اللہ مؤمن عورتوں پر زیادہ مہربان ہے


(اللہ نے اسلامی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت سی رعایتیں رکھی ہیں اور آخری حد تک انہیں سہولیات عطا کی ہے۔ شریعت نے مرد کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا جبکہ عورتوں کے لیے ان کے گھروں میں ہی نماز ادا کرنے کو بہتر بتایا، مردوں کو محنت و مشقت اور دوڑ دھوپ والے کام دیے جبکہ عورتوں کو معاش کی ذمہ داریوں سے مستثنی رکھا۔ ان کے سپرد ایسے کام کیے جنہیں وہ موسم کی سختیوں کو جھیلے بغیر اور دوڑ دھوپ کی مشقتوں سے بچتے ہوئے، کسی قدر اطمینان اور آرام سے رہ کر انجام دے سکیں۔ اور کام کاج کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش پر بھی اچھی طرح دھیان دے سکیں۔ اللہ نے فطری اور شرعی طور پر مسلم خواتین کے لیے جو آسانیاں فراہم کی ہیں اور جو ذمہ داریاں انہیں دی ہیں ان سب میں عورتوں کے لیے ترحم اور سہولیات کا پہلو نکلتا ہے۔ عورتوں کے مقام و مرتبے کو گھٹانے کا پہلو کسی طرح بھی نہیں نکلتا۔)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کو کمائی (earning money) سے پوری طرح آزاد رکھا ہے، کمانے کی ساری ذمہ داری مردوں پر ہی رکھی ہے، پھر بھی مجبوری کی صورت میں عورتوں کو گھر سے نکل کر کمائی کے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت نے عورتوں کو ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کی کفالت کا ذمہ دار نہیں بنایا ہے۔ نہ وہ اس بات کی مکلف ہیں کہ اپنے بوڑھے والدین کی کفالت کریں، نہ اس بات کی کہ اپنے نسبتی والدین کو اپنے ذاتی پیسے سے کھلائیں پلائیں، حتیٰ کہ خود اپنی اولاد کی کفالت بھی ان کے ذمے نہیں ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ خود اپنے شوہروں کی کفالت میں ہیں۔

یعنی ان کی تمام جائز ضروریات کا پورا کرنا ان کے شوہروں کے ذمے ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر شریعت نے ان کے لیے یہ کیا کہ انہیں ان کے والد اور شوہروں کی جائیداد میں ایک متعین حق دیا۔ ان کے والد اور شوہروں کی یہ جائیداد چاہے خواہ ان کی خود کی کمائی ہو یا انہوں نے وراثت میں پائی ہو، اس میں بہر حال زیر کفالت عورتوں کا متعین حق ہے۔ جب شریعت نے یہ چاہا کہ عورتیں پیسہ کمانے کی دوڑ دھوپ سے آزاد اور بے فکر ہو کر اپنے گھروں کی آرائش و زیبائش میں لگیں اور اپنے بچوں کی پرورش کریں تو لازما شریعت کو انہیں یہ رخصت دینی ہی تھی کہ ان پر کسی بھی فرد کی کفالت کا ذمہ نہ ہو، مزید برآں انہیں گھر کے کاموں کی خدمت کے صلے میں والد اور شوہر کی جائیداد میں حصہ بھی ملے۔

جو عورتیں صاحب حیثیت ہیں وہ اپنی خوشی سے اپنے بچوں، والدین، بھائی بہن اور شوہر پر جتنا چاہیں خرچ کر سکتی ہیں مگر وہ اس کی مکلف نہیں ہیں۔ جس طرح شوہر اس کا مکلف ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو کھلائے پلائے اور ان کے علاج معالجے پر پیسہ خرچ کرے۔ اگر وہ پھر بھی ایسا کرتی ہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہے۔

جن عورتوں کے خاوند فوت ہو گئے ہیں اور وہ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، انہیں تعلیم دلاتی ہیں، یقیناً ایسی عورتیں اللہ کی نظر میں بڑا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر ہے۔ ایسی عورتیں معاشرے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جانے کی مستحق ہیں، بنسبت ان عورتوں کے جو موروثی طور پر صاحب ثروت ہوں اور انہیں اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے محنت مزدوری کی حاجت نہ پڑے۔ بے شک ان کے لئے بھی نیکیاں کمانے کے بہت سے راستے ہیں، ضعیفوں اور کمزوروں کی مدد اور ان کا مالی تعاون کرنا، موروثی طور پر صاحب ثروت عورتوں کے لیے ایک اضافی موقع ہے۔

جبکہ دیگر کے پاس دو ہی مواقع ہیں، ایک عبادت اور دوسرے خدمت۔ مگر یہ بڑے درجے کی بات ہے کہ کسی عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہو، یا بیمار ہو یا اور کوئی مجبوری ہو اور وہ عورت کم از کم شریعت کے بنیادی اور اساسی احکام کی پابندی کرتے ہوئے محنت و مزدوری یا ملازمت کر کے حلال روزی کمائے اور اپنے بچوں کی پرورش کرے۔ ایسی عورت ہر طرح سے انعام و اکرام کی مستحق ہے۔ کیونکہ ایسا کر کے نہ صرف یہ کہ وہ اپنے بچوں کو پال پوس رہی ہے اور پڑھا لکھا رہی ہے، بلکہ مسلم معاشرے کو معاشی اور علمی سطح پر مستحکم کرنے میں بھی اپنا سا رول ادا کر رہی ہے۔

بچوں کی پرورش اور گھر گرہستی کے کام کاج بھی بڑے کام ہیں بلکہ تھکا دینے والے کام ہیں۔ اگر عورتیں یہ سب کام خوش دلی اور محنت و لگن کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ مرد حضرات اپنی عورتوں کے آرام و راحت کے لیے بھلے ہی زیادہ نہ سوچیں اور بھلے ہی وہ ان کی طرف سے بے پروا بنے رہیں، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی طرف سے بالکل بھی بے پروا نہیں ہے۔ اللہ کو خود ان کا، ان کے کاموں کا اور انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ان کی بنیادی ذمہ داریوں اور عملداریوں کا، ان کے درد کا اور ضعف کا، پھر ان کے ذمے جو کام ہیں ان کی مشکلات کا اور نزاکتوں کا خوب خوب علم ہے۔ آخر اللہ علیم و خبیر ہے اور اسی کا فرمان ہے ”الا یعلم من خلق“ جس نے پیدا کیا ہے، کیا وہی اپنی تخلیق (انسان) کے بارے میں نہ جانے گا؟ وھو اللطیف الخبیر (الملک: 14 (

بے شک اللہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے، اسی لیے اللہ نے اپنی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت ساری رخصتیں رکھی ہیں۔ ان رخصتوں کو مرد حضرات ان کے لیے کمزوری، عیب، بلکہ ان کے لیے بے وقعتی تصور کر رہے ہیں۔ اور ان پر ناقصات العقل والدین کی پھبتی کستے رہتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ان الفاظ سے رسول اللہ ﷺ کی واقعی منشا و مراد کیا تھی۔ ناقصات العقل والدین والی حدیث کی وضاحت میں شیخ بن باز ؒ فرماتے ہیں : (۔ ولا یلزم من ہذا ان یکون نقص عقلھا فی کل شیء، و نقص دینھا فی کل شیء۔ وانما بین الرسول ﷺ ان نقص عقلھا من جھة ما قد یحصل من عدم الضبط للشھادة، ونقص دینھا من جھة ما یحصل لھا من ترک الصلاة والصوم فی حال الحیض والنفاس، ولا یلزم من ہذا ان تکون ایضا دون الرجل فی کل شیء، وان الرجل افضل منھا فی کل شیٔ (

وہ سمجھتے ہیں کہ دو عورتوں کی گواہی کا ایک مرد کی گواہی کے مساوی ہونا، انہیں نمازوں اور روزوں میں رخصتوں کا ملنا، اسی طرح ان کا صاحب کفالت نہ ہونا بلکہ خود مردوں کی کفالت میں ہونا، مساجد وعید گاہوں میں جانے کے لیے رخصتوں کا رکھا جانا، یہ سب شرعی احکام عورتوں کی عظمتوں کو گھٹاتے ہیں اور مرد کے مقابلے میں انہیں کم تر ثابت کرنے کے لیے کافی وجہ جواز رکھتے ہیں۔ لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کی عظمتوں میں کچھ کمی نہیں کی ہے۔

البتہ ایسا ضرور ہے کہ اللہ نے یہ کائنات فطری یا تخلیقی فرق کے ساتھ بنائی ہے، یہاں ایک کمزور ہے اور ایک طاقتور ہے، ایک انگلی چھوٹی ہے اور دوسری بڑی ہے، دماغ کی ساخت اور اس کے اعمال بالکل الگ ہیں اور دل کی ساخت اور اس کے اعمال بالکل مختلف ہیں۔ یہی فطری یا تخلیقی فرق اللہ نے ہر ایک جنس اور نوع میں رکھا ہے، خواہ وہ جاندار ہو یا غیر جاندار ہو، اسی طرح ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان رکھا ہے اور جس طرح ایک مرد اور دوسرے مرد اور ایک عورت اور دوسری عورت کے درمیان رکھا ہے اسی طرح اللہ نے یہی فطری و تخلیقی فرق مرد اور عورت کے درمیان بھی رکھا ہے۔

اور اس سے اللہ کی منشاء کسی کی اہمیت کو گھٹانا اور بڑھانا نہیں ہے بلکہ دنیا کے کاروبار کو احسن طریقے پر چلانا ہے۔ اگر ذمہ داریاں اور عہدے مختلف نہیں ہوں گے تو کوئی بھی کام پائے تکمیل کو نہیں پہنچ پائے گا۔ نہ عمارتیں تعمیر ہو سکیں گی، نہ کھیت کھلیانوں میں رونقیں رہیں گی اور نہ ہی نسلیں پروان چڑھیں گی۔ اس کے علاوہ اللہ نے ہر ایک کے ذمے وہی اعمال لگائے ہیں جنہیں وہ بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے اور اپنی بنیادی ذمہ داری کو متاثر کیے بغیر انجام دے سکے۔

مردو عورت، دونوں میں سے ہر ایک کی کچھ بنیادی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ اضافی۔ دنیا کے کاروبار کو مستقل اور مسلسل رکھنے کے لیے خاندان کی سطح پر عورتوں کی بنیادی ذمہ داری بچوں کی پیدائش اور پرورش ہے، جبکہ مردوں کی ذمہ داری گھر کے باہر کے محنت و مشقت والے کام ہیں۔ اسلام کی یہ تقسیم عمومی نوعیت کی ہے نہ کہ کلی نوعیت کی، جزوی اعتبار سے اس میں فرق واقع ہو سکتا ہے، جزوی طور پر یہ تقسیم الٹ بھی سکتی ہے، ایک مرد گھر کا کام کاج بھی کر سکتا ہے اور ایک عورت باہر کا کام کاج بھی سنبھال سکتی ہے۔ اور یہ سب وقت اور حالات پر منحصر ہوگا۔ اگر عورتوں کو پرامن ماحول میسر ہو، بطور خاص اسلامی ماحول میسر ہو، ان کی عزت و آبرو محفوظ ہو اور ان کے جان و مال کو کوئی خطرہ نہ ہوتو ان کے لیے باہر کے کام کرنے میں بھی کچھ مضائقہ نہیں، بشرطیکہ ان پر دوہری ذمہ داری نہ آن پڑے۔

اس کے علاوہ مرد و عورت دونوں کی جو اضافی ذمہ داریاں ہیں وہ مختلف اور متنوع ہیں، مگر یہ ذمہ داریاں ان کی بنیادی ذمہ داریوں کو سپورٹ کرنے والی ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو گھر گرہستی سنبھالنے کی جو اضافی ذمہ داری دی ہے وہ ان کی بنیادی ذمہ داریوں یعنی بچوں کی پیدائش اور پرورش کو پورا کرنے اور بحسن و خوبی ادا کرنے میں معاون ہے۔ بچوں کی پیدائش اور پھر پرورش شاید دنیا کا سب سے مشکل او ر نازک کام ہے۔ عورتیں جتنی زیادہ سوجھ والی، پڑھی لکھی اور دیندار ہوں گی وہ اپنے بچوں کی پرورش اتنے ہی زیادہ بہتر طریقے پر کر سکنے کی اہل ہوں گی۔

اگر عورتوں پر انسانی نسل آگے بڑھانے کی بنیادی ذمہ داری نہ ہوتی تو پھر ان کے ساتھ جو فطری امور لگے ہوئے ہیں وہ بھی نہ ہوتے اور پھر ان کے مخصوص شرعی احکام بھی نہ ہوتے۔ پھر تو بہت ساری چیزیں نہ ہوتیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کی اسی ایک بنیادی ذمہ داری کے اردگرد خاندان کا سارا معاشرتی، معاشی اور اخلاقی سسٹم گھوم رہا ہے۔ اور اسی پر ان کے جسمانی نظام کی بنا ہے۔

عورتوں کا جسمانی نظام، جو تھوڑا بہت مردوں سے مختلف ہے، اللہ نے اسے بھی ان کی اسی ایک بنیادی ذمہ داری کو مدنظر رکھ ہی تخلیق کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اسی بنیادی ذمہ داری کو سپورٹ دینے کے لیے اللہ نے اسلامی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت سی رعایتیں رکھی ہیں اور آخری حد تک انہیں سہولتیں عطا کی ہیں۔ مرد کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا جبکہ عورتوں کے لیے ان کے گھروں میں ہی نماز ادا کرنے کو بہتر بتایا، مردوں کو محنت و مشقت اور دوڑ دھوپ والے کام دیے جبکہ عورتوں کو معاشی ذمہ داریوں سے مستثنی رکھا۔

ان کے سپرد ایسے کام کیے جنہیں وہ موسم کی سختیوں کو جھیلے بغیر اور دوڑ دھوپ کی مشقتوں سے بچتے ہوئے، کسی قدر اطمینان اور آرام سے رہ کر انجام دے سکیں۔ اور کام کاج کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش پر بھی اچھی طرح دھیان دے سکیں۔ اللہ نے فطری اور شرعی طور پر مسلم خواتین کے لیے جو آسانیاں فراہم کی ہیں اور جو ذمہ داریاں انہیں دی ہیں ان سب میں عورتوں کے لیے ترحم اور سہولیات کا پہلو نکلتا ہے۔ عورتوں کے مقام و مرتبے کو گھٹانے کا پہلو کسی طرح بھی نہیں نکلتا۔

رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج ہی ان کا جہاد ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں آئی ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ عورتوں پر بہت مہربان ہے، اللہ ان کو اضافی مشقتوں میں نہیں ڈالنا چاہتا اور انہیں ایسی خدمات پر مامور نہیں کرنا چاہتا جو فطرتا ان کے لیے موزوں نہ ہوں، اللہ نے ان کے لیے فضیلتوں اور ثواب میں کمی کیے بغیر انہیں یہ سب رخصتیں دی ہیں اور ایسا کرنے میں خود انہیں کی بھلائی اور آسانی اللہ کے پیش نظر ہے۔

مگر بد قسمتی سے ہوا یوں ہے کہ عورتوں کے لیے اسلامی شریعت میں رکھی گئیں سہولیات کو لوگوں نے، اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی، عورتوں کے خلاف سمجھ لیا اور ان کو ایک طرح سے عورتوں کی حق تلفی قرار دیا۔ یہ رویہ اچھی چیزوں سے برے معانی پیدا کرنے جیسا ہے۔ عورتوں کو گھروں میں رہنے کی اضافی تاکید ہو، ان کے لیے پردہ کا حکم ہو، گھروں میں نماز پڑھنے کے جواز بلکہ فضیلت کی بات ہو، غیر محرم اور اجنبی لوگوں سے ملنے سے احتراز اور خاص طور پر تنہائی میں ملنے کی ممانعت ہو، یہ سب ان کے لیے تحفظ، سہولیات اور بہتر سے بہتر ماحول فراہم کرنے کے نقطۂ نظرکے سبب سے ہے۔ یہ کسی کی فضیلت گھٹانے یا بڑھانے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ نے صاف اعلان فرمایا دیا۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم [الحجرات: 13 ] اللہ کے نزدیک زیادہ معزز و محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔

رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبے میں عورتوں اور غلاموں کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرتی زندگی میں یہ دو طبقات سب سے زیادہ کمزور رہے ہیں، ان کا ہمیشہ سے استحصال ہوتا رہا ہے۔ گھریلو ہنسا ( Domestic Vilance) کی شکار زیادہ تر عورتیں ہوتی ہیں یا پھر بچے اور گھروں کے ملازم۔ ہمارے اس مرد اساس معاشرے میں جو غالب قوت ہے وہ مرد کی ہے، مرد جسمانی طور پر بھی مضبوط ہوتا ہے، مزید یہ کہ دنیا کا معاشرتی سسٹم بھی مرد ہی کو زیادہ سپورٹ کرتا ہے اور عورت کے مقابلے میں وہ مرد کی طاقت کو زیادہ بڑھاتا ہے۔

کسب معاش انسانی حیات کے لیے اسی طرح ہے جس طرح جسم کے لیے روح اور کسب معاش کے ہر میدان میں مرد کو توفیق حاصل ہے، اس باعث مرد کے لیے یہ کافی آسان ہوجاتا ہے کہ وہ عورتوں کو من چاہے طریقے پر ستائے اور عورتوں کے لیے یہ مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ظلم و زیادتی سہتی رہیں۔ بس اسی خدشے کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے اپنی وفات کے قریبی وقت میں بھی خاص طور پر عورتوں کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کی۔

رسول اللہ ﷺ ظاہر ہے یہ تو نہیں کر سکتے تھے کہ وہ عورت کو مرد بنا دیتے یا اسے بھی اتنا ہی طاقتور بنا دیتے جتنا کہ مرد ہے، یہ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں بدل سکتی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے یہ کیا کہ عورتوں کے معاملات میں مرد کو قانونی اور اخلاقی بندشوں سے باندھ دیا تا کہ وہ ظلم سے باز رہے اور عورتیں مردوں کے گھروں میں محفوظ و مامون رہ سکیں۔

بالکل اسی طرح جس طرح ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، حکومتیں ہوتی ہیں، پارلیمنٹ ہوتی ہے اور عدالتیں ہوتی ہیں۔ اب یہ حکومتیں، پارلیمنٹ اور عدالتیں یہ تو نہیں کر سکتیں کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کو یکساں طاقتور بنا دیں، عورتوں کو بھی مردانہ قوت وجاہت دے دیں، اس لیے انہوں نے قوانین بنا دیے، عدالتوں میں جج بٹھا دیے اور کمزوروں کے لیے ایک متبادل طاقت فراہم کردی تاکہ وہ کمزوروں کے ساتھ کھڑی رہے۔ اور جب بھی کوئی طاقت ور آدمی کسی کمزور آدمی پر ظلم کرے تو کمزور اپنی پشت پر اخلاق اور قانون کی طاقت کھڑی ہوئی محسوس کرے۔ اور ایک کمزور شہری اس طاقتور شہری سے قانون اور عدالت کے سہارے اپنا حق وصول کر لے اور وہ اسے بھی اسی طرح کی تکلیف سے دوچار کردے جس طرح کی تکلیف سے طاقتور آدمی کے ذریعہ خود اسے گزرنا پڑا تھا۔

یہی عمل شریعت اسلامی نے کیا ہے، اس نے مرد کی ظالمانہ روش اور بے لگام غیض و غضب کو لگام لگانے کے لیے، اسلامی اخلاق و قوانین میں باندھ دیا ہے۔ اگر اسلامی قوانین کسی ملک میں پوری طرح نافذ ہوں اور ان کے ساتھ قوت نافذہ بھی ہو تو ظالم سے ظالم مرد بھی بلکہ شیطان بھی ان قوانین کے ہوتے ہوئے، کمزور مردوں، غلاموں اور عورتوں کو ستانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور جو مسلمان مرد اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لیے کسی طرح کی قوت نافذہ اور فوجداری قوانین کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ان کے لیے اخلاقی قوانین ہی بہت ہیں۔ ان کے لیے ہر طرح کے ظلم سے باز رہنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں۔ اسی ضمن میں مردوں کے لیے اللہ کا یہ حکم بھی ہے :وعاشروھن بالمعروف [النساء: 19 ]اور نبیﷺ کا یہ فرمان بھی: استوصوا بالنساء خیرا۔ اور یہ بھی: النساء شقائق الرجال[رواہ البخاری ( 3331 ) و مسلم ( 1468 ) ] عورتیں مردوں ہی کے مثل ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہوا کہ تخلیق میں اور حقوق میں مرد و عورت کے درمیان کچھ فرق نہیں، جس طرح دو مردوں کی تخلیق اور حقوق میں کچھ فرق نہیں۔

مرد اور عورت، دونوں کو ایک مرد ایک ایک عورت سے پیدا کیا گیا ہے، دونوں ہی تخلیق میں برابر سرابر کی اہمیت کے حامل ہیں اور نہ صرف ان کی خود کی تخلیق میں بلکہ روئے زمین پر انسانی نسل کے بقا و تحفظ میں اور پرورش میں بھی دونوں برابر کے حصے دار ہیں، بلکہ اللہ کے تخلیقی پلان کی تکمیل میں برابر کی ذمہ داری نبھا نے والے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے : یٰ۔ ٓایھا الناس انا خلقنٰکم من ذکرٍ و انثٰی [النساء: 1 ] اس آیت میں آدم و حوا کی تخلیق کے بعد اللہ نے دنیا میں جو تخلیقی عمل جاری و ساری کیا ہے، اس کا بیان ہے۔

اور اس بیان کی غایت یہ ہے کہ جب تمام انسان (مرد و عورت ) ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ہوئے ہیں تو ان میں کسی طرح کی کوئی تفریق کیسے روا رکھی جا سکتی ہے؟ دونوں کی تخلیق دونوں کے اجتماعی عمل سے وجود پذیر ہوئی ہے اور دونوں ہی روئے زمین پر اللہ کے تخلیقی منصوبے کو جاری ساری رکھنے میں یکساں عملداری رکھتے ہیں۔

کوئی بھی قانون ہو، اس کا بنیادی مقصد کمزور انسانوں کے حقوق کو پامالی سے بچانا ہے۔ معاشرے میں جو طاقتور فرد ہے وہ تو مخالف کی ناک توڑ کر اپنا حق خود ہی حاصل کر لے گا مگر جو کمزور ہے وہ طاقتور سے اپنے حقوق نہیں لے سکتا۔ دنیا میں اسی لیے قانون بنائے جاتے ہیں، قانون کی بنیادی شق یہی ہے کہ وہ کمزور کے ساتھ کھڑا رہے۔ اللہ کی شریعت بھی اخلاق و قوانین کا مجموعہ ہے۔ قرآن میں تاریخ، واقعات، حکمت، موعظت، سائنس اور غیب کی باتوں کے علاوہ اخلاق و قوانین بھی ہیں۔ اور قانون کے اساسی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ قرآن کمزوروں کے لیے ہے اور ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسی لیے قرآن میں امن اور انصاف قائم کرنے کی بات بار بار دہرائی گئی ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنائے گئے، اس وقت انہوں نے جو پہلا خطبہ دیا ہے، ذرا اس کے یہ عظیم الشان الفاظ دیکھیں :

”ایھا الناس فانی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم فان احسنت فاعینونی وان اسات فقومونی۔ الصدق امانةٌ والکذب خیانةٌ۔ والضعیف فیکم قویٌ عندی حتى ارجع الیہ حقہ ان شاء اللہ، والقوی فیکم ضعیفٌ عندی حتى آخذ الحق منہ ان شاء اللھ“ ۔ [سیرة ابن ہشام : 4 / 240، عیون الاخبار لابن قتیبة : 2 / 234۔ [

اس خطبے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے بنیادی اہداف میں ایک بڑا ہدف اور خلیفۃ المسلمین کے اساسی ذمہ داریوں میں ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ مسلمان رعایا میں انصاف قائم کیا جائے اور ظالم و مغرور انسانوں سے کمزور و غریب انسانوں کے حقوق دلوائے جائیں۔ اب اگر کسی مسلم معاشرے میں عورتوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں تو اللہ، اللہ کا قانون یعنی قرآن ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ اب اس کے بعد جو کچھ رہ جاتا ہے وہ اسلام کے احکام کو مسلم معاشرے میں نافذ کرنے کی عظیم ذمہ داری رہ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments