد قتل ہوئے ہیں۔ میرپور خاص ڈویژن میں 196 افراد کو قتل کیا گیا ہے۔ حیدرآباد ڈویژن میں 67 افراد قتل ہوئے ہیں۔ اگر سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ تین ماہ کے دوران 250 سے زائد افراد قتل ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ لوگ شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں قتل ہوئے ہیں۔ شکارپور میں ایک ہی دن میں جب دو افسوسناک واقعہ پیش آئے تو ریاست کے کان ہل گئے۔ شکارپور کے علاقے گڑھی یاسین میں افسوسناک واقعہ میں مارفانی قبائل میں فائرنگ کے نتیجے میں 4 افراد قتل جبکہ 6 افراد زخمی ہو گئے۔ جبکہ شکارپور کے کچے علاقے گڑھی تیغو میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے کے دوران ڈاکوؤں نے جدید اسلحہ سے دو بکتر بند گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔

راکٹ لانچر مارنے سے 3 اہلکار موقعہ پر ہی شہید ہو گئے جبکہ ایس ایچ او سمیت 6 اہلکار سے شدید ہو گئے تھے۔ گاڑی میں موجود دو زندہ بچ جانے والے اہلکاروں نے موبائل سے ویڈیو بنا کر وائرل کردی جس میں انہوں نے اطلاع دی کہ ہمارے ساتھی شہید ہو گئے ہیں، ۔ دو زندہ بچ گئے ہیں ہماری مدد کی جائے، ہمیں بچایا جائے، انہوں نے ایس ایس پی کو فوری پہنچنے کی اپیل کی۔ ویڈیو وائرل ہوتے ہی پولیس نے قبائل اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ڈاکوؤں سے اپنے ساتھی شہداء کی لاشیں زخمیوں اور زندہ بچ جانے والوں کو واپس لے کر ہسپتال پہنچایا۔

کچھ ہی دیر بعد ڈاکوؤں نے حملے کی وقت کی ویڈیو جاری کردی جس میں وہ حملہ کر رہے ہیں اور خوشی منا رہے تھے۔ جس کے بعد ڈاکوؤں کی جانب سے ایک اور ویڈیو جاری کی گئی جس میں ڈاکوؤں تباہ شدہ بکتر بند گاڑی کے ساتھ پولیس یونیفارم پہن کر پولیس کو چیلنج کر رہے ہیں اور دوبارہ آپریشن کرنے کی صورت میں قتل کرنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ شکارپور کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی شہادت کا یہ پہلا واقعہ نہی ہے۔ دوسری طرف دو روز بعد لاڑکانہ میں ڈاکوؤں نے مقابلے کے دوران دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا جبکہ لاڑکانہ پولیس نے دو گھنٹوں کے دوران پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ملوث تین ڈاکوؤں کو مقابلہ میں ہلاک کر دیا۔

شکارپور میں تین اہلکاروں کی شہادت کے پولیس کی جانب سے تیغانی قبائل کے سردار تیغو خان تیغانی کو دو بیٹوں، بھائی اور بھتیجے سمیت کراچی میں گھر سے گرفتار کر کے شکارپور لایا گیا جہاں اس کے خلاف اہلکاروں کے قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس میں انسداد دہشت گردی کے قلم بھی لگائے گئے ہیں۔ کندھ کوٹ کے کچے میں کچھ روز قبل قتل ہونے والے چاچڑ برادری کے 10 افراد کے قاتل سبزوئی ملزمان کے قبائل کا سردار بھی تیغو خان تیغانی ہی ہے۔

لیکن سردار تیغو خام کہ چکے ہیں کہ وہ اس بار پیپلز پارٹی کو ووٹ نہی کریں گے۔ اس کے خلاف سازش کی گئی ہے۔ جس کا الزام انہوں نے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے عابد خان سندرانی اور شبیر علی بجارانی ہر لگایا ہے کہ وہ اسے بدنام کر رہے ہیں۔ جبکہ تیغو خان تیغانی کا ماضی میں اور اس وقت بھی تعلق حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے ہی ہے۔ مہر برادری کے سردار اور پیپلز پارٹی کے ایم این اے سردار محمد بخش مہر جس وقت چاچڑ برادری سے تعزیت کرنے کے لئے جا رہے تھے واپسی پر سبزوئی قبائل مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی۔

جس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سندھ حکومت پر ناراض ہوئے تھے۔ شکارپور اور لاڑکانہ میں دو روز میں پانچ پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، آئی جی سندھ مشتاق مہر شکارپور پہنچے جہاں شہداء کے ورثا سے تعزیت کی گئی اور اہلکاروں کی شہادت اور ڈاکو راج کے بارے میں بریفنگ لی گئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب اور ایس ایس پی شکارپور سعود مگسی کو ہٹایا گیا اور لاڑکانہ کا نیا ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ کو مقرر کیا گیا جبکہ شہید بے نظیر آباد سے ایس ایس پی تنویر تنیو کو مقرر کیا گیا۔

وزیر اعلی سندھ کے دورے کے دوران ہی وفاقی وزیر اسد عمر اور پی ٹی آئی سندھ کے رہنما حلیم عادل شیخ بھی پہنچے وزیر اعظم عمران خان سے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو ہٹانے اور نیا آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ جب وفاقی وزیر شیخ رشید سندھ کے دو روزہ دورے پر کراچی پہنچے تو انہوں نے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں، اور واضح اعلان کیا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کی آپریشن میں مدد کرے گی۔

آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی لاڑکانہ اور ایس ایس پی شکارپور کو کراچی طلب کر کے آپریشن کے متعلق ہدایات دیں جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن کامران فضل نے سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے پولیس افسران کا اجلاس طلب کیا اور آپریشن کے متعلق پلان بنایا گیا۔ سندھ کے کچے میں اس وقت جہاں ڈاکوؤں کا راج ہے ان سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، خیرپور، گھوٹکی، کندھ کوٹ کشمور، جیکب آباد اور قمبر شھداد کوٹ کے اضلاع شامل ہیں۔ سندھ کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف 70 ع کی دہائیوں سے آپریشن ہوتا ہوا آ رہا ہے۔

مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ڈاکو نے خوف ہو کر پولیس کے ساتھ ملاقاتوں اور پولیس پروٹوکول میں گھومنے کی وڈیوز وائرل کر رہے ہیں اور ٹک ٹاک بنا کر سندھ حکومت کو مقابلہ کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال شکارپور کے کچے کے علاقے میں آپریشن کے دوران سکھر سے تعلق رکھنے والے ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ شہید ہو گئے تھے۔ اس سے قبل ایس ایچ، ای ایس آئے سمیت 8 اہلکار مختلف آپریشن میں شہید ہو چکے تھے جبکہ اسی ماہ مزید 5 اہلکاروں کا اضافہ ہوا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے، اس کے مقابلے میں پولیس کے پاس غیر معیاری اسلحہ، ناقص بکتر بند گاڑیاں جن کو جی تھری کی گولیاں پار کر رہی ہیں۔ اسلحہ ایسا کہ جن کو زنگ لگ چکا ہے۔ اب سندھ حکومت نے 4 چادروں والی بکتر بند اے پی سی چین ٹیکسلا سے منگوائی ہیں۔ بس بے رحم آپریشن شروع ہونے کی دیر ہے۔ عوام کی دعائیں پولیس کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ ڈاکوؤں اور کرمنلز نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔ کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کی کامیابی کے بعد قبائلی تکراروں میں ملوث افراد کے خلاف بھی کارروائی شروع ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت سندھ بھر میں 35 ہزار سے زائد افراد مختلف کیسز میں روپوش ہیں۔ جس میں خطرناک ملزم اشتہاری ملزم بھی شامل ہیں۔ ان کو قانون کے کٹہرے میں نہی لایا جاتا مکمل امن ممکن نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments