پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دو خواتین کی ہلاکت، ‘غیرت’ کے نام پر قتل یا کوئی اور وجہ؟


پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف احتجاج بھی ہوتا رہا ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ چند روز قبل دو خواتین کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کرنے میں ملوث بعض ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

​ہفتے کو حویلی کے چوہدری قبیلے کی دو خواتین کی لاشیں گھر کے برآمدے سے ملی تھیں جس کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ کے کمشنر مسعود الرحمان کا کہنا ہے کہ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ تمام ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سرکاری طور پر ابھی اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ غیرت کے نام پر قتل ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور محرکات ہیں کیوں کہ تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے۔

قبائلی لڑائی یا غیرت کے نام پر قتل؟

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ 19 مئی کو راٹھور قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی بیٹی کی گمشدگی اور بعدازاں اغوا کی رپورٹ درج کرائی تھی جس کا الزام اُنہوں نے مخالف چوہدری قبیلے کے ایک نوجوان پر لگایا تھا۔

تھانہ حویلی میں تعینات ایس ایچ او اور اس کیس کے تفتیشی افسر حسن وزیر آفریدی کا کہنا ہے کہ راٹھور خاندان کی جانب سے لڑکی کے اغوا کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پولیس نامزد شخص کی تلاش کی غرض سے اس کے گھر گئی لیکن وہ گھر پر نہیں ملے۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ راٹھور خاندان نے اپنی لڑکی کو شادی شدہ قرار دیا ہے اور ان کے مبینہ خاوند کی مدعیت میں مقدمہ بھی درج ہوا ہے۔ پولیس اس معاملے کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔

ایس ایچ او حسن وزیر آفریدی کے مطابق 29 مئی کو چوہدری خاندان کی دو خواتین کی لاشیں ان کے برآمدے میں لٹکی ہوئی ملی تھیں جس کے بعد چوہدری قبیلے نے راٹھور خاندان کے 14 افراد کو نامزد کیا جن کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

پولیس نے کہا کہ لڑکے کے والد کا کہنا ہے کہ راٹھور خاندان نے ان کی خواتین کو لڑکی کے اغوا کے بدلے میں قتل کیا ہے۔ قتل ہونے والی ایک خاتون کی عمر 52 برس جب کہ اُن کی بیٹی کی عمر 25 برس بتائی گئی ہے۔

تاہم پولیس کا کہنا ہے کو وہ قتل کی نوعیت کے بارے میں تاحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔

اس دلخراش واقعے کے بعد علاقے کے سرکردہ رہنماؤں بشمول وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر خان نے افسوس کے اظہار کے ساتھ ساتھ واقعے کی مکمل تحقیقات کا بھی حکم دیا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق 52 سالہ خاتون کا بیٹا کئی روز سے لاپتا تھا جب کہ مخالف راٹھور قبیلے نے اپنی بیٹی کے اغوا کا الزام اس پر عائد کیا تھا۔

پسند کی شادی کا بدلہ؟

مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن دونوں قبائل میں سخت روش کی بنا پر وہ آزادانہ طور پر یہ شادی نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے علاقے سے بھاگنے پر ہی اکتفا کیا۔

حویلی سے تعلق رکھنے والی وکیل اور سماجی کارکن شازیہ کیانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکے اور لڑکی دونوں بالغ ہیں اور انہوں نے کورٹ میرج کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس قتل کے بہت سارے محرکات ہو سکتے ہیں۔

اپنا سابقہ تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب وہ کچھ عرصہ قبل حویلی کے علاقے میں ایک سول جج سے ملیں تو انہیں بتایا گیا کہ وہاں فوج داری کے مقدمات بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن الیکشن کے دنوں میں حویلی کا علاقہ ایک خونی لکیر بن جاتا ہے جو کہ دنگا فساد کے لیے مشہور ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا علاقہ حویلی
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا علاقہ حویلی

برادریوں کے مابین دشمنیاں اور سیاسی عمل دخل

شازیہ کیانی نے مزید بتایا کہ چوہدری برادری کا سیاسی جھکاؤ عموماً پاکستان مسلم لیگ (ن) جب کہ راٹھور خاندان کا جھکاؤ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب ہے اور ایسی کشیدگی کی حالت میں ہر فریق اپنی مرضی کا نتیجہ چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آئندہ ماہ الیکشن متوقع ہیں، جس کی تاریخ کا اعلان اگلے ہفتے متوقع ہے۔

شازیہ کیانی کا مزید کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ اس قسم کے واقعے کے بعد آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس واقعے میں انہوں نے لڑکے کی ماں اور بہن کو قتل کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ایک واقعے میں جب ایک غریب گھرانے کے لڑکے نے ایک با اثر برادری کی لڑکی سے شادی کی تھی تو اسے بھی بہت بھیانک طریقے سے قتل کیا گیا تھا، جس کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔

حویلی کے علاقے کے ایک جانب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا ضلع پونچھ لگتا ہے جب کہ دوسری جانب بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا حاجی پیر کا علاقہ ضلع مینڈھر لگتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس کیس کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ کال ٹریسنگ، جیو فینسنگ کے علاوہ سائنسی بنیادوں پر کارروائی جاری ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments