انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بی جے پی قائدین پر حملے کیوں بڑھ رہے ہیں؟


 

بے جے پی کے قتل ہونے والے رہنما

بدھ کے روز جموں و کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کونسلر راکیش پنڈتا کو قتل کر دیا گیا۔ کشمیر پولیس نے بتایا کہ راکیش سومناتھ پنڈتا کو بدھ کی شام دیر گئے پلوامہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے پولیس ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کی شام دیر رات جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کونسلر راکیش پنڈتا اپنے دوست سے ملنے کے بعد پلوامہ کے ترال علاقے میں پہنچے تھے۔رات دس بجے کے قریب تین نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس حملے میں راکیش پنڈتا بری طرح زخمی ہوئے اور بعد ازاں ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

پولیس ترجمان کے مطابق ’پنڈتا کو پولیس تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ہمیشہ دو ذاتی سکیورٹی اہلکار موجود تھے۔ انھیں سری نگر میں رہنے کے لیے محفوظ رہائش بھی دی گئی تھی۔‘

بتایا جارہا ہے کہ واقعے کے وقت پنڈتا سکیورٹی کے عمل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی حفاظتی افسران کے بغیر جنوبی کشمیر میں آباد اپنے آبائی گاؤں گئے تھے۔

راکیش پنڈتا

نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے راکیش پنڈتا بری طرح زخمی ہوئے اور بعد ازاں ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑگئے

جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا، پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی اور جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون سمیت متعدد جماعتوں کے رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ ’پلوامہ کے علاقے ترال میں کونسلر راکیش پنڈتا پر شدت پسندوں کے حملے کی خبر سے مجھے رنج ہوا۔ اس واقعے کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔ انتہا پسند اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘

اس واقعے کے بعد قائدین کو دیے گئے حفاظتی انتظامات کے بارے میں دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کے بیشتر رہنماؤں کے لیے سری نگر میں محفوظ رہائش کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں کشمیر میں بہت سارے رہنماؤں خصوصاً بی جے پی قائدین پر حملہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، پنچوں اور سرپنچوں کے قتل کے بھی بہت سے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔


جولائی 2020 – وسیم باری کا قتل

22 جولائی 2020 کو بی جے پی کے سابق ضلعی صدر شیخ وسیم باری، ان کے والد اور بھائی کو کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں مشتبہ شدت پسندوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

حملہ شام کو اس وقت ہوا جب یہ تینوں اپنے گھر کے قریب اپنی دکان میں تھے۔

کشمیر زون پولیس کے مطابق شدت پسندوں نے بی جے پی کارکن وسیم احمد باری پر فائرنگ کی۔ اس واقعے میں 38 برس کے باری، ان کے والد 60 برس کے بشیر احمد اور 30 برس کے ان کے بھائی عمر بشیر زخمی ہوئے تھے۔ بعد میں تینوں کی موت ہو گئی۔

بانڈی پورہ کے چیف میڈیکل آفیسر بشیر احمد کے مطابق تینوں کے سر میں گولی لگی تھی۔

https://twitter.com/DrJitendraSingh/status/1280903098962067457

بی جے پی نے وسیم باری کے قتل کو کشمیر میں قوم پرست آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیا۔

اکتوبر سنہ 2020 میں بی جے پی کے تین کارکن فدا حسین یاٹو، عمر سنگھ راشد اور عمر رمضان حجام ایک شدت پسند حملے میں مارے گئے تھے۔

شام کے وقت کلگام کے وائی کے پورہ علاقے میں ان کی کار پر حملہ ہوا، جس میں تینوں ہی دم توڑ گئے۔

اگست 2020 میں بڈگام میں بی جے پی کارکن عبدالحمید نزار کو نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ عبدالحمید کو زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن بعد میں ان کی موت ہو گئی۔

ان کی موت سے کچھ دن پہلے سجاد احمد کھنڈے نامی ایک سرپنچ اور بی جے پی کارکن کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔


مئی 2019 – گل محمد میر کا قتل

گل محمد میر عرف اٹل جی کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے نوگام میں قتل کیا گیا تھا۔ 4 مئی کی صبح 10 بجے کے قریب وریناگ میں بندوق برداروں نے قریب سے ہی ان پر فائرنگ کر دی۔

60 برس کے گل محمد اننت ناگ میں بی جے پی کے ضلعی صدر تھے۔ انھوں نے سال 2008 اور 2014 میں ڈورو اسمبلی حلقہ سے بھی الیکشن لڑا تھا۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق عہدیداروں نے بتایا کہ انھیں پانچ گولیاں لگی، انھیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ بچ نہ سکے۔

https://twitter.com/narendramodi/status/1124876395945971712

وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی موت پر غم کا اظہار کیا اور لکھا ’میں جموں وکشمیر بی جے پی کے رہنما گل محمد کے قتل کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ پارٹی کو مضبوط بنانے میں ان کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ملک میں ہونے والے تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔‘

گل محمد میر کے دونوں بیٹے ابھی بھی پارٹی کے ساتھ ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا شکیل احمد سری نگر پارٹی کے دفتر میں کام کرتا ہے۔

اپنے والد کی موت کے بعد شکیل نے بی بی سی کو بتایا ’اگر میرے والد کو سکیورٹی فراہم کی جاتی تو وہ بچ جاتے، ہم نے پولیس افسران کو یہ بات پہنچائی تھی لیکن انھوں نے ہماری بات نہیں مانی۔ والد کے قتل کے بعد پارٹی نے یہ مسئلہ اٹھایا لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔‘


شبیر احمد بٹ

ANI
شبیر احمد بٹ کو انتہا پسندوں نے ان کے گھر کے قریب سے اغوا کیا، جس کے بعد انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا

اگست 2018 شبیر احمد بٹ کا قتل

پلوامہ میں بی جے پی رہنما شبیر احمد بٹ کو بندوق برداروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

شبیر بٹ اپنے گاؤں سے دور سری نگر میں محفوظ مقام پر رہائش پذیر تھے۔ ان پر 22 اگست کو اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ شام کے وقت سری نگر سے عید منانے پلوامہ اپنے گاؤں جارہے تھے۔

انھیں انتہا پسندوں نے ان کے گھر کے قریب سے اغوا کیا، جس کے بعد انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کی نعش گاؤں کے قریب سے ملی۔

اس وقت بی جے پی رہنما امیت شاہ نے شبیر بٹ کی موت پر غم کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کی بزدلانہ حرکت کی سخت الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا تھا کہ کشمیر کے نوجوان اپنے لیے بہتر مستقبل کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں اور انتہا پسند انھیں روک نہیں سکتے۔

https://twitter.com/AmitShah/status/1032126305079320576


گوہر احمد بٹ

BJP4JnK @Twitter
30 برس کے گوہر کی لاش 2 نومبر 2017 کو کلوورا کے ایک باغ سے ملی تھی

نومبر 2017 – گوہر احمد بٹ کا قتل

سنہ 2017 میں بی جے پی کے شوپیاں کے ضلعی صدر اور بی جے پی یوتھ ونگ کے رہنما گوہر احمد بٹ کا گلا کاٹ کر انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔

30 برس کے گوہر کی لاش 2 نومبر 2017 کو کلوورا کے ایک باغ سے ملی تھی۔ پولیس کے مطابق انھیں اپنے گھر کے باہر سے اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

شوپیاں کے علاقے بونگم کے رہائشی گوہر بٹ نے تین سال قبل ہی بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق ایک دن بعد پولیس نے چار افراد کی نشاندہی کی جنھوں نے گوہر احمد بٹ پر حملہ کیا۔ پولیس کے مطابق یہ چار حملہ آور لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کے رکن تھے۔

بی جے پی نے گوہر کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’بزدلانہ حملہ‘ اور ’عدم رواداری‘ قرار دیا تھا۔

https://twitter.com/BJP4JnK/status/926143454429691904


اپریل 2021 – انور خان کے گھر پر حملہ

رواں سال اپریل میں سری نگر کے علاقے نوگام میں بی جے پی رہنما محمد انور خان کی رہائش گاہ پر ایک شدت پسند حملہ ہوا تھا۔ حملے کے وقت انور خان گھر پر موجود نہیں تھے، لہذا وہ بچ گئے لیکن حملے میں ان کا ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گیا۔

انور خان کے گھر کے مین گیٹ اور دیوار پر گولیوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ پولیس نے حملے کا ذمہ دار شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کو قرار دیا۔

انور خان بی جے پی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہونے کے علاوہ لیہ اور کپواڑہ میں جماعت کے انچارج بھی ہیں۔

انور خان

MAJID JAHANGIR/BBC
انور خان بی جے پی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہونے کے علاوہ لیہ اور کپواڑہ میں جماعت کے انچارج بھی ہیں

گذشتہ آٹھ برسوں میں انور خان پر یہ تیسرا حملہ تھا۔ انور خان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے سبب وہ پارٹی کے کام کے لیے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔

انور خان کی کار اور گھر پر بی جے پی کا کوئی جھنڈا نہیں اور نہ ہی پارٹی کے کسی بڑے رہنما کی تصویر ہے۔

انور خان کا گھر

MAJID JAHANGIR/BBC
انور خان کے گھر کے مین گیٹ اور دیوار پر گولیوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں

2014- مشتاق نور آبادی کے گھر پر حملہ

49 برس کے مشتاق نور آبادی کشمیر میں بی جے پی کے پرانے رہنما ہیں اور وہ مسلم مورچہ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ مشتاق نے 22 سال کی عمر میں ہی اپنا تعلق بی جے پی سے قائم کیا تھا۔

سنہ 2014 میں کولگام ضلع کے علاقے نور آباد کے رہائشی مشتاق کے گھر پر حملہ کیا گیا تھا لیکن وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ حملے کے بعد مشتاق نے اپنے خاندان کے ساتھ سری نگر میں رہنا شروع کر دیا۔

نیوز ویب سائٹ ڈیلی ایکیلسائر کے مطابق مشتاق کے قافلے پر سنہ 2014 میں شوپیاں میں انتخابی مہم کے دوران کچھ نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں پارٹی کے دو کارکن زخمی ہوئے تھے۔

مشتاق نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کشمیر میں بی جے پی کے لوگوں پر حملے کے بعد انھیں مسجد یا دیگر مقامات پر جاتے ہوئے بھی بہت چوکس رہنا پڑتا ہے۔

مشتاق نور آبادی

BJP4JnK @Twitter
مشتاق نے 22 سال کی عمر میں ہی اپنا تعلق بی جے پی سے قائم کیا تھا

بی جے پی قائدین پر حملے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

بی جے پی کے رہنما انور خان نے بی بی سی سے وابستہ صحافی ماجد جہانگیر کو بتایا کہ وادی میں بی جے پی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور اب کشمیر میں بہت ساری پنچایتوں میں پارٹی کے پنچ موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک وجہ آرٹیکل 370 کا ختم ہونا ہے۔ یہاں تک کہ انتہا پسند بھی نہیں چاہتے تھے کہ آرٹیکل 370 کو ختم کیا جائے۔ آرٹیکل کو ہٹانے کے بعد ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔‘

بی جے پی رہنما مشتاق نور آبادی کا کہنا ہے کہ پارٹی کو نشانہ بنانے کی وجہ حالیہ انتخابات میں اس کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی شبیہہ ہندوتوا کو نافذ کرنے والی پارٹی کی تھی، جو سچ نہیں۔

بی جے پی کے شکایات سیل کے صدر ڈاکٹر رفیع نے ماجد جہانگیر کو بتایا کہ ’جس طرح سے بی جے پی نے جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹایا یا کچھ قوانین کو تبدیل کیا، کشمیری عوام نے اسے منفی انداز میں دیکھا تاہم پارٹی نے یہ قدم کشمیر میں اٹھایا۔ ہم نے یہ قدم لوگوں کے بہتر مستقبل کے لیے اٹھایا۔ ہمیں لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر رفیع نے الزام لگایا کہ وادی میں بی جے پی کے چہروں کو مناسب سکیورٹی نہیں مل رہی۔

انھوں نے کہا ’کشمیر میں بی جے پی کے 100-150 کے قریب افراد ہیں، جو کشمیر میں بی جے پی کی شناخت ہیں۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کی سلامتی کا بھی بہتر انداز میں بندوبست نہیں کیا جا رہا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp