مجھے ہسپتال میں یوں نہیں کرنا چاہیے تھا


وارڈ میں نائٹ ڈیوٹی تھی۔ خیبر تدریسی ہسپتال کا میڈیکل بی وارڈ مریضوں سے بھر گیا تھا۔ مزید مریض داخل ہو رہے تھے اور وارڈ میں بستر ختم ہو گئے تھے۔

میں کاؤنٹر پر ایک مریض کے داخلے سے فارغ ہوا تو سامنے ایک معمر مریض ایک وہیل چیئر پر بیٹھے نظر آئے۔ ان کے ہمراہ تین مرد تیماردار بھی تھے۔ مریض کا تسلی سے معائنہ کیا اور ان کو عارضی طور پر میڈیکل سی وارڈ جانے کو کہا۔ میں پلٹ ہی رہا تھا کہ ایک اٹینڈنٹ نے مجھے روکا اور کہنے لگا، ”ڈاکٹر صاحب میں ڈی ایچ او کے ساتھ ڈرائیور ہوں اور یہ میرا کارڈ ہے۔ یہ مریض میرے دوست کے والد صاحب ہیں۔ ان کا خصوصی خیال رکھئے گا“ ۔

مجھے اس اٹینڈنٹ کی بات تھوڑی ناگوار محسوس ہوئی اور میں نے تھوڑا درشت لہجے میں کہا، ”دیکھئے جناب میں نے آپ کے مریض کو پورے اطمینان سے دیکھ لیا ہے۔ ان کو داخلے کی ضرورت ہے۔ میں نے ان کو داخل بھی کر دیا ہے لیکن آپ پھر بھی مجھے کارڈ دکھا رہے ہیں۔ یہ تو اچھی بات نہیں ہے۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا“ ۔

اٹینڈنٹ میری بات سن کر تھوڑا شرمندہ ہو کر کہنے لگا، ”معذرت چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب! میری بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا۔ میں صرف آپ کی یاد دہانی کے لئے اپ کو کارڈ دکھا رہا تھا۔ آپ شاید برا مان گئے ہیں“ ۔ یہ کہہ کر وہ بھاری قدموں کے ساتھ مریض کی وہیل چیئر کو دھکیلتا ہوا میڈیکل سی وارڈ کی طرف جانے لگا۔

تب مصروفیت کی وجہ سے میں دھیان نہیں دے پایا لیکن فراغت پر خیال آیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ اس بندے کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ ٹھیک نہیں تھا۔ بھلے اس نے کارڈ دکھا کر اچھا کام نہیں کیا تھا لیکن اسے اس طرح اس کے دوست اور مریض کے سامنے سمجھانا قطعی درست نہیں تھا۔ میں اسے علیحدہ، مریض اور اس کے دوست کی غیر موجودگی میں بھی اس کی غلطی سمجھا سکتا تھا لیکن میں اس کو سمجھانے کی کوشش میں خود ایک ناخوشگوار فعل کا ارتکاب کر چکا تھا۔

گھر واپس آیا تو پورا دن یہی سوچتا رہا کہ اس کو کارڈ دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور مجھے جواباً کیوں اس طرح برتاؤ روا رکھنا پڑا؟ ہم دونوں کے رویے کے پیچھے کیا نفسیاتی محرکات کار فرما تھیں؟

سرکاری اداروں کا خراب نظام جہاں جائز کام کے لئے بھی حوالہ دینا پڑتا ہے، اٹینڈنٹ کے رویہ کی وضاحت کے لئے کافی تھا لیکن اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ وہ شاید اپنے دوست کے ساتھ انسانی سماجی ہمدردی کی خاطر اپنی ہر کوشش بروئے کار لانا چاہ رہا تھا۔ ڈی ایچ او کا ڈرائیور ہونے کے ناتے اسے یہ یقین تھا کہ محکمہ صحت کا ایک اور اہلکار یعنی ان ڈیوٹی ڈاکٹر اس کی بات نہیں ٹالے گا اور دوست کے سامنے وہ اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکے گا کہ اس کے والد کی خاطر اس نے اپنے محکمے والوں کو درخواست کی جس کی وجہ سے مریض کا بہتر خیال رکھا گیا۔

میں نے اس کو دوست کے سامنے شرمندہ کر دیا تھا۔
میں نے اس کا مان توڑ دیا تھا۔

ہم مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کی خوشی نہایت چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جڑی ہوتی ہے اور اس سے متعلق ہماری نفسیات قریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بازار میں کسی کا کام کر دیا یا کبھی ہسپتال میں کسی کو کہہ کر کسی کو مفت دوائی دلا دی یا شناختی کارڈ دفتر میں کسی کو جلدی فارغ کروا دیا یا فون والے کسی دوست سے انٹرنیٹ جلدی لگوا دیا یا گیس دفتر میں کنکشن کی درخواست آگے بڑھا دی وغیرہ۔

ہم ایک دوسرے کو یہ جتا کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے بھی ریفرنس لگ جاتے ہیں۔ اے سی، ڈی سی ڈاکٹر جان پہچان والے ہیں، یہ بات ہمارا سماجی رتبہ بڑھاتی ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے یوں کرنے سے ہم سماج میں قدرے زیادہ واضح ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں ہماری حیثیت کچھ منفرد ہو جاتی ہے۔ اور در حقیقت ایسا ہی ہے۔

میں اس کا کارڈ دیکھ کر کیوں برہم ہو گیا تھا اس کی وضاحت بھی یہی نفسیات ہیں۔ میں خود ایک مڈل کلاس، بندہ آخر کیسے برداشت کرتا کہ ایک اور میری ہی کلاس کا بندہ مجھے حوالہ دے کر مجھ سے کام نکلوا رہا ہے؟ میرے اندر کے انسان کو شاید اس سے تکلیف پہنچی تھی کہ مجھے میرے ہی ورک پلیس میں ڈکٹیٹ کیا جا رہا ہے وہ بھی میرے ہی سماجی طبقے کے فرد کی جانب سے۔

مجھے اس رات کارڈ دیکھ کر اسے علیحدہ سمجھا دینا چاہیے تھا۔
اس رات میں نے دو مڈل کلاسیوں کو ایکسپوز کر دیا تھا۔
مجھے یوں نہیں کرنا چاہیے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments