’’پرنم‘‘ آنکھ : جاندار زندگی کی علامت


لفظ ’’سائنس‘‘ کو ہم لاہور کی گلیوں میں ’’بھینس‘‘ کے ہم قافیہ کی صورت ادا کیا کرتے تھے۔ یہ لفظ بولتے ہوئے اکثر یہ بھی کہا جاتا کہ اس علم نے بہت ترقی کرلی ہے۔ گزشتہ تین روز سے مجھے یہ فقرہ بہت یاد آرہا ہے۔

صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے بعد اپنے بستر پر دھرے اخبارات کے پلندے کو بہت غور سے پڑھ کر ردی والے سٹور بھیجنا ہوتا ہے۔ گزرے ہفتے کی جمعرات کے دن سے لیکن جب بھی کوئی اخبار اٹھاتا تو اس میں چھپے حروف ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوئے نظر آتے۔ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو دور کی نظر کو درست رکھنے والا چشمہ لگ گیا تھا۔ عمر گزرنے کے ساتھ شیشوں کا نمبر بڑھنا شروع ہوگیا۔ بعدازاں نزدیک کی نظر بھی کمزور ہوگئی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ایسی عینک لگاتا رہا ہوں جس سے دور اور نزدیک کی نظر بیک وقت توانا رہتی ہے۔ خیال آیا کہ شاید شیشوں کا نمبر بدل گیاہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مگر یاد آیا کہ فقط تین ماہ قبل ہی آنکھوں کا تفصیلی معائنہ کروانے کے بعد عینک بدلی تھی۔

بہرحال پیر کی صبح یہ کالم دفتر بھیجتے ہی اپنے عینک ساز کے ہاں چلا گیا۔ موصوف اپنے پیشے میں کامیاب ترین تصور ہوتے ہیں۔ مجھے تاہم بھائی کی صورت لیتے ہیں اور اپنے کسی ’’چھوٹے‘‘ کے حوالے کرنے کے بجائے بذاتِ خود میرے مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آنکھوں کے معائنے کے دوران ہم ایک دوسرے کے لئے پھکڑپن والے فقرے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔

پیر کی دوپہر لیکن میری آنکھوں کا معائنہ کرتے ہوئے وہ گھبرائے اور پریشان دِکھنا شروع ہوگئے۔ اپنے ہاں نصب مشینوں کو بار بار استعمال کیا۔ بالآخر ہچکچاتے ہوئے مجھے مطلع کیا کہ فی الوقت میرے لئے کوئی نئی عینک تیار نہیں ہوسکتی۔ انہیں شبہ تھا کہ میری آنکھوں پر ایک ایسا مرض حملہ آور ہوگیا ہے جس کی تشخیص اور علاج آنکھوں کا کوئی ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے۔ عینک ساز نہیں۔

انہیں حوصلہ دینے کو میں نے بہت اعتماد سے بڑھک لگائی کہ مجھے بخوبی علم ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آنکھوں میں موتیا اترآتا ہے۔ وہ جس ڈاکٹر پر اعتماد کرتے ہیں اس سے رابطے کے بعد وقت لے لیں۔ میں بروقت ان کے ہاں حاضر ہوجائوں گا۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

میری بات سن کر انہوں نے مزید پریشان ہوتے ہوئے اطلاع دی کہ وہ اس وجہ سے پریشان نہیں ہوئے جو میں نے تصور کیا ہے۔ انہیں شبہ ایک ایسے مرض کا ہے جس کا نام انگریزی کے حروف جی (G) سے ہوتا ہے۔ انہوں نے جو اصطلاح استعمال کی وہ مجھے یاد نہ رہی۔ مجھے اس کی اطلاع دینے کے بعد فوراَ موبائل فون پر کسی ڈاکٹر سے رابطہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔ بالآخر اعلان کیا کہ منگل کے روز ان کے ہاں گیارہ بجے پہنچ جائوں۔ آنکھوں کی بیماریوں کا ایک ماہر میرا ایک ایسا ٹیسٹ کرے گا جس کا بھی نام مجھے یاد نہیں رہا۔

میں گھر لوٹا تو میری بیوی نے احوال جاننا چاہا۔ اسے بتایا کہ عینک ساز کو کسی ایسے مرض کا شبہ ہوا ہے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ مگر  GL سے شروع ہوتا ہے۔ بیگم صاحبہ نے اپنے والد اور والدہ کی خاطر ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے بہت چکر لگائے ہیں۔ ترنت انہوں نے مشتبہ مرض کا نام لیا اور مجھ جاہل کو مزید بتایا کہ اسے ہمارے ہاں روزمرہ زبان میں ’’کالا موتیا‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ اندھے پن کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ میں ہرگز پریشان نہیں ہوا۔ بس اتنا کہتے ہوئے اپنے کمرے میں آگیا کہ کل پتہ چل جائے گا۔

کمرے میں آکر یہ کالم لکھنا تھا۔ اسے لکھتے ہوئے شاہ حسین یاد آگیا۔ جب وہ بڈھا ہوگیا۔ دانت جھڑنا شروع ہوئے تو خوش ہوا کہ تن کا ’’گڑ‘‘ ختم ہو رہا ہے۔ یہ ’’مکھیوں کی بھنبھناہٹ‘‘ سے نجات دلا دے گا۔ میرا تن ایسے ’’گڑ‘‘ کا حامل کبھی نہیں رہا جو ’’مکھیوں‘‘ کی بھنبھناہٹ سے دو چار کردیتا ہے۔ کئی مہینوں سے تاہم یہ فکر شدت سے لاحق ہوچکی ہے کہ ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔ دل پہ آ سکتا نہیں۔ ‘‘جو دیکھتا اور سنتا ہوں اسے کالم میں ہوبہو بیان کردینے کی جرأت اور سکت سے محروم ہوا احساس جرم میں مبتلا ہوچکا ہوں۔ نہایت ڈھٹائی سے یہ سوچتے ہوئے مطمئن ہوگیا کہ کالا موتیا نے اگر واقعتا دیکھنے،پڑھنے اور لکھنے کے ناقابل بنادیا تو دل ودماغ پر مسلسل بڑھتے اس بوجھ سے نجات مل جائے گی جو حقائق کو برجستہ بیان کردینے کی گنجائش کم تر ہونے کی وجہ سے نازل ہوا ہے۔

بالآخر تمام تر ٹیسٹ اب مکمل ہوگئے ہیں۔ یک سطری نتیجہ ان کا یہ ملا ہے کہ ’’اجے قیامت نئیں آئی‘‘مسئلہ سنگین ہے۔ اس کا علاج مگر میسر ہے اور اس کے لئے فی الوقت کسی پیچیدہ آپریشن کی ضرورت نہیں۔ چند دوائیوں اور آنکھ میں ڈالنے والے قطروں سے میرا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ’’داغ‘‘ کو گویا حقائق ہوبہو بیان نہ کرنے کے مزید ’’صدمے‘‘‘ برداشت کرنا ہوں گے۔ ’’بندہ نواز‘‘ کو مگر خبر تک نہ ہوگی۔ وہ مصر رہیں گے کہ پاکستان کا میڈیا برطانیہ سے بھی زیادہ آزاد ہے۔ ہمارے ہاں سو کے قریب آزاد وخودمختار ریڈیو اور ٹی وی نیٹ ورک ہیں۔ جو افراد ان کے لئے کام نہیں کرتے وہ ’’صحافی‘‘ نہیں۔

ٹی وی سکرینوں پر نظر نہ آنے والے افراد کو ’’غیر صحافی‘‘ ان صاحب نے شمار کیا ہے جو علم ابلاغ کے حتمی ماہر بھی جانے جاتے ہیں۔ ہمارے کئی نامور صحافیوں سے ان کی ذاتی دوستیاں بہت پرانی اور گہری ہیں۔ ان کے صحافی مداح انہیں ’’ملا‘‘ کے مقابلے میں ’’روشن خیالی‘‘ کی بھرپور علامت بھی ٹھہراتے ہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہنر ابلاغ کے حتمی ماہر تصور ہوتے ہوئے ہمارے ’’بندہ نواز‘‘ نے “Citizen Journalism”والی اصطلاح بھی سن رکھی ہوگی۔

حال ہی میں بیلاروس کے مردِ آہن نے یونان سے کسی اور ملک پرواز کرنے والے ایک طیارے کو فوجی طیارے بھیج کر اپنے ملک لینڈ کرنے کو مجبور کیا ہے۔ اس طیارے میں ایک 26سالہ نوجوان بھی سوار تھا۔ وہ بیلا روس میں میسر کسی ٹی وی چینل کی سکرین پر رونما نہیں ہوتا تھا۔ پولینڈ میں بیٹھا انٹرنیٹ پر موجود Telegram نامی ایک App کے ذریعے بیلا روس کے حقائق عیاں کرتا ہوا ٹی وی چلاتا تھا۔ اسے اب ’’غداری‘‘ اور ’’تخریب کاری‘‘ کے الزاات کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔

یورپی یونین اس کی گرفتاری سے چراغ پا ہوگئی ہے۔ اس میں شامل ممالک کے طیارے اب بیلا روس پرواز نہیں کریں گے۔ بیلا روس کے مسافر طیارے بھی یورپی ممالک میں لینڈ نہیں کرسکتے۔ بیلا روس میں میسر ٹی وی سکرینوں پر کہیں بھی نظر نہ آنے والے ’’غیر صحافی‘‘ نے گویا تھرتھلی مچادی ہے۔ ربّ کا صدشکر کہ ہمارے ہاں جو ’’صحافی‘‘ اپنے نشریاتی اداروں پر مالی بوجھ ثابت ہوتے ہوئے روایتی میڈیا کی سکرینوں سے غائب ہوجاتے ہیں تو ا پنے وطن میں بیٹھ کر ہی یوٹیوب کے ذ ریعے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ مجھ جیسے ’’غیر صحافی‘‘ اگرچہ لکھنے کی علت کی بدولت قلم گھسیٹ رہے ہیں۔

میری بصارت کو جو مسئلہ لاحق ہوا اس کا حل فی الوقت میسر ہے۔ جدید مشینوں اور کسی مرض کی تشخیص کی خاطر ہوئی تحقیق نے البتہ مجھے یقین دلایا ہے کہ سائنس نے واقعتا بہت ترقی کرلی ہے۔ میرے تفصیلی معائنے کے بعد آنکھوں کے میرے مرض کا بنیادی سبب Self Confinementیعنی رضا کارانہ اختیار کردہ گوشہ نشینی کو ٹھہرایا گیا۔ میرے چہرے پر ٹیسٹ اور ڈاکٹر سے گفتگو کے دوران کرونا سے محفوظ رکھنے والا ماسک چڑھا تھا۔ میرانام اور پیشہ اس ڈاکٹر کے علم میں نہیں تھا۔ رضا کارانہ ا ختیار کردہ گوشہ نشینی کے علاوہ موصو ف نے کتابوں اور اخبارات کے مطالعے سے بڑھ کر سوشل میڈیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو بھی بصارت کمزور کرنے کا سبب ٹھہرایا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اسے میرے روزمرہ احوال کا کامل علم ہے۔

موبائل فون کمپیوٹر اور ٹی وی سکرینوں سے جو شعاعیں پھوٹتی ہیں وہ بصارت کو کمزور بناتی ہیں۔ ان کی وجہ سے بتدریج آنکھوں کی نمی خشک ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ آنکھ پر نم نہ رہے تو پلکیں بہت کم جھپکتی ہیں۔ یوں بصارت کا قدرتی نظام کمزور تر ہوتا ہے۔ میرے ڈاکٹر کو اصل فکر یہ لاحق تھی کہ عموماََ 60 سال کی عمر گزرنے کے بعد ہی بصارت سے متعلق مسائل انسانوں کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان دنوں مگر 45سال سے کم عمر والوں کی بے تحاشہ تعداد بھی ویسے ہی مسائل لے کر آنکھوں کے ماہرین سے رجوع کرنا شروع ہوگئی ہے۔ جن کی بدولت میرا ان سے تعارف ہوا تھا۔

اپنے ذاتی تجربے کی بدولت لہٰذا نوجوان قارئین سے دست بستہ التجا کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ سوشل میڈیا کو بھی ’’نشے‘‘ میں شمار کریں۔ دانستہ کوشش کریں کہ آپ اس کے ’’عادی‘‘ نہ ہوجائیں۔ وقت نکال کر درختوں سے دوستی بڑھائیں۔ اگر ممکن ہو تو سورج طلوع ہونے سے چند لمحے قبل کھلی فضا میں اڑتے پرندوں کو دیکھیں۔ علی الصبح اٹھنا ممکن نہ ہو تو غروب آفتاب کے وقت مندرجہ بالاترکیبیں استعمال کریں۔ آپ کی آنکھ یوں ’’پرنم‘‘ رہے گی۔ آنکھ کا ’’پرنم‘‘ رہنا محض ’’غم‘‘ نہیں زندگی کی جاندار علامت ہے۔ یہ آپ کو رضا کارانہ اختیار کردہ تنہائی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

بشکریہ: نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments