وبا اور تفرقے میں کیا تعلق ہے؟


کرونا وبا کو دنیا میں آئے ڈیڑھ سال سے زائد ہو چکا ہے اور ملک میں آئے اصل عرصے سے چند ماہ کم۔ گزشتہ سال بہت سی تبدیلیوں کا شاہد رہا، عالمی طور پر بہت کچھ بدلا۔

معیشت، معاشرہ، سیاست، اطوار، عادات۔ بہت سی تبدیلیوں کے ساتھ ایک منفی رنگ جو معاشرے میں مزید گہرا ہوا وہ تفرقے کا تھا۔ وبا کی تاریخ ایک نظریے سے سماج میں موجود تفرقات کے بڑھنے کی تاریخ بھی ہے۔ انیسویں صدی میں جب ہیضے کی وبا پھوٹی تو بجائے نیویارک سے لندن جانے والے تجارتی بحری جہازوں کی نقل و حرکت روکی جاتی جو کہ وبا کے پھیلاو کا اہم ذریعہ تھی، آئرستانی تارکین وطن کو خوف و نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔ 1819 میں ان آئرستانی تارکین وطن کو وبا سے بچاو کا عذر دے کر پہلے قید کیا گیا اور پھر قتل کر کے ایک اجتماعی قبر میں ڈال دیا گیا۔

امریکہ ہی میں پچھلی صدی میں جب ایڈز دریافت ہوا تو اسی طریقے سے ہیتیوں (Haitis) کو اس کے پھیلاو کا باعث قرار دے کر ہراساں کیا گیا۔ اس صدی کا آغاز سارس وائرس سے ہوا جو حال ہی کی طرح ایشیاء پیسیفک اور جنوبی مشرقی ایشیاء سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ دنیا بھر میں ہتک اور گریز روا رکھے جانے کا باعث بنا۔

وبا اور فرق کی بنیاد پر ڈر، گریز، تشدد اور ہتک آمیز رویوں کا درمیانی تعلق در اصل انسانی نفسیات ہے۔ نفسیات کے طفیلی دباو (parasite۔ stress) کے نظریے کے مطابق دور قدیم کے انسانوں نے امراض خصوصاً وبائی امراض سے بچنے کے لئے اجنبیوں خاص کر وہ اجنبی جو ہیئت میں خود سے مختلف ہوں سے ڈر کا وصف عمل ارتقا کے نتیجے میں اپنایا تھا اور کسی نئی وبا پھوٹ پڑنے کی صورت میں یہ فطری وصف حفاظتی رجحان میں بدل کر خود کو ظاہر کرتا ہے اور نتیجتاً وہ معاشرے جو پہلے سے کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہوں وہاں فرق کی بنیاد پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے کچھ اور دور ہو جاتے ہیں۔ وبا چلی بھی جائے تو وہ فاصلے جو وہ بنا جاتی ہے قائم رہ جاتے ہیں۔ اس وضاحت کو اجنبیوں سے ڈر آمیز رویوں کے حق میں قطعاً نہ سمجھا جائے۔ یہ محض منفی انسانی رویوں کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

کورونا کی بات کریں تو اس کا آغاز چین میں ہوا اور چینی ہی وہ پہلی قوم تھے جنھیں دنیا بھر میں نفرت اور گریز زدہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دو ہزار بیس کی شروعات میں یورپ بھر سے چینی بلکہ تمام منگولی نقوش والے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک اور نفرت پر مبنی جرائم رپورٹ ہوئے۔ یہی حال امریکہ میں بھی رہا، وہاں نہ صرف ایشیا پیسیفک اور جنوبی مشرقی ایشیائی باشندوں کے ساتھ حکومت اور مقامی لوگوں نے یکساں ناروا سلوک روا رکھا بلکہ پہلے سے موجود سیاہ فاموں کے ساتھ ہونے والی نسل پرستی نے بھی پر تشدد شکل اختیار کر لی۔ پڑوس میں بھارت کی ہندتوا ریاست مسجد میں باجماعت نماز اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات کرنے پر مسلمانوں پر پل پڑی۔ ان کے ساتھ قبل از وبا ہونے والا غیر انسانی سلوک مزید شدت اختیار کر گیا۔

گھر کی بات کریں تو ہم ایک تفریق زدہ قوم ہیں، مذہب، فرقہ، رنگ، نسل، قومیت، زبان۔ وہ کون سی شے ہے جسے جواز بنا کر ہم مزید حصوں میں نہیں بٹتے۔ یہاں بھی وبا کے آنے سے پہلے سے موجود ان گنت خلیجیں اس کے آنے کے بعد مزید وا ہوئیں۔ قصہ ہمارا تفتان بارڈر سے شروع ہوا جہاں وبا زدہ ایران سے پہلے ہی سے تفرقوں کی زد میں آئی شیعہ برادری واپس لوٹی تھی۔ حکومت کا وبا کی روک تھام کا ناقص انتظام، قرنطینہ کے نام پر بے حال ٹینٹ، ہر چیز ایک طرف ڈال کر سنی اکثریت نے اقلیت کو نشانہ بنایا، سوشل میڈیا پر ہتک آمیز مذاق، ان کے عقیدے پر طنزیہ تنقید ہم سب نے دیکھی۔

کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو مزید محدود کر دیا گیا۔ طب کہتی ہے کہ وائرس کی عمر چودہ دن ہوتی ہے جو کہ قرنطینہ کی بھی مدت ہے پر آج اتنے ماہ بعد بھی ہزارہ ٹاؤن، مری آباد جانے کا قصد کرو تو کوئی نہ کوئی روک کر ڈراوا دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے کہ وہاں کورونا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع ہوئے تو اہل حدیث اور اہل سنت کے درمیان موجود اختلاف بھی کھل کر سامنے آئے، وبا کا سارا الزام رائے ونڈ والوں پر ڈالا گیا، ان کے گھروں میں ٹی وی نہ ہونا بھی کورونا کے متعلق آگاہی کی مہم میں ایک واضح رکاوٹ قرار دی گئی۔

سیکولر بلوچوں کو پٹھانوں کا توکل پر ماسک نہ پہننا کھٹکا، بڑے شہروں میں قبائلی جاہل اور خطرناک قرار دیے گئے۔ یہ کچھ مثالیں تھیں آپ نے کورونا پاکستان میں گزارا ہے تو ایسی کئی مثالیں آپ خود بھی سوچ سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا یہ تفریق کے حق میں دلیل نہیں کہ یہ فطری شے ہے، اسے ہمیں فطرت سمجھ کر سماج میں قبول کر لینا چاہیے کیونکہ ارتقا (evolution) کا نظریہ کہتا ہے جاندار زندہ رہنے کے لئے ضروری وصف اپنے جینیاتی کلیوں میں شامل کر لیتے ہیں اور جن کی ضرورت نہیں رہتی انھیں وقت کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔

یعنی کہ گئے وقتوں میں اجنبیوں سے ڈر اور گریز وبا سے بچنے کے لئے زندہ رہنے کے لئے ضروری رہا ہوگا پر اب طب کی اتنی ترقی کے بعد نہیں ہے تو جس چیز کی ضرورت نہیں رہی اس کا جینیاتی سفر بھی ختم ہو جانا چاہیے۔ انسان اپنی دم تک جب وقت کے سفر میں کہیں اتار کر پھینک سکتا ہے تو یہ تفریق تو ایک معمولی ذہنی رکاوٹ ہے۔ اسے بدلا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments