فن لینڈ کے بہترین نظام تعلیم کی ”خفیہ ترکیب“ کیا ہے؟


پاکستان میں اپنی بہن کی بہو مہوش سے بات ہو رہی تھی۔ جو روزانہ کی بنیاد پہ زوم پہ اپنے تین بچوں کے ساتھ تعلیمی دنگل سے نبٹتی ہیں۔ وہ تعلیم کہ جس نے وبا کے دور میں انہیں اور ان جیسی بہت سی ماؤں کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ بچوں کو روزانہ کا سبق پڑھانا اور پھر ان کو امتحانوں کے لیے تیار کرنا تاکہ دوسرے بچوں کے مقابلہ میں ان کی اولاد کا شمار بہترین گریڈز حاصل کرنے والوں میں ہو کوئی مذاق بات نہیں۔ مہوش کا کہنا ہے کہ ان کے 6 اور 9 سال کی عمر کے دو بچے تو ان کی کی محنت، رعب اور ڈانٹ پھٹکار کی وجہ سے باعزت طریقے سے امتحان سے نبرد آزما ہوچکے ہیں لیکن معاملہ تین سال والے من موجی مجتبیٰ پہ اٹک گیا ہے۔ کیا مجال ہے جو وہ کسی کے رعب میں آ کر اپنی مرضی کے خلاف کچھ بھی رٹ لیں کہ جس کی جانچ کی بنیاد پہ انہیں اگلے درجہ میں ترقی ملے اور ان کے ناکام ہونے کا مطلب ہے مزید ایک سال کی بھاری بھرکم ماہانہ فیس اسی کلاس کے لیے، کہ جس کی ادائیگی کی تلوار کا خوف مارے دے رہا ہے کیونکہ ان کی ایک ماہ کی فیس ملک کے کسی غریب آدمی کی ماہانہ آمدنی کے لگ بھگ ہے۔ چونکہ یہ بات ہو رہی ہے ملک کے ”نامی گرامی“ اسکولوں میں سے ایک کی۔ یہ وہ تعلیمی ادارے ہیں جو مراعات میں سرکاری تعلیمی درسگاہوں کا تضاد اور اعلیٰ اسٹیٹس کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح ملک میں مراعات یافتہ اور محروم طبقہ میں ظالمانہ حد تک طبقاتی فرق کو مزید سے مزید سے مزید بڑھانے میں معاونت بھی کر رہے ہیں۔ گو ایسے اداروں کے قیام کے بھی بہتیرے عوامل ہیں اور کوئی بات سیاہ اور سفید میں نہیں ڈالی جا سکتی اس پہ بحث مزید گہری اور گمبھیر ہو جائے گی لہٰذا بہتر ہے کہ اس کی تفصیل پہ ڈھیروں صفحہ کالے کرنے کے بجائے کیوں نہ ہم اصل موضوع پہ آ جائیں اور وہ ہے فن لینڈ کا بہترین تعلیمی نظام۔

آئیے جانتے ہیں کہ آخر دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں بھلا ایسی کیا بات ہے کہ وہاں کے بچوں کے بین الاقوامی سطح پہ ہونے والے امتحان کے نتائج مغربی دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں سب سے نمایاں ہیں۔

1۔ ایٹم بم کے بجائے بہترین نظام تعلیم کو ہتھیار بنانے کے لیے قوم کی یکجائی:

فن لینڈ دوسری جنگ عظیم سے قبل بنیادی طور پہ ایک زراعت پہ مبنی سماج تھا۔ جنگ کی تباہ کاریوں نے معیشت پہ منفی اثر ڈالا تو جہاں طبقاتی نظام مضبوط ہوا وہاں آبادی کا گراف بھی تیزی سے بڑھا اور ساتھ ہی اکثریتی متوسط طبقے کے مطالبے نے بھی زور پکڑ لیا کہ سماجی حیثیت خواہ کچھ بھی ہو تعلیم تک رسائی ملک کے ہر بچے کا حق ہونی چاہیے۔ مطالبہ اہم تھا لہٰذا ہر زندہ قوم کی طرح پارلیمانی سطح پہ سن 1968 میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پہ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے سات سے سولہ تک کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کا مربوط نصاب بنایا۔ جو ماہرین تعلیم کی کئی سال کی تحقیق کا نتیجہ تھا اور اس کا معیار سب کے لیے یکساں تھا۔ جب قوم ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیم ایٹم بم اور جنگی ہتھیاروں کے مقابلے میں مضبوط تر ہتھیار نہ بنے۔

2۔ ”جب ستون مضبوط ہو تو عمارت بھی مضبوط ہوتی ہے“ کے مصداق حکومت کی جانب سے ہر حاملہ عورت کے خاندان کو ہونے والے بچے کے لیے ”بے بی بوکس“ (baby box) دیا جاتا ہے جس میں ایک سال تک بچے کے استعمال کی ضروری اشیاء ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ماں کو چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ پوری تنخواہ ملتی ہے۔ اس کے بعد ماں یا باپ میں سے جو بھی چھٹی لینا چاہے اسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔

3۔ ڈے کئیر (بچوں کی نگہداشت کے ادارے ) کا انتظام اور حکومت کی اعانت۔

اگر والدین ڈے کئیر بھیجنے کا فیصلہ کریں تو حکومت بچوں کی نگہداشت کا انتظام کرتی ہے۔ ہر بچہ کے خرچے کے لیے 4000 ڈالرز سالانہ تک حکومت کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں۔ حکومت اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ نگہداشت کرنے والا عملہ کی کم ازکم بیچلرز کی تعلیم ہو تاکہ نگہداشت اور تربیت اعلی سطح کی ہو۔ پری اسکول وہ جگہیں ہرگز نہیں کہ جہاں بچے ”پھینک“ دیے جائیں۔ اس کے برعکس یہاں بچوں کو قوم کے مستقبل کا سرمایہ سمجھ کر پیار، توجہ اور احترام سے رکھا جاتا ہے۔ اس کی صحت اور گھر کی ذمہ داری بھی حکومت ہی کے سر ہے۔

4۔ اسکول کے اساتذہ کے لیے بہترین لوگوں کا انتخاب:

عموماً ہر سماج میں ذہین بچوں کو ان شعبوں زبردستی دھکیل دیا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی وجہ سے سماج میں اعلی مرتبہ کا حامل ہوں۔ مثلاً ڈاکٹر، بزنس مین، کمپیوٹر پروگرامرز، انجینئیرز وغیرہ۔ زر کو پوجنے والے ایسے سطحی سوچ کے سماج میں استاد کا درجہ نچلی سطح پہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فن لینڈ کے سماج میں استاد کا درجہ ہر اعتبار سے سب سے بلند ہوتا ہے۔ اس شعبہ میں داخل ہونا آسان نہیں کم ازکم ایم ایس کی ڈگری اور تدریس شروع کرنے سے پہلے لمبی مدت کا تربیتی کورس جو ملازمت کے ساتھ بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ مقصد یہ کہ استاد کی تعلیم اور تربیت جامع ہو اور جاری رہے۔ اسی لیے استاد کا چناؤ بہت مراحل اور دیکھ بھال کے بعد ہوتا ہے اور پھر اساتذہ کے کام میں کسی دخل اندازی کے بغیر انہیں اپنے انداز سے تدریس کا اختیار پورے اعتماد کے ساتھ دیا جاتا ہے۔

5۔ اسکول سات سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔

فن لینڈ کی تعلیمی تحقیق کے مطابق بچوں کو سات سال کی عمر سے پہلے داخل کرانا ان کی قدرتی نشو و نما میں حارج ہے اور جلدی داخل کرنے کی کوئی سائنسی توجیہہ بھی نہیں ملتی۔ سات سال سے پہلے ڈے کئیر اور پری اسکول میں ان پہ روایتی تعلیم اور زبردستی لکھنے پڑھنے کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا بلکہ وہاں ان کا محور ”تخلیقی کھیل“ ہوتا ہے۔ بقول ایک استاد کے ”اس وقت وہ کھیلیں اور جسمانی طور پہ مستعد رہیں کہ یہ ان کا تخلیقی کاموں کا وقت ہے۔ اس وقت محض کھیل اور جسمانی حرکات کی مدد سے تجرباتی طور پہ وہ کھیل کھیل میں سیکھتے ہی رہتے ہیں۔ جب تک کہ وہ خود اپنے شوق کا اظہار نہ کریں ان کا پڑھنا اور لکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔“ بقول ایک استاد ”ہم کسی جلدی میں نہیں“ ۔ بچے اس وقت زیادہ سیکھتے ہیں جب وہ تیار ہوں۔ ”سارا زور اس پر ہے بچے کس طرح خوش رہیں اور انہیں اتنی طاقت اور توانائی ملے کہ وہ اپنے لیے خود سوچ سکیں۔ تعلیم میں مزا، کھیل اور تفریح کے حوالے سے فن لینڈ کی کہاوت ہے کہ“ جو چیز آپ مزے کے بغیر سیکھتے ہیں وہ آپ آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ”

6۔ اسکول کے ابتدائی چھ سالوں تک بچوں کا ایک ہی استاد ہوتا ہے۔ جو مضبوط ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ سال بہ سال استاد اور طالب علم کے تعلق بڑھنے کے ساتھ اعتماد اور عزت بڑھتی جاتی ہے۔ کلاس میں حساب، سائنس اور ریڈنگ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے بجائے صحت مندانہ تعلق اور ہم آہنگی والی فضا پہ زور دیا جاتا ہے۔ اس سے سماج میں مساوات بڑھتی ہے۔ کیونکہ ہر کلاس میں مختلف ذہنی و سماجی سطح کے لوگ ہوتے ہیں۔

7۔ فن لینڈ میں کوئی پرائیویٹ اور بہترین منتخب اسکول نہیں۔ ہر ایک کو یکساں مربوط نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اسکولوں میں مقابلے کی فضا اور داخلہ کی دوڑ نہیں۔ تعلیم یکساں اور مفت ہے۔ اچھے اور برے اسکول کے مقابلے اور اسکول میں داخلے کے لیے بزنس یا ”مارکیٹ پلیس“ کا آئیڈیا یہاں نہیں کام کرتا۔ امیر اور غریب ہر علاقے میں ایک سی تعلیم اور یکساں معیار ہے۔ جو نہ صرف طلباء بلکہ اسکولوں کے درمیان فرق کو کم کرتا ہے۔ والدین اساتذہ اور حکمراں ہر ایک ہی مل کر اسکول کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں۔

9۔ مفت کھانا۔ فن لینڈ کے تمام اسکولوں میں تعلیم کے نو سالوں تک صحت بخش کھانا بالکل مفت ملتا ہے۔

10۔ ہوم ورک کا بوجھ نہیں۔ پوری دنیا کے مقابلے میں یہاں بچوں کو ہوم ورک سب سے کم ملتا ہے۔ بمشکل دس سے پندرہ منٹ کا۔ زیادہ تر کام اسکول میں ختم ہوجاتا ہے۔ جو انہیں خوش و خرم اور ذمہ دار بناتا ہے۔

11۔ اسکول کے مناسب اوقات۔ اسکول دیر سے (آٹھ یا نو بجے ) شروع ہوتے اور دو بجے ختم ہو جاتے ہیں اور ہر پینتالیس منٹ کی تعلیم کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔

12۔ تدریس کے اوقات۔ اساتذہ کلاس روم میں چار ہی گھنٹے گزارتے ہیں۔ ہر ہفتہ دو گھنٹے ان کی پیشہ ورانہ نشو و نما کے لیے وقف ہیں۔ مثلاً اگر امریکہ میں اساتذہ 180 ایک سو اسی تعلیمی دنوں میں 1 0 80 گھنٹے کلاس میں گزارتے ہیں تو فن لینڈ میں اساتذہ کے کل 600 گھنٹے کلاس میں گزرتے ہیں۔

13۔ کوئی اسٹینڈرڈایزڈ ٹیسٹنگ نہیں۔ امریکہ کی طرح فن لینڈ میں اسٹینڈرڈایزڈ ٹیسٹنگ نہیں ہوتی۔ ان ٹسٹنگ کی بنا پہ امریکہ میں، بالخصوص غریب علاقوں کے اسکولوں کی فنڈنگ روک کے اسکول ہی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ جو ایک مجرمانہ عمل ہے۔ اس کے برعکس فن لینڈ کے تعلیم دان کہتے ہیں کہ ”ہم ان کے ٹسٹ رزلٹ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم یہاں اس لیے نہیں ہیں۔“ والدین بھی پریشان نہیں رہتے کہ فلاں کے مقابلے میں ان کا بچہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہا۔

14۔ اساتذہ کی کارکردگی کی پرکھ نہیں ہوتی۔ اساتذہ کو گریڈ یا مستقل ان کی کارکردگی کو پرکھا نہیں جاتا۔ اگر کوئی استاد اطمینان بخش کام نہیں کر رہا ہوتا ہے تو یہ اسکول کے پرنسپل کی ذمہ داری ہے کہ معاملہ سے کس طرح نپٹنے۔ اور کارکردگی کو بہتر کرے۔

15۔ اسکولوں کے معائنہ متروک۔ اسکولوں کے معائنے کا سلسلہ 1990 کی دہائی سے ختم ہو گیا ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مالیاتی اعانت سے براہ راست اپنی جانچ اور مدد کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اسکولوں کو بند کرنے کے بجائے ان کو مدد دی جاتی ہے۔

16۔ طلبا میں مختلف زبانیں سیکھنے کا رجحان۔ طلباء کم ازکم چار زبانیں سیکھتے ہیں۔ پہلے دن سے فنش یعنی اپنی زبان، نو برس کی عمر سے سوئیڈش، گیارہ سال کی عمر سے انگریزی اور تیرہ سال کی عمر سے کوئی چوتھی زبان۔ تاہم امتحان صرف دو زبانوں سے ہوتا ہے۔

17۔ خاص بچوں کے لیے خصوصی مدد۔ طلباء کو ان کی خاص انفرادی ضرورت کی بنیاد پہ تعلیمی سپورٹ کا اہتمام ہوتا ہے۔ جو کسی بھی لحاظ سے کمزور یا اسپیشل بچوں کی مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسکول میں ایک ویلفیر ٹیم ہوتی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے حصول لیے کام کرتی ہے۔ اسکول میں آرٹ، کرافٹ، موسیقی، اخلاقیات اور جسمانی ورزش پہ خاص زور دیا جاتا ہے۔

18۔ بین الاقوامی امتحان میں بہترین کارکردگی۔ فن لینڈ میں اسکول نو سال تک کا ہوتا ہے اور اس وقت طالبعلم سولہ سال کے ہوتے ہیں۔ اس سال البتہ انہیں ایک نیشنل میٹریکولیشن کے امتحان میں بیٹھنا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ ان کا بین الاقوامی سطح کا PISA یعنی (پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) کا امتحان ہوتا ہے۔ جو حساب، ریڈنگ اور سائنس سے لیا جاتا ہے۔ جس میں فن لینڈ کے طلباء کی کارکردگی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت نمایاں اور متاثر کن ہے۔

اس تعلیم کے بعد ان کی مرضی ہے کہ وہ آگے پڑھیں یا نہیں۔ تاہم بچوں میں اعلی سطح پہ تعلیم کا رجحان نوے فی صد سے زیادہ ہے۔

آج فن لینڈ میں خواندگی کی شرح تقریباً سو فی صد، غربت کی شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فی صد ہے جبکہ خوشیوں کی اعتبار سے اس کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پہ ہے۔

اس طرح تعلیمی مساوات، ذرائع تک رسائی اور طلباء میں تخلیقی سوچ، تنقیدی انداز فکر، ایک دوسرے سے ربط اور تعاون کی بہترین تربیتی فضا والے نظام تعلیم نے فن لینڈ کو دنیا میں ایک ماڈل ملک کی حیثیت دے دی ہے۔ کاش ہم بھی کچھ بھی اس مثالی ملک سے سیکھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments