کیا قطر اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں ماضی والی گرم جوشی آئے گی؟


قطر

چار سال قبل خلیجی ممالک کے تعلقات ایک بے مثال دراڑ کا نشانہ بنے تھے جس سے مشرقِ وسطیٰ کے اہم اتحادوں میں ردوبدل ہوئی تھی تاہم جنوری میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، اور ان کے غیر خلیجی اتحادی مصر کی ناراضگیاں جیسے مٹا دی گئیں اور ایک حیران کن مفاہمت کا اعلان کیا گیا۔

اس وقت سے دوحا اور دیگر فریقین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں مگر جب اس مفاہمت کا اعلان کیا گیا تو یہ تاثر پا جا رہا تھا کہ اس سارے میں معاملے میں قطر فاتح رہا ہے۔

قطر نے بحران کے آغاز پر حریفوں کی جانب سے رکھی گئی کوئی شرط نہیں مانی جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ مفاہمت حقیقی انداز میں خلیجی ممالک کو اکھٹا کرنے کی کوشش ہے یا نئی امریکی انتظامیہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ڈھونگ ہے۔

اب بھی یہ مذاکرات جاری ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ بات کہاں تک جائے گی۔

قطر اور سعودی عرب کے تعلقات کیسے ہیں؟

سعودی عرب کو جون 2017 میں قطر کے بائیکاٹ کا لیڈر مانا جا رہا تھا اور اب اس سال جنوری میں اسے اس مفاہمت میں بھی لیڈر ہی تصور کیا جا رہا ہے۔

جنوری میں جی سی سی کے سربراہی اجلاس کو آخری لمحے پر کویت سے سعودی شہر الاولا منتقل کیا گیا تاکہ مفاہمت کا اعلان کیا جا سکے۔

سنہ 2017 میں صورتحال کافی مختلف تھی جب سعودی عرب قطر پر دہشتگردوں کی حمایت کرنے اور ایران کے بہت قریب ہونے کے الزامات لگا رہا تھا۔

مگر بظاہر ماضی کی تلخیاں ایک لمحے میں ہوا ہو گئیں جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے الاولا پہنچنے پر قطری امیر تمیم بن حماد الثانی کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔

تب سے دونوں ممالک نے سربراہی دوروں اور فون پر بات چیت میں اپنے ’برادرانہ‘ تعلقات پر زور دیا ہے۔

قطر

قطر نے ایران کے خلاف سعودی مؤقف کی تائید بھی کی ہے جو بظاہر ایک یوٹرن ہے کیونکہ ماضی میں قطر نے ایران کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مثبت کہا تھا اور یہی دونوں ممالک کے درمیان تلخی کی وجہ تھی کیونکہ سعودی عرب ایران کو خطے میں سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔

ایران کی جانب جھکاؤ 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے تناظر میں تھا جس سے امریکہ سنہ 2018 میں دستبردار ہو گیا تھا۔

دیگر ممالک کے تعلقات کیسے ہیں؟

جی سی سی سربراہی اجلاس کے قریب سعودی اتحادی قطر سے واپس دوستی کرنے کے لیے رضامند نہیں معلوم ہوتے تھے۔ مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ریاستی میڈیا اور حکومتی بیانات سے اس کا امکان کم ہی معلوم ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

قطر خلیجی ممالک کو کھٹکتا کیوں ہے؟

قطر کے ساتھ کشیدگی کی چار وجوہات

قطر: ’کفیل‘ کا نظام ختم کرنے کا اعلان

قطر

تاہم اب چیزیں بدل رہی ہیں اور یہ ممالک قطر کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مثبت پیشرفت کی بات کر رہے ہیں۔ اسی طرح قطری وزیرِ خارجہ محمد بن الرحمان بن ثانی نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ جاری مذاکرات کو ایک انٹرویو میں مثبت قرار دیا ہے۔

تاہم متحدہ عرب امارات نے شاید اپنے سابق حریف سے تعلقات میں بہتری کے لیے زیادہ تیزی سے اقدامات نہیں کیے ہیں اور اسی لیے قطری ریاستی میڈیا چینل الجزیرہ نے متحدہ عرب امارات کے حوالے سے بھی کوئی زیادہ اچھی کوریج نہیں کی۔

کیا تعلقات میں پرانے تناؤ کے آثار ہیں؟

تعلقات میں ظاہری بہتری کے باوجود مکمل مفاہمت کا راستہ نہ اتنا آسان ہے اور نہ ہی اب تک اتنا آسان رہا۔

الجزیرہ کئی مرتبہ اپنے حریف ممالک کے بارے میں ایسی خبریں دیتا رہا ہے جو کہ زیادہ اچھی نہیں ہیں۔ مثلاً حال ہی میں الجزیرہ نے ایک یمنی جزیرے پر ایک خفیہ اماراتی فوجی اڈے کی اطلاع دی ہے۔

اسی طرح حال ہی میں اسرائیل اورغزہ کے درمیان جھڑپوں میں الجزیرہ نے اماراتی سفیر کے اسرائیل کی شاس پارٹی کے سربراہ سے ملاقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چینل نے اس پارٹی کو ایک شدت پسند تحریک کہا ہے۔

ادھر مصر قطر کی جانب سے اخوان المسلمین کی حمایت کو کئی برسوں سے برا سمجھتا ہے۔ اس تنظیم کو مصر میں سنہ 2013 کے بعد سے ایک دہشتگرد تنظیم کہا جاتا ہے۔

اگرچہ قطر نے مصری صدر عبد الفتح السیسی اور ان کی حکومت پر تنقید کم کر دی ہے، اخوان المسلمین کے قطر میں مقیم اراکین کی وطن واپسی کا معاملہ ابھی بھی کھڑا ہے اور مصر کا مطالبہ ہے کہ انھیں واپس مصر بھیجا جائے۔

ادھر قریبی ملک بحرین کے ساتھ بھی مشکلات ہیں اور بحرین نے تو دوحا پر یہ تنقید بھی کی ہے کہ انھوں نے مذاکرات کے لیے وفد نہیں بھیجا۔ بحرین نے اکثر الجزیرہ پر سلطنت میں جیلوں کے حالات اور انسانی حقوق کی صورتحال دیکھانے کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے۔

اگرچہ بحرین کے احتجاج میں کمی آئی ہے، بحرین وہ واحد ملک ہے جہاں قطر کا رسمی طور پر مذاکراتی وفد نہیں گیا جو شاید اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قطر بحرین کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp