وزیرستان میں امن کی مکمل بحالی میں کیا رکاوٹ ہے؟


جنوبی وزیرستان کے علاقے تنگی بدینزائی لدھا میں ایک افسوسناک واقعے میں تین بچے شہید جبکہ دو شدید زخمی ہوتے ہیں تو لواحقین لاشوں سمیت مکین میں دھرنا دینا شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح جانی خیل میں مقامی مشر ملک نصیب کو نامعلوم افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنا دیتے ہیں اور جانی خیل کے مقامی لوگ لاش سمیت دھرنا شروع کر دیتے ہیں (جو کہ آخری خبریں آنے تک جاری ہے ) ۔ اس سے پہلے بھی جانی خیل میں نوجوانوں کے مارے جانے پر دھرنا دیا جا چکا ہے جو کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا کے ساتھ مذاکرات کے بعد ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا، یاد رہے کہ پچھلے دھرنے میں مرحوم ملک نصیب نے کافی سرگرم کردار ادا کیا تھا۔

اسی طرح رمضان المبارک میں بی بی زائی مکین واقعے میں بھی دو نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا تھا اور لواحقین نے لاشوں سمیت مکین تحصیل بلڈنگ کے سامنے دھرنا دیا تھا جس کا علاقائی لوگوں نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جنوبی وزیرستان کے اکثر علاقوں میں امن و امان کی صورتحال اچھی ہے اور اس کا کریڈٹ سیکورٹی فورسز کو نا دیا جانا زیادتی ہوگی میں خود گزشتہ ایک ماہ سے اپنے گاؤں میں مقیم ہوں، نائن الیون کے بعد اس سے پہلے اتنا عرصہ مسلسل اپنے گاؤں میں نہیں رہا تھا لیکن اس وقت بھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ہیں کہ امن کی خرابی محض چند دنوں کی بات ہے اور اس بے اعتمادی کی ایک دو ٹھوس وجوہات بھی ہیں، جیسے کہ جنوبی وزیرستان کے شکتوئی وغیرہ کچھ ایسے علاقے ہیں کہ جہاں امن خراب ہو سکتی۔

اسی طرح شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے کامیاب اعلان کے باوجود واپسی کے بعد اب تک سینکڑوں افراد ٹارگٹ کلنگ کے شکار بن چکے ہیں۔ شمالی وزیرستان کی پراسرار بدامنی کے پورے علاقے پر منفی اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں اور اس حوالے سے لوگوں کے سوالات کا کسی کے پاس جواب موجود نہیں ہے۔ جیسے جیسے شمالی وزیرستان میں اس طرح کے واقعات ہوں گے ویسے ویسے لوگوں اور حکومت میں پہلے سے موجود عدم اعتماد مزید بڑھتی جائے گی جو کہ یقیناً نقصان دہ بات ہے۔

اس وقت جنوبی وزیرستان میں اکثر علاقوں میں بنیادی نقصان لینڈ مائنز کی وجہ سے ہو رہا ہے جس کے بارے میں گزشتہ کافی عرصے سے احتجاج ہو رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی ایسی کوشش دیکھنے کو نہیں ملی جس کی بات کی جا سکے۔ میں بارہا یہ بات کہتا آیا ہوں کہ حکومت اور عوام کے درمیان شدید غلط فہمیاں موجود ہیں جس کو دور کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اکثر حکومتی اہلکاروں سے بات ہوتی ہے تو وہ یہ بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مقامی سطح پر ہمارے ساتھ تعاون کا فقدان ہے جس کا جواب میں گزرے حالات کے تناظر میں دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ بھلا کوئی کیوں مرنا پسند کرے گا؟

لیکن حکومت کو ایک اور بات بھی نوٹ کرنی پڑے گی کہ ایک عام شہری ریاست کو سپرمین سمجھتی ہے بلکہ میں خود بھی اسی زاویے سے سوچتا ہوں کہ حکومت سب کچھ کر سکتی ہے لیکن حکومتی ذمہ داران کے کردار کی وجہ سے سپرمین کی اہلیت پر مجھے شک بھی ہونے لگتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ عوام حقیقت میں بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی غلطیاں کرتے بھی ہیں تو ریاست ان کے ساتھ ضد نہیں کر سکتی بلکہ کرنی بھی نہیں چاہیے۔ بہت سی جگہ سنتے ہیں کہ فلاں تنظیم یا تحریک یا سیاسی جماعت کی وجہ سے مسائل کے حل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو کہ میری نظر میں مضحکہ خیز ہے۔

میں خود اپنے لئے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے احتجاج میں بھی جاتا ہوں ایسی باتیں بھی کر دیتا ہوں جو کئی لحاظ سے میرے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں اور اگر مسائل حل ہو چکے ہوتے، بچوں کی مستقبل خطرے سے باہر دیکھتا تو بھلا کیوں کسی ایسے ٹولے میں بیٹھتا جس سے میرے مستقبل کو فائدے کے برعکس نقصان کا اندیشہ ہو؟ میں یہاں کے لوگوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی سنگین مسئلہ سامنے آ جاتا ہے اور لوگ ردعمل دینا شروع کر دیتے ہیں۔

جو لوگ اس ردعمل کو کسی تنظیم یا تحریک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بالکل غلط سوچتے ہیں۔ بیشک وہاں ہر تحریک یا جماعت کے عہدیداران موجود ہو سکتے ہیں لیکن سننے والوں کا تعلق صرف اپنے علاقے کے تکالیف سے ہوتا ہے۔ جہاں تک لاشوں کی سیاست کا تعلق ہے تو ہمیں ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر سوچنا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ ہمارا بچہ اس طرح کے کسی سانحے کا شکار بنیں تو کیا اربوں روپے بھی تمہارے دکھ کو کم کر سکتے ہیں؟

دوسری بات یہ ہے کہ والدین کیسے برداشت کر رہے ہوں گے جب ان کے جگر کے ٹکڑوں کی لاشیں یوں بے آسرا پڑی ہوں؟ یہاں سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ نیا ٹرینڈ کیوں بن رہا ہے کہ خود والدین اپنے بچوں کی لاشیں احتجاج کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ یہاں کے لوگ مزید جنگوں سے عاجز آچکے ہیں مزید اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور جو لوگ اپنے بچوں کی لاشیں دینے تک خود کو آمادہ کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر علاقے کے دیگر بچوں کی حفاظت کے لیے قربانی دیتے ہیں جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یعنی حکومتی سطح پر سب سے پہلے یہاں مستقل امن کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے یہاں کے لوگ پارٹی باز ہرگز نہیں ہے لیکن حالات نے ان کو اس طرف جانے کے لیے مجبور کر رکھا ہے۔ آپ اگر ضرب عضب جیسے بڑے آپریشن کا کریڈٹ لیتے ہیں تو لوگوں کے یہ سوالات حق بجانب ہیں کہ شمالی وزیرستان میں روز ٹارگٹ کلنگ کیونکر ہوسکتے ہیں؟ لہذا حکومتی ذمہ داروں کو سوچنا چاہیے کہ پندرہ بیس سالوں سے مسلسل تکالیف کے شکار ان لوگوں کے لیے اب کچھ کرنے کے دن ہیں۔ یہاں سکولز کالجز ہسپتال، یونیورسٹیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کی کمر حقیقت میں ٹوٹ چکی ہے دوسرا لفظ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن خدارا ہمارے ساتھ ضد نا کیجئے رحم کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments