اسامہ گجر اور جنرل (میڈم) رانی سے ناصر ادیب تک



لاہور کا رائل پارک اب اجڑ چکا ورنہ ماضی میں یہ فلمی دنیا سے جڑے لوگوں کا مرکز خاص ہوا کرتا تھا اور یہاں بڈھا پکچرز سے لے کر سجاد گل کے ایورنیو پکچرز کے دفاتر شوبز رونقوں کو بڑھاتے نظر آتے تھے لیکن اب یہاں الو بول رہے ہوتے ہیں اور فلم ڈسٹری بیوشن والے نام کو بھی نہیں ملتے ہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں کئی شاہکار فلموں کی منصوبہ بندی ہوئی اور ان کو پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی بھیج کر پاکستان کی ثقافتی شناخت اور سافٹ امیج کو بڑھوتری دی گئی تھی، اسی علاقے سے جڑی ایک دلچسپ کہانی بھی کچھ عرصہ قبل خاکسار کے کانوں میں پڑی کہ جب کچھ شوقین مزاج گجر پروڈیوسروں نے اپنی برادری کے ناموں پر دھڑادھڑ فلمیں بنا کر اپنی گجر برادری کو مشہور اور بدنام کرنے میں ملکہ حاصل کیا۔ اتھرا گجر، گجر دا کھڑاک اور گجر دا ویر اور اس طرز کی کئی فلمیں مارکیٹ کی زینت بنیں۔ ان سب فلموں کی کہانی روایتی لاہوری بدمعاشوں کے اردگرد ہی گھوما کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جن دنوں اسامہ بن لادن کا نام ہر طرف گونج رہا تھا، ان دنوں ایک گجر پروڈیوسر نے ایک ڈائریکٹر سے کہا کہ

”یار جی!
اگلی فلم دا ناں ”اسامہ گجر“ رکھنا ”(اگلی فلم کا نام“ اسامہ گجر ”رکھنا)
اس فلم ڈائریکٹر نے اس گجر پروڈیوسر کی طرف غصے سے دیکھا اور کہا
”چودھری صاب!

اسامہ کسے ہور دی گچی مروڑے یا نہ مروڑے۔ توانوں تے مینوں بالکل نہیں چھڈے گا ”(اسامہ کسی اور کی گردن مروڑے یا نہ مروڑے۔ آپ کو اور مجھے تو بالکل نہیں چھوڑے گا“ )

یہ دوسرا قصہ بھی انہی دنوں کا ہے کہ ایک فلم ڈائریکٹر نے پتا نہیں کس رو میں بہہ کر اپنی فلم کا نام ”جنرل رانی“ رکھ دیا۔ یہ نام بوجوہ کچھ حساس جگہوں پر برا سمجھا گیا اور پھر بتانے والے بتاتے ہیں اس فلم کے اہم کرداروں کو ”محبت“ سے کہا گیا کہ

”یہ نام فوراً تبدیل کرو“

انہوں نے منت کی کہ پورے پنجاب میں اس فلم کی دیواروں پر چاکنگ ہو چکی ہے، تصویری بورڈز بھی پہنچ چکے ہیں اور ممکن ہے کئی شہروں میں لگ بھی چکے ہوں، اب چاکنگ مٹانے اور بورڈز ہٹانے یا نئے بنوانے پر بہت خرچہ ہوگا لیکن ماننے والے بضد رہے کہ

”نہیں یہ نام کسی صورت بھی قبول نہیں ہے، بدلو اسے“

اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ”جنرل رانی“ کی جگہ ”میڈ رانی“ کر دیا گیا اور بورڈز پر جہاں جنرل رانی لکھا ہوا تھا وہاں سرخ یا کسی اور سیاہی کو پھیر کر ”میڈم رانی“ کر کے حساس دوستوں کی حساسیت ختم کر دیا گیا۔

ناصر ادیب بڑے نام والے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے۔ پنجابی اور اردو فلموں کا ایک خاصا بڑا اسٹاک ان کے کریڈٹ پر موجود ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ

”میں نے ایک ہی کہانی تقریباً 17,18 ڈائریکٹروں کو نام وغیرہ بدل کر بیچی اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب پر فلمیں بھی بنیں اور کامیاب بھی ہوئیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments