ملالہ کا انٹرویو: سنڈا حلال نہ خانک پہ سر نیولے


پشتو میں مشہور کہاوت ہے کہ بیل ابھی ذبح ہوا نہیں اور اگلا تسلا سر پر لئے کھڑا ہے۔ ووگ کا شمارہ جولائی میں آئے گا جس کے لئے ابھی پورا مہینہ پڑا ہے اس کے بعد کہیں جاکر ملالہ یوسفزئی کا مکمل انٹرویو چھپ کر آئے گا۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنے اختلافی نقطہ نظر کے لئے کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اب مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب بندہ مشہور ہو جائے یا پھر وہ ایک سلیبریٹی کی حیثیت اپنا لیتا ہے تو وہ پھر پبلک فگر کے زمرے میں آتا ہے نہ کہ کسی ذاتی شخص کی حیثیت میں۔

لیکن سلیبریٹی یا پبلک فگر بننے کا یہ بھی نہیں مطلب کہ ان کی کوئی ذاتی سوچ اپروچ یا خواہش نہیں ہوتی یا اس کا وہ اظہار نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ اس پورے انٹرویو میں جو چیدہ چیدہ باتیں سامنے آئی ہیں ان میں ایک بات شادی نہ کرنے کے حوالے سے ہے، اور اس بات کا جو جواب وہ دیتی ہے وہ روایتی پشتون دوشیزہ کی مانند دیتی ہے کہ میں شادی نہیں کروں گی کیونکہ یہ انٹرویو ان کے والدین نے بھی دیکھنا ہے، جیسے کہ ہر لڑکی سے جب پوچھا جاتا ہے تو اکثر کا جواب یہی ہوتا ہے اور ملالہ تو اس کے بعد برملا اظہار کرتی ہے کہ گھر میں امی بولتی ہے کہ خبردار ایسا نہیں بولنا تم نے شادی ضرور کرنی ہے اور شادی اچھی ہوتی ہے۔

اور ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بولتی ہے کہ میں والدین سے ہٹ کر نہیں رہ سکتی اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بندہ شادی کرے اور والدین سے الگ رہے، بندہ شادی کے بغیر بھی تو رہ سکتا ہے یا ساتھ ساتھ ان کا یہ کہنا کہ ضروری ہے کہ بندہ شادی کے نکاح پر دستخط کرے، مطلب شادی کرے، جس کو رنگ یہ دیا گیا کہ خدانخواستہ وہ یہ کہہ رہی ہے کہ شادی کے بغیر بھی عورت اور مرد اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اور اس بات پر وہ واویلا مچ گیا ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرہ اپنے قلم کو کمان بنا کر ملالہ یوسفزئی پر اپنی حقارت بغض اور تعصب کے تیر برسا رہا ہے۔

لیکن ساتھ ساتھ ایسے بھی ان کے چاہنے والے ہیں کہ وہ ان کی مثبت باتوں کو زیادہ اجاگر کر رہے ہیں جیسا کہ ان کا دوپٹے یا سکارف کے بارے میں بیان کہ یہ کسی اوپرسڈ طبقے کی شناخت نہیں یہ میری پختون روایت اور مسلم شناخت کی علامت ہے۔ یا یہ بات کہ میں جانتی یوں اس طاقت کو جو ایک دوشیزہ اپنے دل اور دماغ میں رکھتی ہے جس کا کوئی مقصد اور کوئی مشن ہو۔ یا یونیورسٹی کے بارے میں یا کھیل کے بارے میں بولتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مکھی کی فطرت یہ ہے کہ وہ کسی پھل کے تمام حصے کو چھوڑ کر اس جگہ آستانہ یا بیٹھک تلاش کرتی ہے جہاں پھل میں سڑن ہو۔

ملالہ خبر کی دنیا کی شخصیت ہے اور ہمیں ان کا یہ پہلو نظر میں رکھنا چاہیے نہ کہ خبر کی آڑ میں ان کو نظروں سے گرانا چاہیے۔ ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب ان کو گولی لگی، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب علاج معالجے کے لئے انگلستان شفٹ کی گئی تھی، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب وہ ٹھیک ہو گئی تھی، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب ان کو نوبل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب ان کو نوبل انعام مل گیا تھا، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب ان پر کتاب ”میں ملالہ ہوں“ لکھی جا رہی تھی، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب اس پر لکھی گئی کتاب منظرعام پر آ گئی تھی، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب وہ انگلستان میں یونیورسٹی میں داخلہ لینے گئی تھی، ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب کینیڈا کے وزیراعظم کے دعوت پر کینیڈا میں خصوصی مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا، ۔

ملالہ اس وقت بھی خبروں میں تھی جب وہ دوبارہ ٹھیک ہو کر پاکستان آ گئی تھی اور اپنے آبائی گاؤں سوات کا بھی چکر لگا کے لوٹ گئی تھی۔ ملالہ اس وقت بھی خبروں میں ہے اور کل بھی خبروں میں رہے گی۔ بولنے والے منہ بند رکھ سکتے نہیں اور کام کرنے والے کسی کے کہنے پر اپنا راستہ اور منزل بدلتے نہیں۔ ملالہ ایک کامیاب لڑکی ہے اور مجھے اس پر یقین ہے کہ وہ ان ناکام لوگوں کی چیخ و پکار کے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گی۔ اور مجھے اس لئے ان پر یقین ہے کہ میرے ساتھ ان کا رشتہ ایک طرح کا چچا اور بھتیجی کا بھی ہے کیونکہ ضیاءالدین یوسفزئی میرے ادبی دوست اور ادبی قافلے کا ساتھی ہے۔

اور ہم دو ہزار سات میں کابل اکٹھے ایک ادبی سیمینار کے لئے گئے تھے اور پندرہ بیس دن کے اس سفر میں اکٹھے رہے اور وہ پشتو ادب کے ایک اچھے شاعر ہیں، جب ملالہ صرف نو سال کی چھوٹی بچی ہوا کرتی تھی اور سوات پر تازہ تازہ مذہبی جنونیت کا غلبہ ہونے جا رہا تھا۔ اگر میری لکھائی میں کچھ جذباتی عنصر پایا جاتا ہو تو اس کے پیچھے یہ ادبی رشتے بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments