صحافت میں کیا رکھا ہے؟


بطور صحافت کے طالب علم جان، پڑھ، سن کر بہت حیرت ہوئی کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافیوں کو بے دردی و بے رحمی سے قتل کر دینا معمول عمل ہے، یا پھر ظلم و بربریت اور سفاکیت سے ملک کے حساس اداروں، دہشتگردوں، مافیاز کی طرف سے وقتاً فوقتاً صحافیوں کو مارنا، پیٹنا اغواء کر لینا ہاتھ پاؤں توڑ دینا کوئی بڑی بات نہیں، مزے کی بات یہ ہے پھر ان حملوں، ظلم و ستم کے واقعات پر عوام کو اعتبار ہی نہیں آتا، ہر کسی کی زبان پر عام ہوتا ہے کہ یہ صحافی تو ہے ہی جھوٹا، ملک دشمن ایجنسیوں کے پے رول پر ہے، اپوزیشن سے لفافہ لیتا ہے، یہ صحافی سب ڈرامے بازی کرتے ہیں، واہ بھئی واہ صحافی بیچارے عوام کے حقوق و آئین کے تحفظ اور حقائق پر مبنی خبریں معلومات عوام تک پہنچانے، آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نامعلوم افراد سے گولیاں، گالیاں مار پیٹ جوتے کھائیں، لیکن بدلے میں عوام کی ہمدردی صفر۔

جب گھر سے اعلیٰ تعلیم صحافت میں حاصل کرنے کے لیے شہر اقتدار آیا تو بہت کچھ سن رکھا تھا میڈیا اور اینکرز کے متعلق لیکن یہاں آ کر تو سب کچھ الٹ پایا، سر متین حیدر صحیح فرماتے ہیں کہ ہم ابھی ببلو ہیں، سیاسی حالات و واقعات، سیاسیات صحافت کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ خیر مدعے پر آتے ہیں دو سال سے لگ بھگ اسلام آباد اور ٹویٹر پر ایکٹو ہوں آئے روز اپنی آنکھوں سے کبھی مطیع اللہ جان کو اغوا ہوتے دیکھا ہے تو کبھی اپنے سینیئر دوست رپورٹر شاہد قریشی کے متعلق سننے میں آتا ہے کہ جرنیل سے باہر کے ملکوں میں اربوں کے کاروبار و جائیدادوں پر منی ٹریل، رسیدوں کے سوال پر نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

اور اب اسد طور پر حملے نے مجھے تو دہلا کر رکھ دیا ہے، حامد میر سمیت چند صحافیوں نے آواز اٹھائی تو روایتی انداز سے نوکری سے فارغ کروا دینا، گھر والوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں اور تھانوں میں ایف آئی آر کٹوا کر دبانے کی ناکام کوششیں کرنا ہمارے ملک کا الحمد للٰہ اب کلچر بن گیا ہے، اس گھٹن، آزادی اظہار رائے پر سخت پابندی، سینسر شپ کے ماحول میں جب مجھ جیسے کمزور دل کے اور چند ایک نئے آنے والے بچے جو کہ میڈیا میں اپنا دانہ پانی بنانے کا فیصلہ رکھتے ہیں، ریاست اور ریاستی ادارے ان کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ Committee to Protect Journalists کی رپورٹ کے مطابق 1992 سے لے کر 2015 تک جنوبی ایشیاء میں صحافیوں کو قتل کرنے میں پاکستان کا پہلا درجہ آتا ہے،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments