ملالہ بیٹا! مشرقی روایات بھول گئیں


ہمارے ہاں قومی مزاج کو جاننے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چینلز کے مشہور اینکرز اب اپنے یوٹیوب چینلز سے ہر وہ بات کرتے ہیں، جو بہت دور تک جائے اور دیر تک زباں پر رہے پچھلے دنوں ایک یوٹیوبر نے روس کا حوالہ دے کر اپنی آواز میں سنسنی پیدا کرتے ہوئے خبر دی کہ کرونا کا علاج تو ڈسپرین سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ چند گھنٹوں میں یوٹیوبر کی مراد پوری ہو گئی اور اس ویڈیو کے ویوورز کی تعداد لاکھوں میں جا پہنچی۔ اگلے روز تک یہ ویڈیو مطلوبہ مقاصد پورے کر چکی، تو موصوف نے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کیے بغیر اپنی نئی ویڈیو میں اس گمراہ کن خبر پر معذرت کر لی۔

لفافہ پکڑنے والی اصطلاح ہم صحافیوں کے لیے بڑے دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن من گھڑت جھوٹی خبروں کی ویڈیوز کی ریٹنگ بڑھا کر مالی مفادات سے لفافے بھرنے والے صحافیوں کو ہم کیا کہیں گے۔ اب پھر دو نمبر اخبار کی طرح دو نمبر ولاگرز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا دانشوروں کو ملالہ کے بیان کی صورت سنسنی اور ریٹنگ بڑھا کر کمائی کا ذریعہ ہاتھ آیا ہے۔

زندگی میں اگر کوئی بڑا مقصد ہو تو شادی کا بندھن اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ محسوس ہوتا ہے۔ خواتین پر یہ ذمہ داری دگنی ہو جاتی ہے۔ سماجی جبر اور خاندانی مجبوریوں کے سامنے بہت سی خواتین ہتھیار ڈال دیتی ہیں، لیکن کئی سماج کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں، اور چہ مگوئیوں پر کان نہیں دھرتیں۔ کسی عورت کا اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور شادی نہ کرنے کے فیصلے کا اعلان کا مطلب قومی، تہذیبی، مذہبی، خاندانی اور رسمی روایات کی پاسداری سے انکار لیا جا تا ہے۔ شادی سے انکاری عورت کا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ اب ہر شخص کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے ہاں ایسے مردوں کی لاتعداد مثالیں ہیں جنہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی، ان کردار پر انگلی تو کیا اٹھتی بلکہ ان کے اس اقدام کو سراہا گیا۔

بابائے اردو مولوی عبدل الحق اردو کی ترقی کے لیے رات دن کوشاں تھے، شادی کے موضوع سے پیچھا چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن گھر والوں نے انہیں نکاح کے بندھن میں باندھ ہی دیا۔ مگر دلہن کے پلو سے نہ بندھ سکے اور پہلی رات ہی گھر سے فرار ہو گئے۔ اس قصے کو بابا کی اردو زبان کی ترقی میں ایک ایثار کے طور پر یاد کیا جا تا ہے۔ سوچیں اگر یہ ہی ایثار کوئی عورت کرتی؟

ہمارے ہاں کتنی ہی لڑکیوں کی آگے پڑھنے کی خواہش کا گلہ گھونٹ کر انہیں سسرال دیا سدھار دیا جا تا ہے۔ اور کتنی ہی لڑکیاں گھر بسانے کی خواہش لیے دنیا سدھار جاتی ہیں۔ لیکن یہاں بھی دین اور تہذیب کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

شیخ رشید کے شادی نہ کرنے کے بارے میں ذومعنی مسکراہٹ کے ساتھ غلیظ جملے ہمارے قومی مردانہ مزاج کے عکاس ہیں۔ اس لیے کہیں سے کوئی طوفان اٹھتا ہے نہ دھواں دکھائی دیتا ہے۔ اچھا یہ بھی بڑی عجیب بات ہے ایک عورت کتنی ہی ذہین عقلمند، با اختیار، طاقتور یا دانشور کیوں نہ ہو۔ اس کا جو من چاہے کرے، مگر شرفا کے گھرانے کی عورتیں زبان بند رکھتی ہیں۔ ملالہ بیٹا! پاکستان سے گئے ہوئے دیر ہو گئی تمہیں، مشرقی روایات بھول گئیں، ہمارے ہاں بہو بیٹیاں زبان نہیں کھولتیں، بس کر گزرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments