فیس بک پر سیاسی رہنماؤں کو گمراہ کن مواد پوسٹ کرنے کا حق واپس لیے جانے کا امکان


فیس بک سیاسی رہنماؤں کو حاصل اس استثنیٰ کو واپس لینے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے تحت انہیں گمراہ کن یا غیر مہذب مواد پوسٹ کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

دنیا کے مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر سیاسی رہنماؤں کو دیا گیا ایک خصوصی استثنیٰ واپس لیے جانے کا امکان ہے۔

فیس بک سیاسی رہنماؤں کو حاصل اس استثنیٰ کو واپس لینے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے تحت انہیں گمراہ کن یا غیر مہذب مواد پوسٹ کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا ارادہ ہے کہ وہ سیاسی رہنماؤں کے لیے بھی اسی معیار کو رکھے جو دیگر صارفین کے لیے ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ نے امریکہ کی ٹیکنالوجی نیوز ویب سائٹ ‘دی ورج’ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو ان کے عہدوں کے تحت دیا گیا یہ متنازع استثنیٰ ایک ہفتے میں ختم کیا جا سکتا ہے۔

دی ورج کے مطابق، فیس بک مواد کے قواعد توڑنے والے اکاؤنٹس کو ‘اسٹرائکس’ بھیجنے سے متعلق مزید شفافیت کی بھی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق، مذکورہ معاملے پر ردِ عمل کے لیے فیس بک سے رابطہ کیا گیا۔ تاہم، فوری طور پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

فیس بک کی پالیسی میں یہ تبدیلی ایک آزادا نگران بورڈ کے جائزے کے بعد سامنے آ رہی ہے۔ بورڈ نے کہا تھا کہ فیس بک کے پاس یہ حق تھا کہ وہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چھ جنوری کو امریکی کیپٹل سے متعلق تبصرے میں مداخلت کرتی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فیس بک اور انسٹاگرام سے اس وقت معطل کیا گیا تھا جب انہوں نے الیکشن میں ناکامی کے بعد اپنے مشتعل حامیوں کے کیپٹل ہل پر حملے کے دوران ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔

ویڈیو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کہا تھا کہ ‘ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ لوگ بہت خاص ہیں۔’

تاہم، اس پینل نے کمپنی کے سربراہ مارک زکر برگ کے کورٹ میں گیند ڈالتے ہوئے فیس بک کو یہ واضح کرنے کے لیے چھ ماہ دیے تھے کہ یہ پابندی کیوں مستقل ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی پلیٹ فارم کے سیلف ریگولیشن کے منصوبے میں کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔

نگرانی کرنے والے پینل کے شریک چیئرمین مائیکل مک کونیل نے خبر رساں ادارے ’فوکس نیوز سنڈے‘ کو دیے گئے اپنے نو مئی کے انٹرویو میں کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو حوصلہ افزائی کی تھی۔ لہٰذا فیس بک نے ان پر پابندی لگائی۔ البتہ سوشل میڈیا کمپنی کے قواعد میں ‘گڑ بڑ’ ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

مارک زکر برگ کا خیال ہے کہ جب بات لوگوں کی کہی باتوں پر آتی ہے تو نجی کمپنیوں کو سچ کا قاضی نہیں بننا چاہیے۔

ادھر ڈیموکریٹس غلط معلومات روکنے میں ناکامی پر آن لائن پلیٹ فارمز پر تنقید کرتے ہیں۔ تو دوسری جانب ری پبلکنز کا مؤقف ہے کہ سوشل نیٹ ورکز قدامت پسندوں کے خلاف جانب دار ہیں۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورِ صدارت میں سوشل میڈیا پر خاصے متحرک رہتے تھے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وہ اپنے لاکھوں فالورز کی توجہ کا مرکز رہتے تھے۔ اپنے بیانات میں وہ سیاسی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف جارحانہ بیانات دیا کرتے تھے۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنے حامی ری پبلکنز کی کھل کر حمایت جب کہ اپنی ہی پارٹی کے بعض رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

البتہ، جنوری میں ٹوئٹر اور فیس بک نے صدارت کے منصب پر فائز ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹس معطل کرتے ہوئے اُن پر مستقل طور پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ٹرمپ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اُنہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنے حامیوں کو حملے کے لیے اُکسایا اور ان پر زور دیا کہ وہ کیپٹل ہل جائیں اور قانون سازوں کو الیکٹورل کالج کے انتخابی نتائج کی توثیق سے روکیں۔ تاہم، ٹرمپ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments