ویکسین


آمنہ کی بیٹی کی جب بھی ویکسین ہونی ہوتی ہے تو وہ اپنی ماں کے گھر آ جاتی ہے اور بچی کی ویکسینیشن کرواتی ہے۔ اسے بہت ڈر لگتا ہے اکیلے میں بچی کی ویکسینیشن کرواتے ہوئے۔ سرنج دیکھ کر اسے پسینہ آ جاتا ہے تو اس ننھی سی جان کو وہ خود سے کیسے اس ظالم ٹیکے کے حوالے کرے؟ بس اسی پریشانی سے بچنے کے لئے وہ اپنی ماں کے پاس آ جاتی اور کہتی

”امی! آپ کا حوصلہ ہے جو اتنے آرام سے دیکھتی رہتی ہیں حمنہ کو ٹیکہ لگتے، میرا تو ڈر کے مارے برا حال ہوجاتا ہے۔“

اس کی ماں ہنس دیتی اور دل ہی دل میں سوچتی کہ اس کی بیٹی اتنی بڑی ہو گئی، بیاہی گئی، ایک بچی کی ماں بن گئی مگر ابھی تک یہ بچوں والی باتیں اور عادتیں اس سے نہیں چھوٹیں۔ پھر سوچتی کہ وہ بھی تو اپنی ماں کی زندگی میں ایسے ہی چھوئی موئی سی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر رونے لگتی تھی۔ اب، اس عمر میں غم اور تکلیف کا احساس بہت کم ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے جذبات و احساسات پر قابو پانا بھی سیکھ گئی ہے۔ وہ جان چکی ہے کہ انسان کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنا اس تکلیف پہنچنے کا خوف اس کے دل میں ہوتا ہے۔

سویرے سویرے دونوں ماں بیٹی خود تیار ہوئیں، بچی کو نہلا دھلا کر تیار کیا اور رکشے پر بیٹھ سرکاری اسپتال جا پہنچیں۔

آمنہ کی ماں نے آگے بڑھ کر کاؤنٹر سے دس روپے کا ایک ٹوکن لیا اور حفاظتی ٹیکوں کے سینٹر میں جا کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگیں۔ ان کے ٹوکن کا نمبر پندرہ تھا جبکہ ابھی نویں نمبر والے بچے کو ٹیکہ لگ رہا تھا۔ آمنہ بہت پریشانی اور دکھ کی ملی جلی کیفیات سے بچے کو ٹیکہ لگتے دیکھ رہی تھی۔ اس کی ماں اس کی پریشانی بھانپ گئی اور بولی: ”تمہاری روز بروز بچگانہ حرکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اطمینان رکھو اور سکون سے بیٹھو۔

اگر ان بچوں کو ٹیکہ نہیں لگے گا تو کوئی بیماری انہیں لگ جائے گی۔ جانتی ہو ہمارے بچپن میں چیچک، پولیو، کالی کھانسی ہو جایا کرتی تھی بچوں کو اور کوئی علاج نہ ہو سکنے کی وجہ سے اکثر ان کی موت واقع ہو جاتی تھی یا پھر وہ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جایا کرتے تھے۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ آج تمہاری بیٹی پہلے ہی ان بیماریوں کے خلاف مدافعت اپنے جسم میں مجتمع کر نے والی ہے۔ ”

آمنہ یہ سب کچھ جانتی تھی مگر بات صرف یہ تھی کہ وہ اپنی چھوٹی سی بیٹی کو سرنج کی تکلیف لیتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ نرس نے پندرہ نمبر پکارا تو دونوں ماں بیٹی اٹھ کر مجوزہ کرسی پر جا بیٹھیں جہاں نرس اپنا ویکسین کا تھرمس اور سرنجیں رکھ کر بیٹھی تھی۔ اس نے آمنہ سے حمنہ کے ٹیکوں کے کورس کا کارڈ مانگا اور اسے پڑھ کر واپس آمنہ کے حوالے کرتے ہوئے تھرمس سے ویکسین کی شیشی نکالی، شیشی کا منہ توڑتے توڑتے آمنہ سے گویا ہوئی ”بہت خیال رکھا کریں ٹیکہ لگنے کی تاریخ کا اس کے ساتھ ساتھ پولیو کے قطروں کا بھی پورا حساب رکھا کریں کہ کن دنوں میں پلوانے ہیں۔

آپ کی ذرا سی غفلت آپ کی بچی کے لئے مہلک ہو سکتی ہے۔ آج کل تپ دق، پولیو، کالا یرقان، خناق، کالی کھانسی، ٹیٹینس، نمونیا سے متعلق انفیکشن، چیچک، خسرہ، گل سجوا، جرمن خسرہ اور سرویکل کینسر تمام بیماریوں کا حل ڈاکٹروں نے ویکسین میں ہی ڈھونڈ لیا ہے۔ لہذا چاق و چوبند رہ کر اپنی بچی کی زندگی اور صحت کا خیال رکھیں۔ ”

آمنہ کی بیٹی کو جیسے ہی ٹیکہ لگا وہ رو رو کر ہلکان ہونے لگی۔ نرس نے سپرٹ لگی روئی ٹیکے کی جگہ پر رکھ کر آمنہ کے حوالے کردی آمنہ نے انگلی سے اس جگہ کو دبا دیا اور اپنی بیٹی کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ ایک ہاتھ روئی پر اور دوسرا ہاتھ بچی کے سر کے پیچھے۔ اس بار آمنہ بہت حوصلے سے اپنی بیٹی کو اٹھا کر گھر تک آئی اور دل ہی دل میں خوش بھی ہوئی کہ کم از کم وہ بیماریاں جن کا علاج ویکسینیشن میں ہے اب وہ تو اس کی بیٹی کو نہیں لگیں گی۔

اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی جہاد میں حصہ لے رہی ہے یا پھر کوئی بہت بڑا نیکی کا کام کر رہی ہے۔ گھر آئے ابھی کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ حمنہ کو تیز بخار نے آ گھیرا۔ آمنہ نے حمنہ کے کپڑے ہلکے کر دیے اور اس کی پانی پٹیاں کرنے لگی۔ ساتھ ہی ٹیکے کی جگہ پر برف سے ٹکور شروع کر دی۔ شام ہونے تک بچی کو کچھ افاقہ ہوا تو آمنہ نے اپنے شوہر کو فون کیا کہ وہ آ کر اسے گھر لے جائے۔ اس بار سب حیران تھے کہ آمنہ بالکل بھی پریشان نہیں ہے بلکہ بہادری اور خوش دلی سے اپنی بیٹی کو سنبھال رہی ہے۔ جیسے اسے شعور آ گیا تھا کہ ذرا سی تکلیف سہ لینے اور حوصلے سے انسان کن وباؤں اور بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments