جوہی چاولہ کی فائیو جی ٹیکنالوجی کے خلاف درخواست: ’لال لال ہونٹوں پر گوری کس کا نام ہے‘



دلی ہائی کورٹ میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے معاملے پر بالی ووڈ اداکارہ جوہی چاولہ کی درخواست پر سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
بدھ کے روز اس درخواست کی کووڈ کی وبا کے باعث ورچوئل سماعت ہوئی اور جوہی چاولہ نے اس کا لنک اپنے انسٹاگرام پر بھی شیئر کیا۔ لیکن دوران سماعت ایک عجیب بات ہوئی اور عدالتی کارروائی کے دوران کسی کے گانا گانے کی آواز آنے لگی۔
یہ گانا جوہی چاولہ کی سنہ 1995 کی فلم ’ناجائز‘ سے تھا، جس کے بول کچھ یوں ہیں ’لال لال ہونٹوں پر گوری کس کا نام ہے۔‘
یہ گانا عین اس وقت سنا گیا جب جوہی چاولہ کے وکیل دیپک کھوسلا فائیو جی ٹیکنالوجی کے خلاف عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کر رہے تھے۔
تقریباً آٹھ سیکنڈ کی اس گائیکی کے بعد جج جے آر مدھا نے عدالتی عملے کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کو ورچوئل عدالت کی کارروائی سے باہر نکال دیں۔ انھوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ گانا گانے والا شخص کون ہے؟
اس کے بعد گانے کی آواز رک گئی اور عدالتی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی لیکن تقریباً چھ منٹ کی کارروائی کے بعد ہی جب وکیل دیپک کھوسلا ایک بار پھر فائیو جی ٹیکنالوجی کے خلاف اپنے دلائل پیش کر رہے تھے تو پھر سے گانے کی آواز آئی۔
اس بار یہ گانا جوہی چاولہ کی ایک اور فلم ’آئینہ‘ سے تھا، جس کے بول کچھ یوں ہیں ’میری بنوں کی آئے گی بارات۔‘
جب کارروائی میں ایک بار پھر خلل پڑا تو جج میدھا نے عدالتی کارروائی میں خلل پیدا کرنے والے شخص کی شناخت کے بعد اسے نوٹس بھی جاری کر دیا۔


جج نے عدالتی عملے کو دلی پولیس کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے بھی رابطہ کرنے کو کہا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
بی بی سی نے اس معاملے میں دلی ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل منوج جین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔
واضح رہے کہ جوہی چاولہ نے انڈیا میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف دلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ درخواست گزاروں میں جوہی چاولہ کے علاوہ وریش ملک اور ٹینا واچانی بھی شامل ہیں۔
اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مواصلاتی کمپنیوں نے فائیو جی نیٹ ورکس کی تنصیب سے متعلق جن منصوبوں کا اعلان کیا ہے ان کے انسانوں اور ماحول پر سنگین اور ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوں گے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت سرکاری ایجنسیوں کو تحقیقات کا حکم دے اور معلوم کیا جائے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کے انسانی صحت پر کس قسم کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
دوران سماعت جوہی چاولہ کی فلموں کے گانوں پر سوشل میڈیا پر ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔
انڈین کامیڈین کنال کمرا نے لکھا: ’جوہی چاولہ کے گانوں کو انڈین عدلیہ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ قرار دیا جائے گا۔‘
سدپتا نامی صارف نے لکھا: ’کوئی نیند نہیں۔ آج میں جوہی چاولہ کے گانے سن رہی ہوں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’جوہی چاولہ اور گانا گانے والے شخص دونوں ہر توہین عدالت کا کیس چلانا چاہیے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ جوہی چاولہ نے ہی عدالت کی سماعت کا لنک اپنے انسٹاگرام پر شیئر کیا تھا۔

جوہی چاولہ کی موبائل ٹاورز کی تابکاری سے متعلق تشویش کوئی نئی بات نہیں بلکہ دس برس پرانی ہے۔
سنہ 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملابار ہل کی رہائشی جوہی چاولہ نے اپنے گھر سے 40 میٹر کی دوری پر واقع ساہدیری گیسٹ ہاؤس میں نصب 16 موبائل فون ٹاورز کے صحت پر اثرات سے خاصی پریشان تھیں اور جب انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی کے ایک پروفیسر نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ جوہی چاولہ کے مکان کا ایک بڑا حصہ مبینہ طور پر ’غیر محفوظ‘ تھا۔
یوٹیوب پر ایک پریزینٹیشن میں جوہی چاولہ یہ بتاتی ہیں کہ وہ فون کے ٹاورز کے بارے میں کتنی فکر مند تھیں اور اسی لیے انھوں نے اپنے گھر کے گرد تابکاری کی سطح کو جانچنے کے بارے میں سوچا اور تحقیقاتی رپورٹ دیکھنے کے بعد ان کی تشویش مزید بڑھ گئی۔
واضح رہے کہ فائیو جی نیٹ ورک امریکہ، یورپ، چین اور جنوبی کوریا جیسے دنیا کے بہت سے ممالک میں استعمال ہو رہا ہے جبکہ انڈیا میں بھی فائیو جی ٹرائلز پر کام جاری ہے۔
فائیو جی انٹرنیٹ کی رفتار کو بہت تیز بناتا ہے اور اسے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلابی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے مصنوعی ذہانت اور بنا ڈرائیور کار جیسی ٹیکنالوجی کو مزید ترقی میں مدد ملے گی۔
لیکن دنیا کے بہت سارے حصوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ فائیو جی کے بنیادی ڈھانچے سے تابکاری میں اضافہ ہوتا ہے جو کینسر جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس ان افواہوں کے بعد کے فائیو جی ٹاور کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب ہیں برطانیہ میں چند فائیو جی ٹاورز کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
ایسی ہی افواہیں انڈیا میں بھی سامنے آئی تھیں جس کے بعد حکومت کو وضاحت دینا پڑی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp